قلوپطرہ اور ماڈرن سیاسی سکینڈل
دیکھتے رہئے کہ خود کو دہرانے والی تاریخ بھیانک موت کے ہولناک پھندے کس کس بدنصیب کے گلے میں ڈالتی ہے ۔
قلوپطرہ مصر کی وہ شہرہ آفاق فرعون ملکہ تھی کہ جس کے ہوش ربا حسن اور قیامت خیز جوانی نے سلطنت روم کے نامور جرنیلوں کو خاک و خون میں رنگ کر عظیم الشان سلطنتوں کو ہمیشہ کیلئے صفحہء ہستی سے مٹا دیا۔ قدرت نے اسے دلکش حسن اور جادوئی شخصیت سے نوازا تھا۔ لیکن افسوس کہ وہ اس حسن کی قیمت وصول کرتے ہوئے، خود نیلامی کی سولی پر چڑھ کر ایک نا قابل فراموش داستانِ عشق و بے وفائی بن کر تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئی۔
کچھ تاریخ دانوں کے مطابق قلوپطرہ حسن و چاشنی اور ذہانت کے جادوئی ہتھیاروں سے لیس ایک ایسی پراسرار و عیار عورت تھی جو جولیس سیزر کی سلطنت روم پر قابض ہونا چاہتی تھی۔ لیکن تاریخ میں فرعونوں کے کرداراور روایات کے مطالعہ کے بعد، قلوپطرہ کی شخصیت اور انجام کے بارے میرا تجزیہ قدرے مختلف ہے۔
اکیاون قبل مسیح میں قلوپطرہ کا بڑا بھائی تخت نشین ہوا تو اس نے فرعونی روایات کے مطابق اپنی گیارہ سالہ کم سن بہن قلوپطرہ سے شادی کی۔ اس کی ہلاکت کے بعد تیرہ سالہ بھائی بطلیموس نے تخت سنبھال کر اسی بہن سے شادی کی تو قلوپطرہ اٹھارہ سال کی بھرپور جوان اور وہ تیرہ سالہ نابالغ بچہ تھا۔ بڑے بھائی جیسے مرد کی جنسی کھلونا بن کر آتش فشاں بن جانے والی قلوپطرہ کیلئے نابالغ خاوند فطری طلب میں آگ لگانے کا موجب بن گیا۔ نابالغ خاوند کی نا اہل رفاقت نے، اسے جنسی تسکین کیلئے خوب سے خوب مرد کی تلاش میں ایسی ” جنسی بلی ” بنا دیا، کہ جس نے پھر اپنی موت کو گلے لگانے تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا
کم سن شاہ بطلیموس کے اقتدار کا دور پرآشوب اور امور مملکت پر گرفت انتہائی کمزور تھی۔ مگر اس نے اپنے درباری امراء کی مدد سے مونہہ زور بیوی قلوپطرہ کو مصر چھوڑ کر شام میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ لیکن مابعد اس کی ہلاکت پر قلوپطرہ نے خاندان فرعون شاہی کا تخت و تاج سنبھال کر خدائی کے دعویدار فرعونوں کی روایات کے مطابق خود کو دیوی کہلوانا شروع کردیا۔
قلوپطرہ کے معرکہء عشق کا پہلا شکار روم کا وہ تاجدار جولیس سیزر تھا، جو خاوند اور اس کی ثالثی کیلئے مصر آیا ۔ مگر اس کے سحر انگیز حسن اور زلفوں کا اسیر ہو کر دو برس تک مصر میں مقیم رہا اور بنا شادی ہی قلوپطرہ کے ناجائز بچے کا باپ بن گیا۔ سب سے بڑے حریف جنرل پامپے کو شکست دینے کے بعد جولیس سیزر نے تخت روم سنبھالا تو قلوپطرہ اس کی قربت اور دیگر پراسرارعزائم کیلئے روم میں ہی مقیم ہو گئی اور یوں عملی طور مصر سلطنت روم کا ایک صوبہ بن کر رہ گیا۔
اپنے بے وفا دوست بروٹس اور رومی سینٹروں کے ہاتھوں جولیس سیزر کا قتل ہوا تو قلوپطرہ اس کے مونہہ بولے بیٹے جنرل انطونی سے تعلقات بنا کر اس کے تین بچوں کی ماں بن گئی۔ مارک انطونی شاہ آگسٹس کا بہنوئی بھی تھا ، لہذا قلوپطرہ اور انطونی کا یہی تعلق دونوں کے درمیان جنگ و جدل کے سلسلے کا بھی ایک سبب بنا۔
جنسی ہوس کیلئے مصر سے روم تک بھٹکتی ہوئی قلوپطرہ کی یہ تیسری اور آخری شادی تھی۔ انطونی نے جنرل آکٹیوین سے شکست کھائی تو قلوپطرہ میدان جنگ سے فرار ہو کر ایک خفیہ پناہ گاہ میں جا چھپی۔ اس دوران اس نے اپنے خاوند انطونی کو شکست دینے والے فاتح جرنیل آکٹیوین سے بھی راہ و رسم بنانے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام ہوئی۔ اس نئی آرزوئے ہوس میں بے مرادی کے بعد اس نے انطونی کے ساتھ بے وفائی کا جو کھیل کھیلا اس کا نتیجہ صرف انطونی کی نہیں بلکہ خود اس کی بھی عبرتناک موت ٹھہرا۔
اس نے اپنی ایک خادمہ کے ذریعے جنرل انطونی تک یہ جھوٹی افواہ پہنچائی کہ قلوپطرہ نے اسکی کی شکست سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی ہے۔ قلوپطرہ کے حقیقی عشق میں مبتلا انطونی نے اس جھوٹی اطلاع کو حقیقت سمجھا اور دل برداشتہ ہو کر تلوار سے اپنا سینہ چاک کر کے خود کشی کر لی۔ اور پھر انطونی کی خودکشی کی خبر سننے پر، پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ خود کو زہریلے مصری کوبرا سانپ سے ڈسوا کر تاریخ میں بے وفائی کی علامت بن کر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئی۔ کچھ مبصرین کے مطابق جولیس سیزر کے اپنے ہی دوست بروٹس کے ہاتھوں قتل میں بھی اسی قلوپطرہ کا شاطرانہ ذہن کارفرما تھا۔
اقتدار بھی قلوپطرہ کی طرح، بے وفائی کی علامت ہے اوراِس کے عشق میں مبتلا ہونے والے اکثر لوگ موت کو گلے لگا لیتے ہیں ۔ قلوپطرہ صرف جنسی تسکین کیلئے خوب سے خوب مرد کی تلاش میں بھٹکتی ہوئی پیاسی روح یا وسعت اقتدار کیلئے سرگرم سیاسی کردار نہیں ۔ بلکہ ازل سے ابد تک سجے بازارِ سیاست کی فرعونی روایات اور دجالی مزاج کی حقیقی نمائیندہ تھی۔ بائیبل کی قدیم داستانوں میں بھی کئی ایسی عورتوں کا ذکر ہے جو دجالی نظریات کے حامل بادشاہوں اور طاغوتی ریاستوں کی مرکزی کردار رہیں۔
روم کے ظالم شہنشاہ نیرو کے حصول اقتدار اور پھر سلطنت اجاڑنے میں بھی مرکزی کردار عورت تھی۔ ہسپانیہ کی عظیم الشان سلطنت کے زوال کا سبب بھی عورت کے حسن و شباب میں غرق تاجدار و امراء تھے اور پھر اسی غرناطہ کو فتح کرنے والی ملکہ زنوبیا بھی عورت تھی۔ شاہجہاں کی قید و صعوبتوں کا باعث ممتاز محل بھی عورت اور پھر سقوط ڈھاکہ میں یحیی خان کی آغوش میں بیٹھی بھارتی آقاؤں کو حساس معلومات فراہم کرنے والی بیگم اقلیم اختر عرف جنرل رانی بھی عورت ہی تھی۔
جولیس سیزر سے حسد میں ، اس کا دوست بروٹس بھی قاتلوں میں شامل ہو کر دوستی کے نام پر دھبّا بنا تو اس قتل میں سازش کا مرکزی کردار بھی حسن و ہنگامہء قلوپطرہ ہی تھا۔ مبصرین کہتے ہیں پاکستان میں کسی فوجی جرنیل نے، کسی فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف بروٹس کا کردار ادا نہیں کِیا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ بھٹو، بینظیر ، شیخ مجیب الرحمن، اندرا گاندھی کی عبرت ناک اموات اور جنرل ضیا الحق سمیت کئی اہم جرنیلوں کی شہادت کا سانحہ گواہ ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ جرنیلی سیاست میں بھی میں کئی بے وفا بروٹس موجود رہے، اب بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
یہ درست ہے کہ اقتدار کی قلوپطرہ، جہاں جولیس سیزر اور انطونی جیسے شہسواروں کو اپنی زلفوں کا اسیر کرتی ہے وہاں ہر بروٹس کو بھی ناز آفرینی و اداؤں سے اپنا غُلام بنا کر محسنوں سے غدّاری پر آمادہ کرتی ہے ۔ ماڈرن سیاست میں خطرناک امر سیاسی جماعتوں میں عورت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور اپنی خواتین کو زبردستی سیاست میں لانچ کرنے کا موروثیت پرور سیاسی رحجان ہے۔ کہیں موروثیت کے تابع شاہان اقتدار خاندانوں اور کہیں شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفادار حسینائیں دور جدید کی ممتاز محل ، رضیہ سلطانہ اور ملکہ قلوپطرہ بننے کے جنون میں پاگل ہیں۔
سیاسی دھرنوں میں رقص کرتی ہر مٹیاریں بھی اپنی خواہشات میں کسی قلوپطرہ سے کم نہ تھی۔ دیکھا جائے تو ان کے لیڈر کی نجی زندگی بھی قدیم مصری و رومی تاریخ کے کرداروں ہی کی عین مثال رہی ہے۔ اس شاہ مرد کی قلوپطرہ بننے کی دوڑ میں زینت امان اور سیتا وائٹ جیسی کئی مٹیاریں قصہء پارینہ بن گئیں ، مگر قلوپطرہ کی گود میں جولیس سیزر کے ناجائز بچے کی طرح سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیریان خان آج بھی خان صاحب سے حقوق پدرانہ کی امیدوار ہے۔
سیاسی معاشرت میں بنا شادی باپ بننے کی روایات کوئی عیب تصور نہیں کی جاتیں۔ ناجائز بچوں کے باپ بننا، سکندر اعظم، جولیس سیزر، شہنشاہ نیرو، شاہ خسرو پرویز، اکبر اعظم اورمحمد شاہ رنگیلہ جیسے انگنت حکمرانوں کا شاہانہ شیوہ رہا ہے۔ "یونیورسل ٹرتھ ” ہے کہ زانی مردوں کو زانی عورتیں ہی ملتی ہیں۔ خان صاحب بھی جولیس سیزر کی طرح ٹیریان خان کے باپ بنے، تو ادلے کے بدلے میں، جمیما خان نے بھی گورے بوائے فرینڈز کے ساتھ معاشقوں سے ویسی ہی عاشقانہ مہم جوئی کی ، جیسی قلوپطرہ نے جولیس سیزر کے ہوتے ہوئے جنرل انطونی سے تعلقات رکھ کر کی تھی۔
خدا کا شکر ہے خان صاحب ابھی تک اپنی کسی قلوپطرہ کے ہاتھوں جولیس سیزر جیسے قتل کی سازش کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ بھی پاکستانی سیاست ہی کا تماشہء عجب ہے کہ یہاں ایک ہی خاندان میں الگ الگ سیاسی قبلہ رکھنے والی کئی قلوپطرہ بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسے کہ نواب کالا باغ اور لغاری خاندان کی مشترکہ اولادوں میں سے ایک بہن سمیرا ملک نون لیگ کی قلوپطرہ بننے کیلئے کوشاں ہیں تو دوسری بہن عائلہ ملک خان صاحب کی قلوپطرہ بننے کیلئے تمام حدود سے پار خان صاحب سے معاشقہ میں ڈوب رہی ہیں ۔
یہ حقیقت بھی کسی عجوبہء الف لیلی سے کم نہیں کہ امریکہ اور میڈونا کی لاڈلی منی قلوپطرہ، ملالہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ یاد رہے کہ مصر کے تخت فرعون کی آخری ملکہ قلوپطرہ نے بھی اپنے سیاسی سفر اور رنگین و نمکین تماشوں کا آغاز بھی بالی عمر میں ہی کیا تھا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے، سو انتظار کیجئے کہ کسی ماڈرن قلوپطرہ کی جدید داستانِ حسن و عشق میں ، جولیس سیزر، بروٹس، جنرل انطونی، شہنشاہ آگسٹس اور جنرل آکٹیوین کون کون بنتا ہے۔۔ دیکھتے رہئے کہ خود کو دہرانے والی تاریخ بھیانک موت کا ہولناک پھندہ کس کس بدنصیب کے گلے میں ڈالتی ہے ۔ ۔ ۔
فاروق درویش ۔۔ واٹس ایپ ۔۔ 00923324061000
پاکستان میں مغربی تہذیب کے علمبردار سکول مافیوں کے بارے ممیرا یہ کالم بھی پڑھیں