سیکولرازم اور دیسی لبرلنظریات و مذاہبِ عالم

کاش میاں صاحب اکبر بادشاہ نہ بنتے

اگر حکمران اور ادارے ایٹمی دھماکے کرتے وقت پوری دنیا کے دباؤ کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو اپنے نبیء آخرالزمان ﷺ کی ناموس و حرمت کی پاسبانی کیلئے سامراج اور مغربی دنیا کے سامنے سینہ تان کر کھڑے کیوں نہیں ہو سکتے


Share this

چند  برس قبل  ایکسپریس ٹریبون اور دوسرے انگریزی پیپرز میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ نواز حکومت نے سامراجی و مغربی دباؤ پر توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم کا دجالی بل تیار کر کے رکھ لیا ہے، جو کسی خود ساختہ بد امنی یا مغربی ساختہ  توہین رسالت سے پیدا صورت حال کے بعد امن کے کیلئے ضروری قرار دیکر  کسی بھی وقت اسمبلی میں پیش کر کے پاس کروایا جائے گا۔ لیکن مقتدرِ اعلیء ہفت افلاک کو کچھ اور ہی منظور تھا اور پھر میاں صاحب خود ہی نہ رہے  ۔

خیال رہے کہ اس دجالی سازش کے حوالے سے انتہائی ہوشیاری یہ دکھائی گئی  کہ پریس اینڈ میڈیا  کو اس انتہائی اہم خبر کی عمومی اشاعت سے روک دیا گیا ۔ لہذا یہ خبر صرف چند ایک انگریزی اخبارات ہی میں چھپی جبکہ تقریباً تمام اردو اخبارات نے حکومتی ایما پر اسے مکمل طور پر نظر انداز کر  دیا ۔  مغربی غلام سرکار اس حقیقت سے آگاہ تھی  کہ انگریزی اخبارات پڑھنے والے لوگ دس فیصد سے بھی کم ہیں۔ لہذا کوشش کی گئی کہ اردو اخبارات پڑھنے عوام الناس کی  نوے فیصد اکثریت ، اس دجالی بل پیش ہونے تک اس  سے کلی بے خبر رہیں۔

اس خبر کو میڈیا میں بلیک آؤٹ کروانا جس حکومت کی” خاموش حکمت عملی ”  کا حصہ رہا ، ممتاز قادری کو سزائے موت دیکر آسیہ بی بی کو جیل میں سرکاری مہمان بنا کر رکھنے والی  وہ حکومت  قدرت کی خاموش لاٹھی کا نشانہ بن گئی ۔ افسوس کہ آنجہانی عاصمہ جہانگیر جیسے گستاخانِ قرآن و رسالت مشیروں کا کھلونا بننے والے  میاں صاحب نے یہ بھی نہ سوچا کہ کیا وہ ایسی کسی مہم جوئی کے رد عمل میں اٹھنے والا کوئی خونی طوفان روک سکیں گے؟ مگر وہ آخر تک اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کی بجائے  اسی گستاخ ِ رسول  آنجہانی عاصمہ جہانگیر اور سیفما برانڈ انٹی مذہب عناصر کو حلیف  بنا کر گرداب سے نکلنے کی خود فریب  کوششوں میں مصروف رہے

ملعونہ آسیہ بی بی کو سزا سے بچانے والوں کا انجام  خوشگوار نہ تھا اور نہ ہی اسے امریکہ بھیجنے والوں کا انجام کچھ مختلف ہو گا۔  بی بی اور زرداری  کی چہیتی فوزیہ وہاب کا توہین رسالت کے قوانین کو کالے قوانین کہتے ہوئے افلاک کی آہنی گرفت میں آ کر پراسرار انداز میں ہلاک ہونا بھی عبرت انگیز حقیقت تھا ۔ پی پی دور ہی میں بی بی زرداری کی کار خاص شیریں رحمن نے بھی توہین رسالت کیخلاف بل قومی اسمبلی میں جمع کرایا مگر پھر خود ہی اوندھے مونہہ جا گریں۔

یہ ایک الگ موضوع بحث ہے کہ ان غیرت مند جیالوں کو اپنی بی بی کے قاتلوں کو پکڑنے اور انہیں سزا دلانے کیلئے کوئی آواز اٹھانے یا کوئی بل جمع کروانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ اور پھر میاں صاحب کے پریس منسٹر پرویز رشید بھی ماڈرن اتا ترک بننے کی کوشوں میں مذہبی اقدار کیخلاف ہرزا سرائی کیلئے میدان میں اتر کر عوام کے دلوں اور اپنی کرسیء وزارت  سے اتر گئے۔ یہ تمام لوگ بھول چکے تھے  کہ زمانہء نبوت سے تا حال ان مقدس قوانین کو دجالی تنقید کا نشانہ بنانے والوں کا قدرتی انجام آنے والے زمانوں کیلئے عبرت ضرور رہا ہے۔

بدقسمتی سے یہ ہماری سیاسی روایت رہی ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاست دان امریکی خوشنودی اور مغربی تابعداری کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ اکابرین  ریاست و سیاست  مغرب کی غلامی ہی کو اپنی عافیت و بقا اور حصول اقتدار کا اولین ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن کیا مغربی آشیرباد کے متلاشی حکمرانوں کو  ناموس رسالت کا بھی کوئی پاس نہیں رہتا ۔

کیا کسی حکمران میں  ڈکٹیشن دینے والوں سے  یہ سوال کرنے کی بھی جرات نہیں کہ صدیوں تک امریکہ اور برطانیہ میں توہین مسیح کو  قابل سزا سنگین جرم سمجھنے والے، توہین رسالت کے قوانین پر اعتراضات اٹھانے کا حق کیونکر رکھتے ہیں؟ بغور جائزہ کیا جائے تو پاکستان میں نافذ توہین رسالت کے قوانین تو بلا تفریق مذہب و مسلک سب کیلئے ہی یکساں سزا ہے۔ کوئی غیر مسلم ہی نہیں بلکہ اگر کوئی مسلمان بھی اس گناہ عظیم کا مرتکب ہو تو وہ بھی واجب القتل ہے۔ لیکن مغرب کی کھلی منافقت دیکھیں کہ جب کوئی مغربی عیسائی یا مسلمان مغرب میں توہین رسالت کرتا یا قرآن جلاتا ہے تو مغربی یا امریکی امن گرد اس پر کبھی نہیں چیختے۔

عجب دو رنگی ہے کہ جب بھی کسی عیسائی ، ہندو یا قادیانی زندیق پر توہین رسالت کے قوانین کا آہنی ہاتھ پڑتا ہے تو سامراج و مغرب اوراین جی او بدروحوں کے سرپرست بھارت دیش میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ امریکہ اور مغرب کے میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کیخلاف ہرزا سرائی کا طوفان اٹھتا ہے ۔ لیکن جب کوئی پاکستانی بدبخت مسلمان توہین نبوت کا مرتکب ہوتا ہے تو پھر یہودی و عیسائی لابی اس قانون کیخلاف اسی طرح متحرک و سرگرم کیوں نہیں ہوتے؟ کیا یہ چاہتے ہیں کہ تمام ہندو سکھ عیسائی اور قادیانی گستاخین کو پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کیلئے مکمل فری ہینڈ دیا جائے؟

یاد رہے کہ توہین پیغمبر کے قوانین میں تخفیف و تبدیلی کیلئے ” بے گناہ پر غلط الزامات ” کو وجہ و جواز بنایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے انتہائی اہم اور قابل توجہ امر ہے کہ جھوٹے اور لغو الزام کے حوالے سے تعزیزات پاکستان کی دفعہ 182 پہلے سے موجود ہے ، جس کے تحت جھوٹا الزام لگانے والا کاذب شخص صرف سزا کا ہی مستحق نہیں بلکہ بے گناہ و معصوم شخص کو ہرجانہ ادا کرنے کا بھی سزاوار و پابند ہے۔۔۔

آج کے حکمرانوں سے التجا ہے کہ  میاں صاحب کی تقلید میں ہیبت افلاک سے نہ ٹکرائیں۔ توہین رسالت کے قانون کیخلاف  مغربی  سازش کا حصہ نہ بنیں۔ توہین رسالت کی سزاؤں میں تبدیلی و تخفیف کی بجائے، جھوٹا الزام لگانے والے فتنہ گر  کاذبین کی روک تھام کیلئے  تعزیزات پاکستان میں پہلے سے موجود آرٹیکل 182 کو فول پروف اور موثر تر بنائیں۔ ہاں اگر کسی مائی کے لال نے توہین رسالت کے قوانین میں تبدیلی و تخفیف کی جرات کی تو میرا دعوی ہے کہ اس ملک میں شدت پسندی اور بدامنی کا وہ ہولناک خونی طوفان اٹھے گا جو حکومت ہی نہیں پورے خطے کے امن کو بھی کو بہا کر لے جائے گا۔

اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا ، تو افواج پاکستان نے اس ملک میں امن کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے جوبے مثال قربانیاں دیں وہ رائیگاں جائیں گے۔  فاروق درویش کا دعوی ہے کہ مستقبل میں ایسی حماقت کا سوچنے  والے اگر  میاں صاحب کی طرح دست قدرت کا نشانہ نہ بنے تو کم از کم  پاکستان میں وہی خون آشام حالات پیدا کرنے کے ذمہ دار ٹھہریں  گے ، جو نریندرا مودی اور را چاہتے ہیں۔ گویا یہ  یہود و نصاری اور ہندوتوا کی ایسی خطرناک  گیم ہے کہ قوم نظریاتی طور بھی تقسیم ہو جائے اور شدت پسندی اور بدامنی کی بجھتی ہوئی آگ پر بھی از سر نو تیل چھڑکا جائے۔

  سبق آموز  تاریخی حقائق گواہی دیتے ہیں  کہ  وہ  زمانہ اسلام سے پہلے کا رومن، یونانی یا عیسائی معاشرہ ہو یا ظہور اسلام کے بعد کی مسلم اور عیسائی  ریاستیں ، اپنے مذہب کا ہر غدار،  اپنے ملک و قوم کا بھی غدار ثابت ہوا۔ ، آسمانی مذاہب اور قوانین قدرت کا کوئی باغی بھی اپنے عبرت ناک انجام سے بچ نہیں پایا۔  بائبل کی مشہور کردار جوڈتھ نے عوام کو شاہ گڈ نصر کی پوجا پر مجبور کرنے والے جرنیل ہولوفرنس کا سر تن سے جدا کر کے  انجام تک پہنچایا تو آج بھی مغرب  اسے ایک عظیم ہستی  مانتا ہے۔

جبکہ یہی مغرب ہماری مذہبی شخصیات  کا خود بھی تمسخر اڑاتا ہے اور سلمان رشدی اور مرزا قادیانی کے گستاخانِ مذہب  پیروکار بھی پالتا ہے۔  ذرا سوچئے کہ یہی مغرب جو توہین مسیح کے جرم کیلئے خود صدیوں تک موت کی اور عمر قید کی سزا دیتا رہا ، وہ ہم مسلمانوں کو اپنے نبی کی حرمت کی پاسبانی سے کیوں روکتا ہے۔  اہم سوال یہ ہے کہ اگر حکمران ایٹمی دھماکے کرتے وقت پوری دنیا کے دباؤ کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو اپنے نبیء آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت کی پاسبانی کیلئے سامراج اور مغربی دنیا کے سامنے سینہ تان کر کھڑے کیوں نہیں ہو سکتے؟

 خدارا اس ملک خداد میں معشیت کی بحالی اور غربت و افلاس کے خاتمے کیلئے،  پائیدار امن کی فضا بحال ہونے دیں۔ خدارا افواج پاکستان اور عوام کی ساٹھ ہزار شہادتوں کے لہو سے سینچے گئے ، تن آور بنتے ہوئے امن کے ہرے بھرے درخت کی جڑوں اور خود اپنے پیروں پر اندھی کلہاڑی نہ ماریں۔ خدارا اسلام کو دین محمدی ہی رہنے دیں ، امریکہ، مغرب  اور چارلی ایبڈو کا پسندیدہ  برانڈ  اسلام یا دین اکبری بنا کر اکبر بادشاہ یا اتا ترک بننے کی کوشش میں اپنی دنیا اور عاقبت برباد نہ کریں ۔

معرکہ حطین میں گستاخ رسول صلیبی سردار جیرالڈ کا اپنے ہاتھوں سے سر تن سے جدا کرنا والے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا وہ حکمران بنیں جو حلقہ یاراں کیلئے بریشم، رزم حق و باطل میں فولاد اورگستاخین رسول کیلئے موت کا پیغام ہو۔ ذرا سوچیں کہ امریکی اور برطانوی آقاؤں کی طرف سے اقتدار میں طوالت کی منظوری ملنے ہی ہفت فلاک سے خالق کائنات کا بلاوہ آ گیا تو محشر میں امریکی سرپرست سفارش کریں گے یا مغرب کے بادشاہ گر ۔۔۔

اک نام محمد ہے کروڑوں ہیں فدائی
درویش اسی در کی فقیری ہے شہنشاہی

( فاروق درویش — 00923224061000 )


رافیل بمقابلہ جے ایف 17 کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

رافیل بمقابلہ تھنڈر نہیں اصل فرق ابھینندن بمقابلہ حسن صدیقی ہے


Spread the love

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Back to top button