سیکولرازم اور دیسی لبرلنظریات و مذاہبِ عالم

غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

غازی علم دین آکسفورڈ یا کیمرج یونیورسٹی کا اعلی تعلیم یافتہ ماڈرن مسلمان نہیں اپنے محلے کے مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے والا ایک عام مسلمان تھا


Share this
حرمت رسالت مآب ﷺ پر اپنی جان نچھاور کرنے والا سفید پوش عاشق رسول غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ موچی دروازے لاہور کے کوچہ چابک سوارں کے مزدور پیشہ غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے  والد طالع محمد پیشے کے اعتبار سے معمولی ترکھان تھے. غازی علم دین آکسفورڈ یا کیمرج یونیورسٹی کا اعلی تعلیم یافتہ ماڈرن مسلمان تھا اور نہ پاکستان کے  سیکولر میڈیا کا ایسا پرستار کہ جو توہین رسالت ﷺکو معمولی نوعیت کا فعل قرار دیکرانسانی حقوق کے نام پر خاموشی اور منافقانہ درگذر کا  نظریہ رکھتا ہو۔ وہ امریکی برانڈ اسلام کا پیروکار روشن خیال نہیں بلکہ اپنے محلے کے مدرسے تعلیم حاصل کرنے والا ایک عام سا مسلمان تھا۔
 
غازی علم دین  نے بنیادی تعلیم کے بعد اپنے  والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین  سے  ترکھان  کا     ہنر  سیکھا ۔  اور کچھ عرصہ بعد کوہاٹ کے بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا. احباب تاریخ شاہد ہے کہ نبیء آخر الزماں صلی اللہ علیہ کے کسی گستاخ نے جب بھی ان کی توہین میں زباں کھولی یا قلم اٹھایا، شمع رسالت کے پروانے اس ملعون کو عبرت ناک سبق سکھانے کیلئے بے چین و بے قرار ہوگئے۔
 
دنیا کے کسی گوشے میں ناموس شہہِ دیں صلی اللہ علیہ وسلم پر شاتمانہ حملہ ہو،عاشقانہ مصطفے کا خون کھول اٹھتا ہے اور پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج بن کراٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی کھلی سرپرستی کے باعث متعصب ہندوﺅں نے متعدد بار ایسی ناپاک جسارت کی مگر سرفروشان اسلام نے شاتمانہ حرکت کے مرتکب کسی ملعون کو جہنم رسید کرنے میں دیر نہیں کی ۔
ایسے ہی جانبازوں اور سرفروشوں میں میرٹھ سے قاضی غازی عبدالرشید شہید ، صوبہ سندھ سے غازی عبدالقیوم شہید اور سید علی ہجویری کی نگری سے غازی علم دین شہید ہماری تاریخ کے وہ درخشاں ستارے ہیں جنہوں نے اپنی لہو کے نذرانے پیش کرکے چراغ رسالت کی ضوفشانی کا عظیم فریضہ ادا کیا ۔
 
سن  1923ء میں لاہور کے ایک ہندو پروفیسر چمو پتی نے ملعون سلمان رشدی کی طرح ایک گستاخانہ کتاب رقم لکھی جس میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی  ذات بابرکات پر ناروا حملے کئے گئے ۔ اس شاتمانہ کتاب کے چھپنے پر مسلمانان برصغیر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ ہر جانب بے چینی و اضطراب کی کیفیت طاری تھی اور ہندو مسلم فسادات کا ماحول بنتا جا رہا تھا ۔
 
کتاب کے پبلشر راجپال پر فرقہ وار منافرت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلا اور عدالت نے مجرم کو دو سال قید با مشقت اور ایک ہزار جرمانے کی سزا سنائی مگر پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس متعصب ہندو سر شادی لال نے راج پال کو بری کر دیا ۔ اس فیصلے سے مسلمانان ہند میں بری طرح اشتعال و اضطراب نظرآنے لگا ۔ لہذا مسلمانوں کے ہر طبقہ فکر میں اس ملعون کو نابود کرنے کی کشمکش بڑھ گئی ۔
 
سب سے پہلے 17 ستمبر 1927ء کو ایک جری جواں خدابخش نے ملعون راجپال پر حملہ کیا مگر وہ بال بال بچ گیا۔ 19 اکتوبر ایک دوسرے جانباز عبدالعزیز نے راج پال کو واصل جہنم کرنے کی کوشش کی مگر ملعون پھر بچ نکلا ۔ دو مجاہدوں کی عظیم مقصد کے حصول میں ناکامی کے بعد اب  نوجوانان ملت کا جذبہء جنون اور آتشیں ہو رہا تھا، گستاخ رسول اللہ ص کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے، بلا تفریق مسلک تمام مسلمانوں کے دل و دماغ میں گستاخ راجپال کا قتل عظیم ترین مشن سمجھا جا رہا تھا۔
 
ایسی ہی مجاہدانہ و عاشقانہ کیفیات مسلم اشرافیہ، سیاسی  قائدین اورعلماء اکرام میں بھی برپا تھیں ۔ موچی دروازہ لاہورکے جلسہ ء عام میں مجاہد ختم نبوت سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے عشق رسول سے لبریز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر کوئی نوجوان میرے نانا کے اس ملعون گستاخ کو ہلاک نہ کرپایا تو حرمت رسول اللہ کی قسم یہ بوڑھا سید زادہ خود اپنے ہاتھوں سے یہ مقدس فریضہ سرانجام دے گا ۔
 
اس جلسہ میں شامل ہزاروں لوگوں میں سریا والا بازار لاہور کا ایک عام سا ترکھان نوجوان علم دین بھی موجود تھا ۔ شاہ جی کی اس پر اثر تقریر نے اس کے دل و دماغ میں بارود بھر دیا لہذا اس نے دل ہی دل میں ٹھا ن لی کہ کسی بھی قیمت پر اس گستاخ رسول کا کام تمام کرکے رہوں گا ۔ اوربالآخر وہ پان گلی انارکلی میں واقع ملعون راج پال کے دفتر میں اس لعین کو جہنم رسید کرکے مسلمانان ہند میں سرفراز و سر بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرا ۔
 
پورے ہندوستان میں گستاخ رسول ملعون راجپال کے قتل کا تہلکہ مچ گیا۔ خیبر سے راسکماری تک علم دین کی  سرفروشی کا ڈھنکا بجا ۔ عاشقان نبوی کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ اس ہندو گستاخ کے قتل کا عہد کرنے والے باقی تمام نوجوان روتے اور ہاتھ ملتے رہ گئے ۔
 
 غازی علم دین شہید گرفتار ہوئے اور سیشن عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد انہیں سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا جس کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی۔ علامہ اقبال اور دوسرے مسلم رہنماؤں نے غازی علم دین کی وکالت کیلئے قائداعظم کو ممبئی سے لاہور بلوایا ۔ پندرہ جولائی 1929ء کو سماعت کے دوران قائداعظم نے اپنے مخصوص انداز میں دلائل کے انبار کھڑے کردیے جس سے مقدمہ بے جان نظر آنے لگا ۔ قائد کی مدلل اور پر مغز وکالت کا اگلے دن اخبارات نے تذکرہ کیا مگر ہندو  ججوں  نے لوئر کورٹ کا فیصلہ بحال رکھا جو ناقابل فہم اور متنازعہ  تھا ۔
 
روایات یہ بھی ہیں کہ غازی علم دین شہید نے جناب قائد اعظم کے مشورے کے مطابق اپنے اقرار جرم سےانحراف  کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ گویا ایک عاشق رسول ص کو اپنے مقدس جرم کے اقرارسے مکر جانا قبول ہی نہ تھا۔ کہ وہ تو  ہر سچے عاشق رسول ص کی طرح شہادت عظمی کا دلی طلب گار تھا۔  
۔۔
غازی علم دین شہید نے لاہور میں تدفین کی وصیت کی ۔ 31  اکتوبر 1929ء کو شہر لاہورکا یہ عظیم فرزند اور ناموس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سپاہی پھانسی کا پھندہ چوم شہادت کے منصب عظمی پر فائز ہوکر ہمیشہ  کیلئے زندہ و جاوید ہوگیا ۔ افسوس کہ پاکستان میڈیا بھارتی اداکار راجیش کھنہ اور راج کپور کی برسی پر پروگرام دکھا کر امن کی آشا برانڈ ہندوآتہ سے وفا ضرور نبھاتا ہے مگر غازی علم دین شہید کے یوم شہادت کے حوالے سے پروگرام نشر کر کے اپنے مغربی آقاؤں  کو ناراض کرنے کا خطرہ کبھی مول نہیں لے گا۔
 
شہید کو میانوالی جیل صبح سات بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ شہسوارِ شہادت کو آٹھ بجے پھانسی گھاٹ سے اتا رنے کے فوراً بعد بہیمانہ انداز میں نو بجے بغیر نماز جنازہ ہی دفن کر دیا گیا ۔ قانونی و اخلاقی بد دیانتی کی یہ دل آزار خبر شام ڈھلے تک پورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی ۔ پوری امت
مسلمہ ہیجان کی کیفیت سے دو چار تھی، ہر مسلمان کا مطالبہ تھا کہ شہید کی میت کو اس کی وصیت کے مطابق لاہور میں دفن کیا جائے ۔

 
مسلمانوں نے برکت علی محمڈن ہال میں علامہ اقبال کی زیر صدارت جلسہ کا پروگرام بنایا ۔ یکم نومبر کو حضرت علامہ اقبال کے گھر جلسہ منعقد ہوا ۔ اگلے  دن 2  نومبر کو پروفیشنل مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس میں علامہ اقبال کی تحریک پر یہ قرار داد منظور ہوئی کہ علم الدین شہید کی لاش نہ دے کر حکومت نے حماقت کی ۔ سو حکومت اب بھی اس غلطی کی اصلاح اورمسلمانوں کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کر سکتی ہے ۔
 
پانچ نومبر کو حضرت علامہ اقبال ، سر محمد شفیع اور ڈاکٹر خلیفہ شجاعت الدین پر مشتمل مسلم وفد نے گورنر سے ملاقات کی ۔ سو مسلمانوں کے جوش و بے چینی کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریز حکومت کی طرف سے شہید کی لاش لاہور لانے کا اہتمام کیا گیا ۔ بزرگ بتاتے تھے کہ شہادت کو پندہ دن گزر چکے تھے، لاہور آنے سے قبل شہید کی لاش دو ہفتے تک قبر میں دفن رہی ۔ لیکن سبحان اللہ کہ شہید عاشق مصطفے کی لاش ترو تازہ اور کسی بھی تعفن سے پاک تھی۔
 
قارئین یاد رہے کہ اس موقع پر مسلمانوں نے اپنےمطالبے میں جس کامل اتحاد کا ثبوت دیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا ۔ اس کا سہرا حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ اور  مولانا ظفرعلی خان جیسے متحرک رہبر اور کارکنان علم دین کمیٹی کے سر ہے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ برصغیر میں ہونے والے کسی جنازہ میں عوام الناس کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت بہت کم موقع پر نظر آئی، جتنی غازی علم دین شہید کے جنازے میں تھی۔ 14نومبر 1929 کو غازی علم دین شہید کی وصیت کے مطابق انہیں بہاولپور روڈ کے قریب قبرستان میانی صاحب لاہور میں دفن کیا گیا۔
 
مسندِ عشق پہ بیٹھے ہیں محمد کے گدا ہیں
مرحبا اپنے مقدر کہ سکندر سے سوا ہیں 
۔
اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے میرا اور آپ کاعشق مکمل ہی نہیں جو میرے اور آپ کے درون دل سے یہ صدا نہ نکلے۔ کہ  ہمارے آبا واجداد، ماں باپ، آل اولاد اور آنے والی تمام نسلیں ان کی ناموس پر قربان ہوں۔ مالک کائنات کی عطا کردہ  یہ زندگی سو بار بھی ملے تو ہر بار، ہزار بار ان کی ناموس پر قربان ہو۔
۔
 مسلمانوں کیلئے  صرف نبی آخر الزماں ﷺ   نہیں سیدنا آدم سے سیدنا عیسیٰ تک ہر نبی کی ناموس کی پاسبانی فرض ہے۔  یاد رہے کہ   نبی ء  رحمۃ اللعالمین  ﷺنے فتح مکہ کے موقع پر تمام کافروں اور منافقین کیلئے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن  ساتھ ہی آپ  ﷺ نے   کعب بن اشرف سمیت 12 گستاخان رسالت کے بارے یہ حکم  بھی جاری کیا تھا کہ ان  گستاخان رسول اللہ کیلئے کوئی معافی نہیں ہے۔ یہ گستاخان نبوت  اگر غلاف کعبہ میں  بھی چھپ جائیں ،  انہیں وہاں بھی قتل کر دیا جائے۔
۔
جناب خان صاحب آپ  روز محشر  مالک کائنات  کی عدالت  میں  جواب دہ ہوں گے کہ  آپ کے دور  اقتدار  میں  ایک سزائے موت یافتہ   مصدقہ گستاخِ رسول آسیہ بی بی کو  گورے آقاؤں کے حوالے کیا گیا۔  گذشتہ دنوں میں  اعلی سطح  کی  تحقیقات ،   تمام واضع  ثبوتوں کی موجودگی اور مجرموں  کے  اقرار جرم کے بعد عدالت سے سزائے موت پانے والے  ایک عیسائی جوڑے کو یورپی پارلیمنٹ کے دباؤ پر بری کروا دیا گیا۔
  
فقر کشکول نہ مسند کی گدائی ہے میاں
 عشق قیصر کا نہ کسریٰ کا مجازی ہے میاں
 
میں ہوں درویش مرا عشق بھی عالم سے جدا
میرا محبوب بھی محبوبِ الہی ہے میاں
 
تحریر فاروق درویش.. واٹس ایپ کنٹیکٹ.. 00923224061000

بال ٹھاکرے کی گستاخِ رسول وارثہ آنجہانی عاصمہ جہانگیر

افواجِ پاکستان کیخلاف بھارتی را برانڈ زہریلی پراپیگنڈا مہم کی اصل بانی یہ بال ٹھاکرے کی خصوصی داسی یہی آنجہانی عورت تھی


Spread the love

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن سے منسلک ہیں ۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Back to top button