حالات حاضرہ

جنگل کا بادشاہ اور سیاسی جیوگرافی

پاکستان کے ہر سیاسی شیر کے کرتوت سے یہ حیوانی حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ شیر نہ تو ہندو ہوتا ہے اور نہ ہی مسلمان ، وہ سکھ ہے نہ عیسائی۔ شیرکا کوئی بھی مذہب، دین یا مسلک نہیں ہوتا بلکہ اس کا اول و آخر جذبہ و جنون صرف اور صرف اس کی بادشاہت یا اس کا خاندان ہوتا ہے


Share this

قدرت نے شیر کو بے پناہ  طاقت اور منفرد فطرت و جبلت عطا کر کے جنگل کا بادشاہ بنایا ہے۔ بے مثال جراتِ کردار اور بے پناہ خود اعتمادی کا یہ وجیہہ قامت درندہ اپنے علاقے اور کنبے کی حفاظت کیلئے مرمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ بے شک وہ اشرف المخلوقات انسان ہوں یا بری بحری اور فضائی ذی روح، قدرت نے ہر ایک جین یا صنف ذی روح کو دوسرے جینوں سےمنفرد اور مخصوص فطرت و جبلت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ عادات و اطوار کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بری جانوروں میں طاقت اور بہادری کی علامت جنگل کے بادشاہ شیر کو اسکی  جداگانہ فطرت، منفرد اوصاف اور حیران کن عادات و اطوار ہی اسے دوسرے تمام جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔

میں  صرف ان چند بنیادی خصائل کا ذکر کروں گا جو جنگل کے شیروں میں بحرحال موجود مگر سیاست کے شیروں میں بحر صورت مفقود ہوتے ہیں۔ شیروں کی اولین فطرت ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے حلقہء اقتدار میں کسی دوسرے شکاری جانور کی موجودگی اور مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اپنے علاقے کی تاجوری کیلئے دوسرے طاقتور کی مدد و معاونت کا محتاج ہوتا ہے۔ جبکہ سیاست کے شیر اپنے سیاسی  مفادات کیلئے علاقے کے سیاسی آدم خور لگڑبھگوں اور عیار سیاسی لومڑوں سے مفاہمت و مصالحت کو عظیم تر قومی مفاہمتی جذبہء اخوت کا نام دیکر بندر بانٹ کے  سیاسی نظریے پر کاربند رہتے ہیں۔

 شیر کی دوسری اہم خصلت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی صورت میں جنگل میں اس کےباقی ماندہ شکار پر پلنے والے لومڑیوں، گیدڑوں، جنگلی کتوں یا خصوصاً ظلم و سفاکیت کی علامت، کبھی زندہ خور اور کبھی مردار خور بننے والے لگڑ بھگوں سے دوستی نہیں رکھتا۔ جہاں جنگل کا بادشاہ دردناک موت بانٹنے والے سفاک لگڑبھگوں کیلئے فطری طور پر دردناک موت کا پیغام بر ہے وہاں سیاست کے شیر اپنے مفادات کے حصول کیلئے انسانی بستیوں میں موت کے سوداگر آدم خور سیاسی لگڑبھگوں کو حلیف و ہمنوا بنانا کامیاب سیاسی چال گردانتے ہیں ۔ 

وہ روشن خیالوں  اورجیالوں کا شیر زرداری ہو،  یا تبدیلی اور انقلاب کے علم برداروں کا سونامی شیر ہو، یا پھر نون لیگیوں کا شیر پاکستان، یہ سب سیاسی شیر کبھی  سیاسی لگڑبھگوں سے مفاہمتی اتحاد بنا کر یا انہیں گرتے وقت میں بیساکھیاں فراہم کرنے کو قومی مفاہمت کی پالیسی قرار دے کر اپنے نقلی شیر ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ اور کبھی سرحدی گاندھی برانڈ سیاسی بھیڑیوں اور زرداری مارکہ لومڑوں کے ساتھ اتحادی غول بنا کر ملک و قوم کی دولت کا شکار کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

شیر کے خاندانی نظام کی اگلی منفرد خاصیت یہ ہے کہ اس میں دو برس یا اس سے کچھ زائد عمر کے نر بالکوں کو جبراً خاندان سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اور پھر  اگلے دو تین برس تک شکار کے ہنر سے ناآشنا وہ نیم بالغ  در در بھٹکتے،  جنگل کے بے رحم معاشرے میں اپنے جیسے بے آسرا  شیروں  کے ساتھ ملکر خوراک کے حصول اورجان بچانے کیلئے  نبردآزما رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو آزمائشوں سے بھرپور خانہ بدوشی کا یہی عرصہء امتحان ان نابالغ شیروں کو  مضبوط تر اور  اس قابل بنا دیتا ہے کہ بالآخر وہ کسی جھنڈ کے کمزور بوڑھے شیر کو بچھاڑ کر اس کے خاندان پر قبضہ اور علاقے میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس سیاسی شیر اپنے نابالغ بچونگڑوں کو اوائل عمری میں ہی تمام سیاست اور مکاری کے سب داؤ پیچ اورعوام کے شکار کے تکنیکی گر سکھانے شروع کر دیتے ہیں۔

اور یوں ان سیاسی شیروں کے بوڑھے ہونے تک ملک کے خزانے اور قوم کی خوش حالی کھا جانے والا طاقت سے بھرپور نوجوان شیر تیار ہو چکا ہوتا ہے۔ اس غیر شیرانہ فطرت نے پاکستانی سیاست میں موروثی سیاست کے نظام کو مظبوط تر ہی نہیں مقبول تر بنا دیا ہے۔ بھٹو کے بعد بھٹو کی بیٹی اور پھر داماد یا بیٹا اور اسی طرح نواز شریف کے بعد نواز کا بھائی، بیٹا، بھتیجا یا پھر بیٹی۔ ملوکیت کا انداز لئے یہ وہ موروثی جمہوری نظام ہے جو کم از کم شیروں کے معاشرے میں کہیں بھی موجود نہیں۔

شیر کے معاشرے کی یہ  ایک اور  خاصیت دوسرے جنگلی جانوروں سے یکسر مختلف ہے۔  کہ شکار کرنے کی ذمہ داری شیرنی پر ہوتی ہے اور شیر صاحب صرف اس موقع پر ہی اس کی مدد کو آتے ہیں جب وہ کسی  بڑے شکار کو گرانے میں ناکام ثابت  ہو۔ یوں نوے فیصد سے زائد شکار کرنے کی تکلیف شیرنی ہی اٹھاتی ہے۔ دوسری شیرنیوں کے شکار پر جانے کے بعد غیرحاضر شیرنیوں کے بچوں کو دودھ پلانے کی ذمہ داری بھی کسی شیرنی کی ہوتی ہے۔ جبکہ سیاسی شیروں کے معاشرے میں قوم و ملک کا دھن ہو یا سیاسی مخالفین کی زندگیاں، یہاں شکار کی تمام تر ذمہ داری مرد شیروں کی ہوتی ہے اور شیرنیاں شکار کے دھن سے قیمتی ہیروں کے نولکھے ہار اوررنگین ملبوسات خریدتی نظر آتی ہیں۔ اس حوالے سے سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں بھٹو صاحب ہی وہ واحد شیر تھے جنہوں نے اپنے بیٹوں کو دربدر کر کے اپنی شیرنی کو شکار کی تربیت دی۔

یہ الگ بات ہے کہ وہ شیرنی اپنے ہی شیر کے ہاتھوں شکار ہو کرایک پراسرار داستانِ شہادت بن گئی۔ دیکھا جائے تو وہ بے نظیر و بے مثال شیرنی بھی شیروں کے نظام معاشرت سے بالکل الگ ہی نہیں بلکہ لگڑبھگوں کے سماجی نظام کی حقیقی نمائیندہ کہلانے کی حقدار تھی۔ یاد رہے کہ شیروں کے جھنڈ کے برعکس لگڑبھگوں کے جھنڈ کا سربراہ کوئی نر نہیں بلکہ جھنڈ کی طاقتور ترین مادہ ہوتی ہے۔ افسوس  کہ ہمارے سیاسی شیر بہادری و جرات کی نہیں بزدلی اور مکاری کی علامت ثابت ہوئے ہیں۔ صد حیف کہ ہمارا سونامی برانڈ شیر بھی الطاف جیسے خونخوارلگڑ بھگے کو للکارنے کے بعد ناجانے کس خوف یا مصلحت کے زیراثر یو ٹرن لیکر اس سے دوستی کو اپنا فطری اتحاد قراردے دیتا ہے۔ لندن میں مقدمات کے سب نعرے خواجہ سرا کی بڑھک ثابت ہوتے ہیں اور پھر ایک جلسے کی قیمت پر سب کچھ مک مکاؤ ہو جاتا ہے۔ تاوقتکہ زہریلہ سانپ اپنے دودھ پلانے والے شیر خان کو زبردست ڈنگ نہیں مارتا۔

 یاد رہے کہ شیر پاکستان نواز شریف  ہو یا  انقلابی شیر عمران خان   ان  سب لیڈروں کی  مذہب سے دوری   بھی بالکل شیروں جیسی ہے۔ شیر نہ تو ہندو ہوتا ہے اور نہ ہی مسلمان ، وہ سکھ ہے نہ عیسائی۔ شیرکا کوئی بھی مذہب، دین یا مسلک نہیں ہوتا بلکہ اس کا اول و آخر جذبہ و جنون صرف اور صرف اس کی بادشاہت یا اس کا خاندان ہوتا ہے۔لہذا  شیر بن جانے والے  کسی  لیڈر  سے اس کے علاوہ توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے اقتدار اور موروثیت کو بچانے کیلئے امریکی و مغربی شاہوں کے مفادات کا محافظ و ترجمان اور کسی بھی حد تک سیکولر بن جائے۔

 شیر کی سب سے ہیبت ناک اور ظالمانہ فطرت یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی کمزور شیر کو پچھاڑ کر اس کے جھنڈ پر قبضہ کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کرتا ہے توسب سے پہلے اس مقتول شیر کے بچوں کو بیدردی سے ہلاک کرتا ہے۔ گو کہ دیکھنے میں یہ ایک انتہائی ظالمانہ قدم اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ ایک سفاک خصلت ہے لیکن اس میں بھی قدرت کا ایک راز پوشیدہ ہے کہ شکست کھانے والے کسی کمزور شیر کے کمزور نطفوں کو زندہ رہنے اور شیر کی فطرت کے عین مطابق مظبوط شیر بننے اور کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔

قدرت کے اس کھیل میں بھی  حکمت پوشیدہ ہے کہ شکست کھانے والے کمزور شیر اور ان کے کمزور نطفے مٹتے جاتے ہیں اورصرف مظبوط ترین شیر کے نطفے ہی زندہ رہ کر کامیاب ہی نہیں وہ طاقت رکھنے والے شیر بنتے ہیں، جو طاقت شیر کی پہچان اورعلامت ہے۔ گو کہ شیر کی اس ہیبت ناک اور ظالمانہ خصلت کا سیاست سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن درراصل یہی نظریہ ء تطہیر کمزوراں دنیائے سیاست پر حکمرانی کرنے والے عظیم بادشاہوں کا وطیرہء خاص رہا ہے۔ ہاں کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے مگر ہاں کہ وہ کبھی بھی گیدڑوں، لومڑوں، بھیڑیوں اور لگڑبھگوں کا دوست نہیں ہوتا۔

ہاں اگر شیر بن کے جینا چاہتے ہو مسلمہ بن کذاب پر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑنے والے صدیق اکبر، اسلامی فلاحی ریاست کے داعی فاروق اعظم، سخیء بے مثل عثمان ذوالنورین اور شیر خدا حیدر کرار کی طرح اسد اللہی بن کر جیو۔ سدا یاد رکھو کہ  صلاح الدین ایوبی کے وصال پر اہل خانہ کے پاس کفن دفن کیلئے رقم نہیں تھی۔ ہاں مگر اس مجاہد سلطان  کی زندہ قبر آج بھی داستانِ سرفروشاں بیان کررہی ہے۔ جائے عبرت ہے کہ محمد شاہ رنگیلے اور میر جعفر و صادق کی قبروں پر لعنتوں کے اشعار اور جوتوں کے انبار تا قیامت داستانِ قوم فروشاں سناتے رہیں گے۔

فاروق درویش واٹس ایپ 00923324061000


عریانی و فحاشی کا علمبردار بیکن ہاؤس سکول مافیہ

ہم جنس پرستی کی علمبردار بیکن ہاؤس کی سیاسی میڈم


Spread the love

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Back to top button