حالات حاضرہریاست اور سیاست

قیدی نمبر 804 کے دو رنگی روپ اور بہروپ

امید ہے کہ خان صاحب اور ان کے حوایوں کیخلاف صرف توشہ خانہ ، سائفر برانڈ غداریوں، انٹرنیشنل فنڈز کرپشن اور 9 مئی کی تخریب کاری جیسے ہی نہیں بلکہ اب ملکی سلامتی کیخلاف بیرونی سازشوں میں شراکت اور انٹی پاکستان دہشت گرد گروپس کی سہولت کاری کے مقدمات بھی قائم ہوں گے

آنکھوں دیکھ کر مکھی کھانے والے دوستوں کی اندھی شخصیت پرستی کو خان صاحب کے بارے حکیم سعید کی حق گوئیوں اور ڈاکٹر اسراراحمد جیسے صاحب ِ علم و فضل کی پیشین گوئیوں یا خان صاحب کے انٹی پاکستان مشن کے بارے جنرل اسلم بیگ کے ہولناک انکشافات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ خان صاحب کے پرستاروں کی عقل و فہم سے یہ چشم کشا حقائق بھی بالاتر ہیں کہ خان صاحب اینڈ کمپنی نے انٹی پاکستان لابیوں کی سہولت کاری اور وحشت زدہ سیاست کی دو رنگی انقلابی گیم یہودی لابی کے لندن پلان کے تحت شروع کی یا اس کا سکرپٹ بھارتی لابیوں کی پلاننگ کے عین مطابق بھارت کے اتحادی ایران میں لکھا گیا۔

لیکن کیا ان کے پرستاروں کیلئے خان صاحب اور ان کے قریبی ساتھیوں کی مصدقہ مالیاتی کرپشن در کرپشن، جنسی سکینڈلز کی آئینہ دار فون کال لیکس، اپنے محسنوں کے ساتھ ابن الوقتی سلوک، افواج پاکستان اور ریاستی اداروں کیخلاف کھلی تخریب کاریاں ان کے ریاست مدینہ کے وعدوں کی آئینہ دار تھیں؟

اپنے بارے ” آئی ایم دی لارڈ آف مائی اون فیٹ ” یعنی میں خود اپنی تقدیر کا مالک ہوں جیسا فرعونی دعوی کرنے والے خان صاحب نے دین دوست عوامی طبات کو بیوقوف بنانے کیلئے کسی عظیم  شخصیت کی طرح ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ تو لگایا مگر درحقیقت وہ دین کے بارے عمومی معلومات سے بھی مکمل ناشناس تھے۔ حتی کہ وہ اس بنیادی دینی نالج  سے بھی ناواقف تھے طواف کعبہ کے دوران احرام میں جرابیں پہننا سخت ممنوع ہے۔ اور افسوس  کہ ان کے ساتھ  گئے ہوئے درباری ملاؤں نے بھی انہیں یہ نہیں بتایا کہ احرام میں جرابیں پہننے سے احرام یا عمرہ ہی نہیں ہوتا ۔

آج ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ آج ہماری معاشی اور تہذیبی تباہی  اور تخریب کاری کی سیاست کے فسادی رحجان کے اصل  ذمہ دار ہم خود ہیں۔  کہ ہم نے ایک ایسے جاہل متکبر اور گستاخ شخص سے ریاست مدینہ کی توقعات رکھی جسے نبیء آخر الزماں ﷺ کا نام مبارک لینے اور ان کا ذکر کرتے ہوئے مودبانہ الفاظ کے چناؤ یا ان کے نام گرامی کے ساتھ قابل اعتراض الفاظ سے اجتناب کی رتی بھر بھی تمیز نہیں۔ ہماری آنکھیں ان دورنگی مناظر پر بھی نہ کھل سکیں کہ خان صاحب کے ایاک نعبد و ایا نستعین کے ورد میں امر بالمعروف کے بینروں تلے نوجوان خواتین کے مادر پردر آزاد رقص ہوتے رہے۔

افسوس کہ ہم ہاتھ میں دکھاوے کی تسبیح اور ٹانگ پر پلستر چڑھا کر ست رنگی فوٹو سیشن کرونے والے، ریاستِ مدینہ کے اس دو رنگی دعویدار کی مادر پدر آزاد یورپی طرز زندگی کی ضدی روش بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر یکسر نظر انداز کرتے رہے۔ جبکہ یہ شخص ہمیں اپنے منافقانہ  قول و فعل ،  یو ٹرنوں اور جھوٹ در جھوٹ بیانوں سے بار بار یہ اشارے دیتا رہا کہ وہ شخص صرف اسلام سے بیزار ہی نہیں بلکہ  انٹی پاکستان عناصرکا  آلہ کار اور مکار شعبدہ باز بھی ہے۔

قارئین کرام یاد دلانا چاہتا ہوں ! 2013ء کے الیکشن کمپین میں خان صاحب نے ایک قادیانی میاں عاطف کو وزیر خزانہ بنانے کا کہا تھا۔ میں نے اور کئی دوستوں نے اس کے قادیانی ہونے کے بارے آواز اٹھائی تو خان صاحب نے یہ جھوٹ بول کر جان چھڑوائی کہ وہ اس شخص کے قادیانی ہونے کے بارے ناوافق تھے۔ لیکن خان صاحب کی قادیانی پروری اس وقت عیاں ہو گئی جب انہوں  گذشتہ الیکشن جیت کر پھر اسی قادیانی شخص کو وزارت خزانہ میں اہم عہدہ دینے کا اعلان کیا۔ لیکن پھر شدید عوامی رد عمل کے بعد مجبوراً وہ فیصلہ واپس لے لیا۔

خان صاحب نے غربت ختم کرنے کا  بناؤٹی نعرہ لگایا  لیکن اپنے  مغربی آقاؤں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کمیشن وصول کر کے ان کو اشیائے صرف  سے لیکر  میڈیسن  تک  اپنی من مرضی کی قیمتیں  مقرر کرنے  کی کھلی چھوٹ دیکر اپنے بینک اکاؤنٹس بھرے اور غریبوں کا چولہا بجھا دیا۔  لوگوں کی عقل پراس وقت بھی پردہ پڑا رہا کہ جب خان صاحب کی طرف سے اعلانیہ طور پر ڈاکو اورنااہل  قرار دئے گئے کرپٹ  لوگ اہم وزارتوں پر بیٹھے قومی خزانہ اورعوامی فلاح کے فنڈز لوٹ کر خان صاحب کی جیب بھرتے رہے۔

خان صاحب کے پرستاروں کی آنکھیں اس نا انصافی پر بھی نہ کھل سکیں کہ صرف اپنی کرپشن کا نظام قائم کرنے کیلئے گذشتہ دس سال سے پارٹی کیلئے قربانیاں دینے والے مخلص پارٹی  ورکرز کو یکسر نظر انداز کر کے سسٹم میں لوٹے اور کمیشن ایجنٹ بھرتی کر لیے گیے۔

قارئین کرام کو یاد رہے کہ خان صاحب اور ان کے حواریوں کی طرف سے جنرل عاصم منیر کی آرمی چیف کے عہدے پر تقرری کے وقت ان کیخلاف بھرپوراور منظم پراپیگنڈا مہم چلائی گئی تھی۔ جس کے پس پردہ حقائق یہ تھے کہ خان صاحب کے دور میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر نے خان صاحب کو ان کی آہلیہ بشری بی بی اور  قریبی ساتھیوں کے کرپشن نیٹ ورک کی ثبوتوں کے ساتھ نشاندھی کر کے اس دھندے کو روکنے کی گزارش کی تھی۔ لیکن تکبر اور کرپشن میں لتھڑے ہوئے خان صاحب نے اپنے گھر میں قائم کرپشن نیٹ ورک بند کروانے کی بجائے اس کرپشن کے مخالف جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔  خان صاحب  اور ان کے حواری   اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جنرل عاصم منیر ان کے تمام کرپشن نیٹ ورکس اور دہشت گرد گروپس سے خفیہ روابط کے بارے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔

یاد دلانا چاہتا ہوں کہ محب وطن عوامی حلقوں کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خان صاحب کا یہ متنازعہ ترین بیان انتہائی ناقابل برداشت تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ان کے اس بیان سے گمان ہوتا تھا کہ وہ اپنی ناکام سیاست کی ڈوبتی ہوئی کشتی اور حکومت بچانے کیلئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے مخالفین امریکی ، مغربی ممالک اور یہودی لابیوں کے ترجمان بن گئے ہیں۔

لیکن خان صاحب اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے ناقدین کو یاد رہے کہ پاکستان کے عوام افواج پاکستان اورایٹمی ہتھیاروں کو وطن کی سلامتی کی آخری ضمانت سمجھتے ہیں۔ اور پاکستان کا بچہ بچہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی حمایت میں جان دینے کیلئے تیار ہے۔

محب وطن عوام کیلئے سب سے زیادہ افسوسناک امر خان مافیہ کی طرف سے عسکری اداروں کیخلاف وہ زہریلی پراپیگنڈا اور شدت پسند تخریبی مہم ہے جس کی تعریف و توصیف را کے حواری اور بھارتی میڈیا کر رہا ہے۔ امین گنڈا پور جیسے لوگوں کی فون کالز ریکارڈنگ لیکس سے یہ راز کھل چکا ہے کہ خان صاحب حکومت میں انٹی پاکستان تخریب کاروں اور دہشت گرد گروپس کو مکمل سہولت کاری حاصل رہی۔ اب لازم ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے یہود ی لابیوں کی زبان اورعسکری اداروں کیخلاف بھارت برانڈ ہرزہ سرائی کرنے والوں پر غداری کے مقدمات چلا کر سرعام سزائیں دی جائیں۔ اور حق تو یہ ہے کہ شروعات بھی فوج اور آئی ایس آئی پر سیاست میں ملوث ہو نے اور کرپشن کے الزامات لگانے کے بانی عمران خان کی تمام ویڈیوز کو گواہ بنا کر انہی سے کی جائے۔

ہمیں امید ہے کہ خان صاحب اوران کے حوایوں کیخلاف اب صرف  توشہ خانہ  چوری ، سائفر برانڈ ریاستی غداریوں، انٹرنیشنل فنڈز کرپشن اور 9 مئی کی تخریب کاری جیسے ہی نہیں بلکہ اب انٹی پاکستان لابیوں کی سازشوں میں شراکت اور پاکستان کی سلامتی کے دشمن دہشت گرد گروپس کی سہولت کاری کے ۔مقدمات بھی قائم ہوں  گے۔اور پھر  خان صاحب عدالتی   کاروائیوں کے دوران عوام کی طرف سے  گھڑی چور،  گندی نسل، منافق اور شیطان جیسے آوازے کسے جانے کے جواب میں  تکبرانہ قہقہوں کے ساتھ  وکٹری یا ہیٹ ٹرک  کا نشان نہیں بنا سکیں گے
فاروق درویش

https://thefoji.com/pakistan-airforce-next-aircraft-fifth-generation-stealth-fighter-jet-j-31/

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button