تاریخِ ہند و پاکستانریاست اور سیاست

پیری مریدی سے جامِ یزیدی کی پیشہ ور سیاست

ڈبہ پیری، سب کی وزیری، دو رنگی بے ضمیری اور بے مثال چمچہ گیری میں اپنی مثال آپ ، ہمہ گیر کرپشن کنگ ، نسل در نسل انگریز ایجنٹ مجاوری شاہ خان صاحب کے بھی دوست نہیں ہیں


ملتان ” مدینۃ الاولیاء “ یعنی ولیوں کے شہر کے نام سے مشہور ہے اور یہاں سب سے محترم  نام  بہاالدین ذکریا رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے پوتے حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بلا شبہ ان جید اولیاء اکرام نے اسلام کی تبلیغ کیلئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ یہ ان کے حسن کردار اور انتھک ریاضوں ہی کا نتیجہ تھا کہ اس خطے میں مشرکانہ بت پاش پاش اور کو بہ کو اسلام کی شمع روشن ہوئی۔ لیکن صد افسوس کہ ان اولیاء اکرام کی ناعاقبت اندیش اولادوں نے اپنے  آباو اجداد کے نیک نقش قدم پر چلنے کی بجائے، ان کے مزاراتِ مقدسہ کی مجاوری گدی نشینی کے ذریعے دولتوں کے انبار لگانے کی روش اپنا کر اولیاء اکرام کے مقدس مشن اور ملک و ملت سے غداریاں کیں۔

حضرت بہاؤالدین زکریا  کا یہ خاندان خود کو ”مخدوم “کہلواتا ہے یعنی وہ خاندان کہ جس کے افراد خدمت کیے جانے کے لائق ہوں ۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ  یہ خاندان  گوروں کی والہانہ خدمت کیلئے کوشاں  رہا۔  یہ لوگ ایک طرف مزارات مقدسہ کے گدی نشین بن کر لوگوں سے عطیات سمیٹتے رہے اور دوسری طرف گوروں کو مخدوم بنا کر قتال ملت میں ان کے حلیف بن کر جاگیریں لیتے رہے ہیں 

مشہور تصنیف “سیاست کے فرعون “ کے مصنف جناب وکیل انجم لکھتے ہیں۔۔۔۔ ” سکھوں کے ابتدائی دور میں موجودہ شاہ محمود قریشی کے ہم نام لکڑ دادا مخدوم شاہ محمود اس خاندان کے سربراہ اور درگاہ کے گدی نشین تھے۔ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی یہ مخدوم کافی زمینوں کے مالک بن چکے تھے اوران کا شمار امیرترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔  1819ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان  فتح کیا تو ان مخدوموں کی غداریوں کے پیش نظر انہیں ساڑھے تین ہزار روپے مالیت کی جاگیر عطا کی گئی۔

جس دور میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید سکھوں سے جہاد کرنے میں مصروف  تھے،  یہ گدی نشین انہیں سکھوں سے جاگیریں حاصل کررہے تھے  ۔ جب  یہ گدی نشین مخدوم،  سکھوں کی خدمات بجا لا رہے تھے۔ سکھوں کی حکومت کے کمزور ہونے پر ان پیشہ ور لوٹوں نے سکھوں سے وفاداری ترک کر کے  پھر سیاسی پنتیرا بدلا اور فوری ہی انگریزوں کے وفادار   حلیف بن گئے۔

برطانیہ نے مطلع سیاست پر یونین جیک کا جھنڈا گاڑا تو مخدوم شاہ محمود نے اس زمانے میں انگریز سرکار کو جو خفیہ خبریں دیں، وہ ان گوروں کیلئے انتہائی مددگار ثابت ہوئیں۔ جب انگریز نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تو مخدوم شاہ محمود کو ایک ہزار مالیت کی جاگیر اور تا زندگی سترہ سو روپے پنشن مقرر کرنے کے علاوہ ایک پورا گاؤں ان کے حوالے کر دیا گیا “۔

 جنگ آزادی میں ہندوستان کے کچلے ہوئے عوام نے برطانوی استعمار کے خلاف زندگی اور موت کی حدود کو توڑتے ہوئے آخری جدوجہد کی تو اس نازک مرحلے پر مخدوم شاہ محمود نے انگریز سرکار دولت مدار کی مستحسن خدمت انجام دی – وہ انگریز کمشنر کو ہر ایک قابل ذکر واقعہ کی اطلاع بڑی مستعدی سے دیتے رہے۔ اپنی وفاداری کا مزید ثبوت دینے کیلئے انہوں نے سرکاری فوج میں بیس ہزار سوار اور کافی پیادے بھینٹ چڑھائے۔ گوروں کے اس وفادار نے پچیس سواروں کی ایک پلٹن بنا کر کرنل ہملٹن کے ہمراہ مجاہدین کی سرکوبی کیلئے روانہ کی اور انگریز آقاؤں کے ساتھ مل کر مجاہدین کے ساتھ خود لڑائیاں لڑیں ۔

مخدوم شاہ محمود کی اس امداد نے انگریزوں کی قوت بڑھانے میں اتنا کام نہیں کیا جتنا کہ ایک مذہبی راہنما کی حیثیت سے ان کے ساتھ تعاون نے اثر کیا- جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک بڑا مذہبی راہنما انگریزوں کی امداد کررہا ہے تو ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے، جس کا جدوجہد آزادی پربہت بر ا اثر پڑا – ان خدمات کے عوض تیس ہزار  نقد ، اٹھارہ سوروپے مالیت کی جاگیر اور آٹھ  کنووں پر مشتمل زمین سرکار برطانیہ کی طرف سے عطا گئی ۔ موجودہ  شاہ محمود قریشی کے ہمنام لکڑ دادا شاہ محمود قریشی 1869 ء میں وفات پا گئے تو ان کے بعد ان کا بیٹا بہاول بخش حضرت شاہ رکن عالم رح اور حضرت بہاء الدین رح کے مزارات کا سجادہ نشین بنا۔

دلچسب بات ہے کہ  اولیا اللہ کے اس گدی نشین بہاول بخش کی دستار بندی ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں بڑے اہتمام سے ہوئی۔ احباب یاد رہے کہ جب انگریزوں اور افغانوں کے مابین جنگ ہوئی تو اس جنگ میں انگریزو ں کوعبرتناک شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بھی جہاں ایک طرف مجاہدین اسلام آج پاکستان کے علاقے میں واقع پہاڑوں میں افغانوں کے ہمراہ انگریزوں کیخلاف لڑ رہے تھے۔ تو دوسری طرف جید اولیاءکرام کے گدی نشین غاصب انگریزوں کا ساتھ دے کر امت مسلمہ سے وہ غداری  کے عوض وہ انگریز سے اپنی خدمات کا صلہ وصول کر رہے تھے۔

اس جنگ میں نقل وحمل کے لئے حضرت بہاول بخش نے اونٹوں کا ایک دستہ بھی افغان جنگ میں انگریز سرکار کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مابعد انہی خدمات کے صلہ میں 1877ء میں بہاول بخش کو آنریری مجسٹریٹ مقرر کیا گیا اور کچھ عرصہ بعد وہ ملتان میونسپل کمیٹی کے ممبر بنا دیے گئے۔ اور انہیں صوبائی درباری کی نشست بھی الا ٹ ہوگئی۔ بہاول بخش کی افغان جنگ میں انگریزوں کیلئے خدمات کو سراہنے کیلئے 1880 ء میں لاہور میں شاندار شاہی دربار لگایا گیا ۔

احباب قابل غور ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے آبا و اجداد اور مرزا غلام قادیانی کے خاندان کا انگریزوں کیلئے آلہ کاری کا کردار کم و بیش ایک جیسا رہا ہے۔ دونوں نے برصغیر میں انگریزوں کیخلاف مسلم مذاحمت  کچلنے اور گوروں کا تسلط مضبوط کرنے میں ہر مدد فراہم  کی اور گوروں کے کارندوں کا ایک جیسا  کردار نبھایا۔ اس مخدوم خاندان کی طرف سے انگریزوں کا ساتھ دینے اور قوم سے غداری کا زمانہ بھی وہی ہے جس دور میں انگریزوں کا دوسرا پودا مرزا قادیانی انگریزوں کیخلاف جہاد کی مخالفت میں مغربی نظریات کی تشہیر کر رہا تھا۔  

 لیکن میری بھولی بھالی قوم کے ” معصوم ” لوگوں کو شخصیت پسندی کی قید سے کون نکالے۔ کون انہیں سمجھائے کہ سیاست دانوں کے سیاسی نظریات اور کردار جاننے کیلئے تاریخ اور حقائق  پر نظر رکھنا اہم ہے۔ کون جھٹلائے گا کہ آج کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب بھی  اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم  پر گامزن ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ موصوف کبھی شرم و حیا کے پیکر پیر صاحب بن کر اپنی مریدنیوں کے سر پر دست شفقت فرماتے نظر آتے ہیں۔ اور کبھی  شرم و حیا اتار کرشراب کا جام تھامے ہنری کلنٹن کے سر سے سر جوڑے  قوم کے سر شرم سے جھکا دیتے ہیں۔ صرف پاکستانی پریس ہی میں نہیں بلکہ مغربی پریس میں بھی بیش شمار ایسی تصاویر شائع ہو چکی ہیں کہ موصوف کو یورپی دوروں میں اکثر شراب کی محفلوں میں جام لہراتے دیکھا جاتا رہا ہے ۔

عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہی شاہ محمود قریشی کبھی پیپلز پارٹی چھوڑ کر نون لیگ میں بھی شامل ہوئے تھے مگر پنجاب کی وزارت اعلی نہ ملنے پر فوری طور پر پیپلز پارٹی میں واپس لوٹ گئے تھے اور  پھر حسب  معمول سیاست ایک اور قلابازی کھائی  اور عمران خان کی مقبولیت دیکھتے ہوئے، ایک محفوظ پلیٹ فارم کی تلاش میں ایک چڑھتے سورج کے پجاری بن گیے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ان ک ے آبا و  اجداد اپنے سابقہ آقا و حلیف سکھوں کی طاقت کے دم توڑتے ہی ان کا ساتھ چھوڑ کر انگریزوں کے ساتھ جا ملے تھے۔

 ایک دن یہی لوگ اپنی سیاسی مصلحت کیلئے خان صاحب کا بیڑا بھی ڈبو دیں گے۔ اکابرین سیاست اور قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ 1857ء کی جنگ میں غداری کرنے والے بابا شاہ محمود قریشی ہوں یا اکیسویں صدی میں کبھی پرویز مشرف کے ساتھی  اور کبھی زرداری مافیہ کا حصہ اور امریکہ کا خادم بن کر  سودے کرنے والا موجودہ شاہ محمود قریشی ، یہ لوگ نسل در نسل انگریز کے غلام ابن غلام اور غدارین قوم و ملت رہے ہیں اور رہیں گے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے ضمیر فروش افراد ملک کی ہر سیاسی جماعت میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ کارزار سیاہ ست کے اکثر و بیشتر کردار شیر کا لباس پہنے خونخوار بھیڑیے اور عوام الناس بھیڑ بکریاں ہیں۔ میرا   دعویٰ ہے کہ   جلد  ہی  یہ  صاحب اپنے خاں صاحب کی سیاست اور تحریک کے تابوت میں کیل در کیل ٹھونک کر، کل کسی اور سیاسی جماعت کا بیڑا غرق کرنے چل نکلیں گے ۔

(فاروق درویش ۔ واٹس ایپ.  00923224061000)


پاکستانی ریاست اور سیاست کے بارے  میرا یہ  کالم بھی پڑھیں

حریم شاہ کا منشور اور جمہور کا دستور


Spread the love

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Back to top button