تاریخِ عالم و اسلامریاست اور سیاست
Trending
عباسیوں کا بغدادی لاشہ اور خان صاحب کا جمہوری تماشہ
عباسی خلافت اور عمران خان صاحب کی حکومت عوام سے کئے گیے فریبی وعدوں کے نتیجہ میں وجود میں آئیں۔ خان صاحب کی سیاست بنو امیہ اور بنی عباس جیسے ہی عبرت ناک انجام کی طرف رواں ہے
خلق خدا پر ظلم ہوتا ہے توعرشِ معلیٰ کانپ اٹھتا ہے۔ ظالموں اور فاسقوں پر نزولِ عذاب سے پہلے، انہیں انبیاء کرام اور ختم نبوت کے بعد دیگر طریقوں سے تنبیہ دینا سنت الہی ہے۔ قدرت بھٹکے ہوئے اور اخلاقی گمراہ لوگوں کو اپنے انوکھے اندازوں سے متنبہ کرتی رہتی ہے۔ اور پھر بھی نہ سمجھنے والوں کو آنے والے زمانوں کیلئے تماشہء عبرت بنا دیتی ہے۔
عباسی خلافت کے دور میں عوام و خواص پر ریاستی مظالم و بربریت کی انتہا نہ رہی تو مالک کائنات انہیں مختلف طریقوں سے جھنجوڑتا رہا۔ خلیفہ متوکل کے دور میں کچھ ایسے عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہے، جو دراصل قدرت کی طرف سے مسلسل تنبیہ تھے۔ شہر حلاط میں آسمان سے ایسی ہولناک چیخ کی آواز سنی گئی کہ ہیبت سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے، مگر ظالم حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ مصر کے ایک علاقے میں قوم لوط پر عذاب کی طرح آسمانی پتھر برسے مگر عیاش بادشاہوں نے اس خدائی چتاؤنی پر دھیان نہ دیا ۔ یمن میں ایک پہاڑ نے کچھ اس طرح حرکت کی کہ ملحقہ کھیت و کھلیان بھی اپنی جگہ سے سرک گئے۔ لیکن رنگیلے تاجوروں کے اندازِ جہالت نہ بدلے۔
اور پھر شام کے شہر حلب میں سفید پروں والا ایک عجیب و غریب پرندہ انسانوں کی بولی میں ” اے لوگو اللہ سے ڈرو “ کی مسلسل چالیس صدائیں لگا کر غائب ہوگیا۔ مگر حکمرانوں اور اشرافیہ کے ظلم ، قتل انصاف اور عیش پرستی کا سلسلہ اس وقت تک نہ رکا ، جب تک آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ دہشت و بربریت کی علامت ہلاکو خان کے گھوڑوں کے بے رحم ٹاپوؤں تلے کچل کر قیمہ نہ بن گیا۔
قارئین دور قدیم و جدید کی سیاسی تاریخ کھنگال کر دیکھیں تو عوامی امیدوں سے کھیلنے کے ماہر ہمارے سیاسی کرداروں سے کچھ مختلف نہ تھے ۔ عباسی خلافت کے قیام کی وجہ یہ سیاسی وعدے تھے کہ وہ خاندان رسالت مآب سے ہونے کے ناطے، قرآن و شریعت کا نظام اور حدود اللہ قائم کریں گے۔ لیکن حصول اقتدار کے بعد وہ سب وعدے سیاست کے روایتی فریب ثابت ہوئے۔ انہوں نے بھی دنیائے سیاست کی ازلی روایات برقرار رکھتے ہوئے فتح دمشق کے موقع پر پچاس ہزار مسلمانوں کا ویسے ہی قتل عام کیا، جیسے سقوط بیت المقدس کے دوران صلیبی لشکروں نے کیا تھا ۔
رعب و دبدبہ قائم کرنے کیلئے جامع مسجد بنی امیّہ کو ستر دن تک گھوڑوں کا اصطبل بنا کر وہی کچھ کیا گیا جو مابعد رنجیت سنگھ نے شاہی مسجد لاہور میں کیا۔ تخت و تاج کی ہیبت کی نمائش کیلئے سیاسی مخالفین کا ویسا ہی وحشیانہ قتل عام کیا گیا جیسا خدائی کے دعویدار شاہ بخت نصر، شاہ نیرو اور یونانی تاجداروں کا وحشیانہ وطیرہ تھا ۔
تمام اکابرین بنی امیّہ کی قبریں کھود ڈالی گئیں۔ ہشام بن عبدالمالک کی لاش کو قبر سے نکال کر کوڑے مارے ۔ اور لاش کو کئی دن تک سرِ بازار لٹکانے کے بعد جلا دینے کا ویسا ہی سلوک کیا گیا جیسا مابعد دوسری جنگ عظیم میں شکست خوردہ اطالوی ڈکٹیٹر مسولینی کے ساتھ کیا گیا۔ خاندان امیہ کا بچہ بچہ قتل کر کے لاشوں کے فرش پر اسی طرح شاہی دسترخوان سجائے گئے جس طرح قدیم روم کے شاہ نیرو نے عیسائی آبادی کا قتل عام پر بچھائے تھے۔
بنو امیہ اور ان کے حواریوں کی لاشوں کو اسی طرح بازاری کتوں سے آگے ڈالا گیا جس طرح قدیم یونان کے دیوتا پرست اپنے سیاسی مخالفوں کو ڈالتے تھے۔ انتہائے بربریت کہ ان لوگوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منوہ کے مقدس شہروں میں بھی ویسا ہی محشر برپا کیا ، جیسا شاہ بخت نصر نے ہیکل سلیمانی اور مقدس شہر یروشلم کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا ۔ نبی کریم کی اولاد ہونے کے دعویدار خلیفوں کے کارنامے ہر لحاظ سے نبیء آخر الزمان ﷺ کی تعلیمات کے برعکس تھے۔
خلیفہ منصور نے امام اعظم ابو حنیفہ رح کو کوڑے لگوا کر قید میں اس قدر اذیتیں دیں کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ امام احمد بن حنبلؒ نے خلیفہ کے غیر شرعی موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، تو انھیں بھی سخت اذیتیں دی گئیں۔ حکمرانوں کی ضدی جہالت کا یہ عالم تھا کہ معتصم باللہ ان پڑھ ہونے کے باوجود خلق قرآن کے حساس ایشو پر علما سے الجھتا رہا۔ خلیفہ واثق کے وزیر ابن زیات نے علماء کو اذیت کیلیے نوکیلے کیلوں والا آہنی تنور بنایا تھا ۔ لیکن مکافات عمل دیکھیے کہ جب وہ خود زیر عتاب آیا، تو اسی تنور میں ڈالا گیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک پر ہل چلوانے والا خلیفہ متوکل اپنے بیٹے منتصر باللہ کے ہاتھوں قتل ہوا تو وہ شراب اورعیاشی میں مدہوش تھا. خلیفہ متوکل کے حرم میں ایران کے کسریٰ خسرو پرویز کی طرح چار ہزار لونڈیاں اور کنیزیں تھیں۔ قدرتی مکافات عمل کہ تخت کیلیے باپ ظاہر باللہ کا قتل کرنے والا مستنصر باللہ چھ ماہ کی بعد تاتاریوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا ۔ ملوکیت پر قائم عباسی خلافت کا آخری خلیفہ مستعصم باللہ مرنے تک رقاصاؤں کی محافل میں شراب و شباب میں بدمست رہا۔ اسے خبر تک نہ ہوئی کہ بغداد تیر و تاراج کرنے والا ہلاکو خان اسی کے معتمد وزیر ابن العلقمی کی دعوت پر بھیانک موت بن کر اس کے سر پر آن پہنچا ہے۔
انڈین رافیل بمقابلہ پاکستان جے ایف 17 تھنڈر کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں
اکثر پاکستانی حکمرانوں کے احوال بھی آخری عباسی خلیفوں جیسے رہے ہیں ۔ ہمارے ایوانوں میں بھی ہلاکو خان کے مخبر عباسی وزیر علقلمی جیسے غدار ہیں۔ فاروق اعظم جیسی فلاحی ریاست اور یزیدی قوتوں کیخلاف حسینیت کے دعوے الفاظی جادوگری اور سیاسی شطرنج ہے۔ مفلس و سفید پوش طبقہ کی قوت خرید کسی دم توڑتے ہوئے مریض جیسی ہے۔ لوٹا ہوا قومی خزانہ واپس لانے کے دعویدار اقتدار بچانے کیلئے قومی مفادات قربان کرنے کو عظیم تر سیاسی مفاہمت کا نام دیکر قوم کو بیوقوف بناتے رہے ۔
دوسری طرف جن یوٹرن سیاست دانوں سے تبدیلی کی توقعات وابستہ تھیں وہ معاشرے کو مغربی تہذیب جیسا جو انقلاب چاہتے ہیں، اس کے بعد صلاح الدین ایوبی کا یہ قول سچ ثابت ہونے کے خدشات ہیں کہ جس قوم کے نوجوانوں میں فحاشی عام ہو جائے وہ بغیر جنگ کے ہی شکست کھا جاتی ہے۔ پاکستان پر ” وار اگینسٹ ٹیرر” مسلط کرنے والے امریکہ کے غلام حکمران، انٹی مذہب عناصر پروموٹ کر کے اتحاد ملت کو پارہ پارہ اور قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے۔میرا حق الیقین ہے کہ پاکستان کی افواج اور عوام کی 70 ہزار قانوں کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں گی۔ لیکن صوبائیت پرور ، فیوڈل لارڈز اور کرپشن کنگ اور لوٹوں کی حکومتوں کے باعث میں آج ہم مسلکی، علاقائی اور لسانی گروہوں میں بٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
فلاحی حکومت اور کرپشن سے پاک ریاست کے فریبی نعرے لگانے والوں کے حکومتی ایوانوں میں آج اعلی عدالتوں کی طرف سے ڈکلیر شدہ مہان کرپشن کنگ بیٹھے رہےاور وزارتوں پر پیشہ ور لوٹے براجمان تھے۔ زلفی بخاری جیسے جعلساز کرپشن کر کے کیسے اور کس کی سہولت کاری سے فرار ہوتے رہے،کرپشن کرپشن کا ورد کرنے والے خان صاحب سمیت کوئی نہیں جانتا۔ مدینہ کی ریاست جیسی اسلامی فلاحی ریاست کے دعوے کرنے والوں کے دور میں خود کو غیر مسلم نہ ماننے والی اقلیت اور انٹی مذہب عناصر کو جتنی بساکھیاں، اہم عہدے اور پذیرائیاں ملیں، وہ پہلے کسی دور میں نہیں تھیں۔
کورونا سے صرف عوام نہیں ڈاکٹرز اور طبعی عملہ بھی حکومتی غفلت سے مر رہا تھا۔ لیکن وزیروں مشیروں کی لوٹ مار حسب معمول جاری رہی۔ ظالم ذخیرہ اندوز کورونا بحران کو منافع سیزن کی طرح منا رہے تھے ۔ مگر ” کرپشن سے پاک ” حکومت بھنگ پی کر سوتی رہی ۔ ہر ہفتے کوئی نیا لوٹا اور کرپشن کنگ وزیر لگایا جاتا تھا۔ دوسرے ہفتے ریوالونگ چیئر کی گیم کی طرح وزیروں کے محکمے بدل دیے جاتےتھے۔ اور پھر ایک کامیاب کپتان سے کامیاب حکمرانی کی ” ناقابلِ فہم توقع” رکھنے والوں کے ہوش اب شاید یہ جان کر ٹھکانے لگنے لگے ہیں کہ سیاست اور عنان حکومت واقعی کھیل کا میدان نہیں ہے۔
۔
ماضی کے حکمرانوں کیلئے یہ تاریخِ زوال بڑی ہی تلخ ہے کہ افغانستان سے آنے والے نادر شاہ درانی کے سپاہیوں کے ہاتھوں دہلی کے گلی کوچوں میں سفاکانہ قتل عام کے بعد ، ” ہنوز دلی دور است ” کا ورد کرنے والے محمد شاہ رنگیلوں کی باقیات کوچوانی اور گداگری کی پہچان بن گئیں ۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد محلاتی شہزادیاں اپنے ملازموں کی بیویاں بن کر شہر چھوڑنے اور کسمپرسی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوئیں۔
ہائے کہ آج بغداد شریف میں ان عیاش عباسی خلیفوں اور سیاسی آمروں کے مجسموں کا بھی نام و نشان موجود نہیں، جو عوامی فلاح سے بے نیاز اپنی رنگ رنگیلی دنیائے میں مست تھے۔ خدا نہ کرے کہ آنے والے مورخ ہمارے رنگیلے شاہوں کا انجام بھی شاہی قالین میں لپٹے اس آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ جیسا لکھنے پر مجبور ہو جو ہلاکو خان کے گھوڑوں کے ٹاپوں تلے ایسی صفائی سے کچلا گیا کہ بغداد کی زمین پر اس کے "مقدس خون” کا ایک قطرہ بھی قالین سے باہر نہ گرا ۔ لیکن ہاں سفاک تاتاریوں کے ہاتھوں تیر و تاراج ہونے والے اسی بغداد میں معصوم عوام کے لہو کے دجلہ و فرات جا بہ جا رواں تھے ۔ ۔
(فاروق درویش ۔۔ واٹس اپ ۔۔ 00923224061000 )
پاکستانی ایٹمی میزائیل پروگرام کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں