دل قلندرہے جگر عشق میں تندورمیاں. غزل فاروق درویش ۔ بحر و اوزان اور اشاراتِ تقطیع
بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع اراکین : ۔۔۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔ فَعلُن
دل قلندر ہے جگر عشق میں تندور میاں
شوق ِ دیدار روانہ ہے سوئے طور میاں
گل بدن شعلہ ء افلاس میں جل جاتے ہیں
جسم بازار میں بک جاتے ہیں مجبور میاں
دل کے زندانوں سے آئے گی انالحق کی صدا
شہر ِ آشوب سے اٹھے کوئی منصور میاں
شب کی زنجیر ہے آزادی ء گل رنگ مری
صبح ِ خوں رنگ لکھے شام کے دستور میاں
مر گئے شاہ سدا جینے کی حسرت لے کر
ہم فقیروں نے لکھا مرنے کا منشور میاں
چاند اترا جو مرے شہر مسافر بن کر
کوفہ ء دہر میں مر جائے گا بے نور میاں
رات درویش کی تربت پہ تھے گریاں تارے
صبح چھیڑے گی صبا نغمہ ء عاشور میاں
۔( فاروق درویش)۔
بحر : بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
اراکین : ۔۔۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔۔ فَعلُن
ہندسی اوزان : 2212۔۔2211۔۔2211۔۔22۔
اس بحر میں پہلے رکن یعنی فاعلاتن ( 2212 ) کی جگہ فعلاتن ( 2211 ) اور آخری رکن فعلن (22) کی جگہ , فعلان ( 122) ، فَعِلن (211 ) اور فَعِلان (1211) بھی آ سکتا ہے۔ یوں اس بحر کی ایک ہی غزل میں درج کردہ یہ آٹھ اوزان استعمال کرنے کی عروضی سہولت یا جائز گنجائش موجود ہے
۔1 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فعلُن ۔۔ 2212 …2211 ..2211 … 22 ۔
۔2 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلُن ۔۔2212 …2211 ..2211 …211 ۔
۔3 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعلان۔۔2212 …2211 …2211…122 ۔
۔4 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلان۔۔ 2212 …2211…2211…1211۔
۔5 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فعلُن ۔۔2211 …2211 ….2211 …22 ۔
۔6 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فعلان۔۔2211…2211..2211…. 122 ۔
۔7 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلُن۔۔2211 ..2211 …. 2211 … 211
۔8 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلان۔۔2211…2211…2211…1211۔۔
اشارات برائے تقطیع
دل۔۔ ق ۔۔ لن ۔۔ در ۔۔فاعلاتن ۔۔۲۲۱۲
ہے۔۔ج۔۔ گر۔۔عش ۔۔ فعلاتن ۔۔۔ ۲۲۱۱
ش۔۔۔میں۔۔ تن۔۔۔دو۔۔۔ فعلاتن۔۔۲۲۱۱
ر۔۔۔۔م۔۔۔۔ یاں ۔۔۔۔۔ فَعِلن۔۔۔ ۔۲۱۱
شو۔۔قے۔۔ دی۔۔۔دا۔۔ فاعلاتن ۔۔ ۲۲۱۲
ر۔۔ ر۔۔۔۔ وا ۔۔نہ۔۔ فعلاتن ۔۔۔ ۲۲۱۱
ہے۔۔ س۔ ئے۔ طو ۔۔ فعلاتن ۔۔ ۲۲۱۱
ر۔۔۔۔ م۔۔۔۔ یاں ۔۔۔ فَعِلن ۔۔۔۔۲۱۱
نوٹ: مطلع میں دونوں جگہ اوپر دی گئی عروضی سہولت نمبر 2 کے تحت آخری فعلن ( 2.2) کی بجائے فَعِلن یعنی ۔(2.1.1۔) باندھا گیا ہے، اور یہ سلسلہ تمام اشعار کے ہر مصرع ثانی تک چلتا ہے۔
اصولِ تقطیع
یاد رکھئے کہ ” کیا” اور “کیوں” کو دو حرفی یعنی “کا” اور “کوں ” کے وزن پر باندھا جائے گا ۔ ہے، ہیں، میں، وہ، جو، تھا، تھے، کو، کے ، تے ، رے اور ء جیسے الفاظ دو حرفی وزن پر بھی درست ہیں اور انہیں ایک حرفی وزن میں باندھنا بھی درست ہیں ۔ لہذا ان جیسے الفاظ کیلئے مصرع میں ان کے مقام پر بحر میں جس وزن کی سہولت دستیاب ہو وہ درست ہو گا۔ البتہ ، نہ اور کہ کو یک حرفی سے باندھنا درست ہے۔ ۔
ایسے ہی “ے” یا “ی” یا “ہ” پر ختم ہونے والے الفاظ کے ان اختتامی حروف کو گرایا جا سکتا ہے ۔ یعنی جن الفاظ کے آخر میں جے ، گے، سے، کھے، دے، کھی، نی، تی، جہ، طہ، رہ وغیرہ ہو ان میں ے، ی یا ہ کو گرا کر انہیں یک حرفی وزن پر باندھنا بھی درست ہو گا اور اگر دوحرفی وزن دستیاب ہو تو دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی لفظ کے اختتامی حرف کے نیچے زیر ہو اسے دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے اور یک حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ( مثال : دشت یا وصال کے ت یا لام کے نیچے زیر کی صورت میں انہیں دشتے اور وصالے پڑھا جائے گا ۔ ایسے الفاظ کی اختتامی ت یا لام کو بحر میں دستیاب وزن کے مطابق یک حرفی یا دو حرفی باندھنے کی دونوں صورتیں درست ہوں گی ) ۔
تقطیع کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رہے کہ نون غنہ اور ھ تقطیع میں شمار نہیں کئے جائیں گے یعنی تقطیع کرتے ہوئے ، صحراؤں کو صحراؤ ، میاں کو میا، خوں کو خو، کہیں کو کہی ۔ پتھر کو پتر اور چھیڑے کو چیڑے پڑھا جائے گا
فاروق درویش
Thanks a ton for this – love the info and agree with your perspective. However many others will not, so thanks for speaking up. Nice blog, well done!
بہت خوب جناب
This link is classified as malware by Webroot, a Facebook partner
Sir ask your hosting providor to scan hosting account.
برادر محترم عباس بشیر صاحب ۔ یہ سرور وائرس وغیرہ نہیں بلکہ اس الرٹ کی وجہ متحدہ، فتنہء قادیانیت اور جیالوں کی طرف سے فیس بک پر اس بے ضرر بلاگ کی غلط رپورٹنگ ہے، کچھ شر سندوں کو اس بلاگ سے ازلی چڑ اور کدورت ہے ۔