قارئین کرام یہ فقیر اول و آخر مسلم لیگی ضرور ہے لیکن کسی قاف میم نون برانڈ سے کوئی تعلق نہیں ۔ نون سے بھی خونی رشتے ہیں اور جماعت اسلامی و تحریک انصاف والوں سے بھی دیرینہ روابط ہیں۔ تحریک نظام مصطفے میں بھٹو کے شاہی قلعہ کے عقوبت خانہ کا قیدی بھی رہا اور پھر اس افغان جنگ میں روسی استعمار کی خون آشامیوں کا مزا بھی چکھا جسے امریکہ بھی آزادی کی تحریک قرار دیتا تھا۔ ٹارچر سیلوں میں یہ قلم بردار انگلیاں تڑوانے کا تجربہ بھی ہوا۔پھر نہ بکنے کے جرم میں بار بار وحشیانہ تشدد کے بعد چھ سال دوبئی میں جلا وطنی بھی گزاری ۔ پاکستان اور ناموسِ دین پر قربان کرنے کیلئے اب صرف یہ ایک جان باقی ہے لیکن سچ اور حقائق لکھنے سے نہ کبھی توبہ کی اور نہ کروں گا۔
بیشتر صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ کسی لیڈر کے پرستاروں نے تنقید کے جواب میں ایسی زبان اور پرتشدد رویہ نہیں اپنایا جو آج عمران خان کے شدت پسند سیاسی ورکرز کا وطیرہ ہے ۔ افواج پاکستان کیخلاف سخت بیان بازیوں کی طویل ہسٹری اور سیاسی مخالفین کے بارے غیر مہذب زبان کی بدترین مثالیں قائم کرنے والے خاں صاحب کی تحریک ” آزادی و انصاف ” کے دکھائے گئے خواب اور کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے بھی تاریخ کے اولین دہشت گرد حسن بن صباح کی فیک جنت جیسے ثابت ہو رہے ہیں۔ حکومتی ناکامیوں میں ڈوبی ہوئی تحریک انصاف بتدریج حسن بن صباح کی بنائی گئی دہشت گرد تنظیم حشاشین کی طرح دینی و قومی نظریات سے مادر پدر آزادی کا روپ دھار رہی ہے۔
شاہِ ست رنگ نے اک حشر سجایا ہے نیا
بندگی دہر کی اب حکم رواں ٹھہرے گی
۔
حسن بن صباح اسماعیلی فرقے کی اس خفیہ دہشت پسند جماعت حشاشین کا بانی تھا جس نے عالم اسلام کی طاقت ور حکومتوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں تھیں۔ یہ ایرانی شخص 1071ء میں مصر پہنچا اور فاطمی خلیفہ المستنصر کے داعی کے روپ میں ایران واپس آ کر فاطمی نظریات کا علمبردار بن گیا۔ سلجوقی حکمران ملک شاہ اول نے اسے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ اس نے پہلے کوہ البرز میں الموت اور پھر مصر کے فاطمیوں کی مدد سے کئی قلعوں پر قبضہ کر کے ان اسماعیلیوں سے بھی قطع تعلق کا اعلان کر دیا۔
پاکستانی” شیخ الاسلام ” طاہر القادری کی طرح خود کو ” شیخ الجبال ” قرار دے کر قلعہ الموت کے علاقے میں ایک آزاد ریاست قائم کر لی ۔ اس کے پیروکاروں میں داعی اور فدائی بہت مشہور ہیں۔ فدائیوں کا کام خان کے کارکنوں کی طرح صرف اپنے فلسفے کو سچا اور دوسروں کے نظریات کو باطل ثابت کرنا تھا۔ جبکہ فدائیوں کے فرائض میں مخالفین کو قتل کر نا تھا۔ دہشت انگیزی کی یہ خوفناک تحریک اتنی فعال و منظم تھی کہ قریب کے تمام طاقت ور مسلم حکمران بھی اس سے لرزاں تھے۔ خاں صاحب اور حسن بن صباح کے خواب دکھانے کے طریقہ کار میں فرق یہ تھا کہ وہ اپنے فدائیوں کو بڑی مقدار میں حشیش کے نشے میں مدہوش کر کے وادیء الموت میں بنائی اپنی خود ساختہ جنت کی سیر کراتا تھا۔ اور خاں صاحب موسیقی اور رقص و شباب میں ڈوبے دھرنوں میں مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے سبز باغ دکھا کر قوم کو تخیلاتی فریب کی جنت میں لے گئے ۔ افسوس کہ عمران خان صاحب نے قوم کو آسائش اور فلاح کی جنت کے جو خواب دکھائے ان کی تعبیر ان کے دور میں غریب عوام کیلئے فاقوں اور معاشی مسائل کی جہنم کے صورت میں سب کے سامنے ہے۔ .
حسن بن صباح کے دور میں اس کے نشہ میں دھت شکاروں کو قیامت خیز جوانیوں کے ذریعے لذت و چاشنی کا عادی اور شراب کا رسیا بنا دیا جاتا تھا – ان کی دماغی اور جسمانی تربیت کیلئے انہیں شیروں اور شکاری کتوں کا گوشت کھلایا جاتا تاکہ ان میں درندگی کی صفات پیدا ہو سکیں۔ جبکہ خان صاحب کے سیاسی مجاہدوں کو بابا کوڈا جیسی بداخلاق سوشل میڈیا کمپین کی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔
۔
حسن بن صباح کے پیروکاروں کو بتایا جاتا تھا کہ اگر وہ ہمیشہ کیلئے لذت و رعنائی، مدہوشیء مشروب اور ” صباحی جنت ” چاہتے ہیں تو پھر انہیں صرف حسن بن صباح اور اس کے نظریہ کیلیے جینا ، مرنا اور مارنا بھی ہو گا۔ لہذا اس تربیت کے بعد حسن بن صباح کا عاشق ، مذہب اور اخلاقیات کی قید سے آزاد ایک ایسی بھٹکی ہوئی آتما بن جاتا جو اپنے لیڈر کے خلاف بولنے والی ہر آواز کو کفر اور غداری سمجھتا تھا۔اور آج بالکل ایسے ہی خان صاحب کے عاشقین خان صاحب پر تنقید کو بڑا جرم تصور کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے شدت پسند سیاسی طبقات کیلئے خان صاحب کی توہین دراصل توہینِ رسالت سے بڑا گناہ ہے۔
آج عمران خان کی تحریک بھی حشاشین جیسی شدت پسند تحریک بن چکی ہے۔ جلسہ گاہوں میں رقص و شباب اور خوش رنگ طلسمات سے لیس پری زادوں کے غول , تماش بینوں کے طائفے، تحریک حشاشین کا نظارہ پیش کرتے تھے۔ خاں صاحب کی مغربی تہذیب کی ہوش ربائی سے آراستہ خیالی جنت میں معاشرتی انصاف اور آزادیء نسواں کے حوالے سے دودھ اور شہد کی نہروں جیسے خوابی مناظر دکھائے جاتے رہے ہیں۔ شہروں اور شاہراؤں کو جام کرنے والے عوام کی زندگیاں اجیرن کرنا مقدس سیاسی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ۔
خان صاحب آج کل خود پاکستان کے شہروں اور شاہراؤں کو بند اور نظام کو جام کرنے کیلئے ہر سیاسی و اخلاقی حد سے آگے گزرتے نظر آتے ہیں ۔ جبکہ دوسروں کو سڑکیں بند کرنے اور احتجاج سے روکنے کے اخلاقی لیکچر دیتے رہے ہیں۔حسن بن صباح کے دہشت گرد پیروکاروں کے نزدیک ان کے لیڈر کا ہر مخالف واجب القتل تھا۔ بعین سونامی حضرات کیلئے بھی فلسفہء عمران سے ذرہ برابر اختلاف رکھنے والا ہر شخص جہالت زدہ، غدار پاکستان اور فحش گالیوں کا ہی نہیں ڈنڈوں کا بھی مستحق ہے۔
۔
گذشتہ چار برس اقتدار کے حصول میں معاون جرنیلوں کے قصیدے پڑھنے والے انصافی مجاہدین آج اپنی حکومت کے مکمل ناکام اور نااہل ثابت ہونے پر عدم اعتماد کا شکار ہونے کے بعد انہیں فوجی جرنیلوں کو غدار قرار دیتے اور اپنے ہی ملک کے عسکری اداروں کیخلاف زہر اگلتے نظر آتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ آج بھارتی میڈیا اور انٹی پاکستان لابیاں خان صاحب کی انٹی فوج مہم جوئی پر تالیاں بجا رہی ہے۔
حسن بن صباح نے نوے برس کی طویل عمر پائی لیکن اس کی مادر پدر آزاد فحاشی و عریانی اور دہشت گردانہ تحریک کا عبرت ناک انجام بھی ” سیر کو ملے سوا سیر ” کے مصداق تاریخ کے سفاک قصاب ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ ہلاکو خان نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کر کے اس تحریک کے ہزاروں فدائیوں کو بڑی بیدردی سے قتل کر دیا۔ اس ملک میں حقیقی انقلاب کیلئے قوم سے کئے گئے ہر وعدے سے انحراف کرنے اور جھوٹ در جھوٹ بولنے والے شعبدہ باز خان صاحب نہیں قوم سے مخلص رہنما درکار ہے ۔ حرف آخر یہی ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کیلئے جس ایٹمی طاقت کو، بھارتی گولی اور بارود سے ختم کرانا ممکن نہیں رہا، وہ اسے اپنی فارن فنڈنگ کے ذریعے مذہبی اور لادینی نظریات میں خونی ٹکراؤ ، تحریک انصاف برانڈ مادر پدر آزاد عریاں تہذیب کے فروغ اور خان صاحب برانڈ لا قانونیت کے سیلاب میں ڈبو کر ختم کرنے پر تلے ہیں ۔
۔
لیکن یہ پاکستان میرے اللہ کا انعام خاص ہے، یہ سبز ہلالی دیس تا قیامت سلامت و آباد رہے گا کہ یہ وطن مملکت خداد پاکستان نظریات ِ لا الہ الا اللہ کا دیس ہے ، یہ کسی ماڈرن حسن بن صباح یا ست رنگی مغربی کٹھ پتلیوں کے باپ کی جاگیر نہیں ۔
( فاروق درویش – واٹس ایپ ۔ 03224061000)
۔
پاکستان کے جے ایف 17 کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں