
ایرانی فوج کے یہودی شہیدوں کی یادگار
ماضی و حال کے حکومتی ایوانوں اور عوامی طبقات میں پاکستان سے زیادہ اپنے مسلک کے سرپرست ملک سے محبت رکھنے والے طبقات کی موجودگی ریاستی مفادات اور پاکستان کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ تھی اور رہے گی
ایران کو اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن قرار دینے والوں کیلئے فاروق درویش کے ایسے چشم کشا سوالات کا جواب ناممکن ہے۔ کہ ایرانی انقلاب کے بانی امام خمینی کو گستاخان اسلام کے مرکز فرانس جیسے اس ملک نے پناہ کیوں دے رکھی تھی جو اسرائیل کے قیام سے آج تک کی ہر اسلام دشمنی میں یہودیوں کے سرپرست ممالک میں شامل رہاہے۔ ایران کی اسرائیل کے حلیف بھارت کی پاکستان کیخلاف ہر دہشت گردی میں سہولت کاری کیوں رہی؟ تھوڑا غور کریں تو کچھ با پردہ اور کچھ بے پردہ حقائق بولتے ہیں کہ ایران دراصل امریکہ اور اسرائیل کے خفیہ حواری کا وہ پراسرار کردار ہے، جو خطے میں اسرائیلی مفادات کیلئے سرگرم ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نیتن یاہو ایران کو اسرائیل کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے۔ لیکن یہود و نصاریٰ کی عیاریوں کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ اپنے آلہ کاروں کو خود اپنا دشمن مشہور کر کے مسلمانوں میں ہیرو بناتے ہیں۔ یہ ایسی عیاریوں سے ہی اپنے آلہ کاروں کا مشن آسان بناتے ہیں۔ جیسا کہ خلافت کا چراغ بجھانے والے برطانوی جاسوس لارنس آف عریبیہ کے دکھاوے کے قبول اسلام کے بعد اس کو عیسائیت کا غدار اور یہود کا دشمن کہنے والے یورپی اور یہودی ہی بعد میں اس کے ماسٹرز ثابت ہوئے ۔ اسی طرح مرزا قادیانی کو بھی انگریز مسیح کا گستاخ کہتے تھے۔ عیسائی پادریوں کے ساتھ مناظرے کروا کر اسے عیسائیت کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا تھا ۔ لیکن عالم اسلام میں ایک فتنہ کھڑا کرنے کے بعد پھر اب وہی گورے اس جعلی مسیح اور نقلی مہدی کے پیروکاروں کو اپنے ملکوں میں اولادوں کی طرح پال رہے ہیں۔
اہل نظر کی طرف سے کچھ ایسے بھی انکشافات ہوئے کہ بینظیر دور میں خالصتان کیلئے سرگرم سکھوں کی لسٹیں بھارت کو فراہم کرنے میں ایران کا طاقت ور ہاتھ شامل تھا۔ ممکن ہے کہ ایک شیعہ مسلمان ہونے کے ناطے محترمہ بینظیر بھارت کے قریبی جناب امام خمینی کی حکم عدولی کرنے سے قاصر تھیں۔ لیکن ایسے انکشافات اس خوفناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حکومتوں اور عوام میں پاکستان سے زیادہ اپنے اپنے مسلک کے سرپرست ملک سے محبت کرنے والے ملکی مفادات اور سلامتی کیلئے انتہائی خطرناک ہیں ۔
عجب تماشہ تھا کہ اسرائیل کی فلسطین کیخلاف حالیہ خونریزی کے دوران ایرانی ویڈیوز میں پاک فضائیہ اور ترک ائرفورس کو غزہ کی فضائی حدود کی نگرانی کی اپیلیں ہوتی رہیں۔ پاکستان کو تین ہزار میل دور اسرائیل کیخلاف جنگی کاروائی کے بھاشن جاری ہوتے رہے۔ جبکہ خود شام اور عراق میں اسرائیلی سرحدوں کے نزدیک موجود ایرانی دستے اور ہیوی میزائیل لانچرز اسرائیل کیخلاف کسی چھٹانک بھر کاروائی سے بھی گریزاں رہے۔
ترکی کیخلاف ایرانی میڈیا کمپین کے حوالے سے کچھ حقائق جاننا ضروری ہیں ۔ بھارت اور اسرائیل کے نقش قدم پر ایران بھی پاک ترک دوستی اور سٹریٹجک ریلیشن سے ناخوش ہے۔ دوسری وجہ ایران کا رستا ہوا یہ تاریخی زخم ہے کہ ہمسایہ ریاستوں کیخلاف مہم جوئیوں کے عادی شاہ اسماعیل صفوی نے ایک باغی ترک شہزادے مراد کی حمایت میں سلطان سلیم کا تختہ الٹانے کیلئے عثمانیوں کیخلاف محاذ کھولا تھا ۔
اس جنگ چالدران میں ترکی کے ہاتھوں ایران کو جو شکست فاش ہوئی اس کے نتیجہ میں دیار بکر اور مشرقی ایشیائے کوچک کا وسیع علاقہ ترکی کے قبضے میں چلا گیا۔ ترکوں سے اس شرمناک شکست کا بدلہ جہاں اسماعیل صفوی نے ایران کی سنی آبادی پر وحشیانہ مظالم اور پھر اس مذہبی جبر کی مخالفت کرنے والے شعیہ علما کرام کو بھی پھانسیاں دے کر لیا۔ وہاں ایرانی علاقے چھن جانے کا بدلہ آج کی ایرانی نسل ترکی اور صدر اردوغان کیخلاف دل کی بھڑاس نکال کر لے رہی ہے ۔
یاد رہے کہ ایران میں چالیس ہزار کے قریب یہودی آباد ہیں۔ لیکن تعجب کہ جہاں اسرائیلی اور امریکی جھنڈے نذر آتش کئے جاتے ہیں ، وہاں یہود کی پذیرائی اور ” اعلی خدمات ” کا اعتراف بھی ہے۔ قابل صد غور ہے کہ ایرانی حکومت نے عراق ایران جنگ میں ہلاک ہونے والے ایرانی یہودیوں کی ” قومی خدمات ” کے اعتراف میں ایران کے یہودی قبرستان میں ان ” شہیدوں ” کی یاد گار تعمیر کی ۔ اور اسرائیلی اخبارات نے ایران کی طرف سے اس پذیرائی کے اظہار تشکر مین ان خبروں کو فرنٹ پیج پر شائع کیا تھا۔
ایران میں یہودیوں کی ” قابلِ تعظیم ” کمیونٹی کے رہنما ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس یادگار شہداء کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ یہودی کمیونٹی کے صدر ہمایوں نجف آبادی کا کہنا ہے کہ ، ’’جو شخص بھی کی اس یادگار کو دیکھے گا، وہ ان شہید یہودیوں کی ایران کیلئے دی گئی قربانیوں کو ضرور یاد کرے گا "۔
اس قبرستان میں یادگاری تختے پر دس ” یہودی شہیدوں ” کے نام کندہ ہیں۔ ان میں سے پانچ یہودی ایران و عراق جنگ میں لڑتے ہویے مارے گئے تھے، تین یہودی دوران جنگ تہران میں جان بحق ہوئے ، جبکہ باقی دو یہودی ” شہیدوں” کی اموات شاہ ایران کے آخری دور کے ہنگاموں میں ہوئی۔
یاد رہے کہ انقلاب ایران سے پہلے یہاں یہودیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کو نقل مکانی کر گئے۔ جبکہ آج پچاس ہزار کے قریب یہودی زیادہ تر تہران، اصفہان اور شیراز میں آباد ہیں۔ ایران کی طرف سے یہود اور اسرائیل کی اس درجہ مخالفت کے باوجود پچاس ہزار یہودیوں کا ایران میں مقیم رہنا، ایران اور اسرائیل کے ” خفیہ تعلقات ” کے شبہات کو تقویت دیتا ہے۔
صدر حسن روحانی نے اقتدار میں آتے ہی ہٹلر کے ہاتھوں قتل ہونے والے یہودیوں کے ہولوکاسٹ کی مذمتیں کی۔ خیر سگالی کے طور پر دنیا بھر کے یہودیوں اور ایران میں آباد یہودی کمیونٹی کو یہودی نئے سال کے موقع پر نیک تمناؤں کا پیغام بھی دیا جاتا رہا۔
یہ حقائق قابل غور ہیں کہ کہ دجال کے خروج اور اس کے حواریوں کے بارے میں جو مصدقہ احادیث ہیں ان ميں سے اکثر کا تعلق موجودہ ایرانی شہروں سے ہے۔ متفقہ علیہ احادیث کے مطابق دجال کا خروج ایران کے شہر اصفہان سے ہوگا اور ستر ہزار اصفہانی یہودی اس کے ہمراہ ہوں گے۔
قابل توجہ ہے کہ احادیث کے مطابق دجال کے ہمراہ ستر ہزار یہودی ہوں گے مگر ایران میں ابھی چالیس ہزار کے قریب یہودی آباد ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی تیس ہزار یہودی کہاں سے آئیں گے؟ کیا اس وقت تک ان یہودیوں کی آبادی ستر ہزار ہو چکی ہو گی یا پھر مخفی حقائق یہ ہیں کہ جن قدیم یہودیوں نے اسلام قبول کیا تھا دراصل ان میں سے بعض قبیلوں نے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن درحقیقت وہ نام نہاد مسلمان اندر سے ابھی تک یہودی ہی ہیں ؟ حقائق سوال کرتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسے درپردہ "خفیہ یہودی ” امت اسلامیہ کو کوئی انتہائی کاری ضرب اور نقصان پہنچانے کیلئے کسی مناسب وقت یا اپنے مساحا دجال کا انتظار کر رہے ہیں؟
دوسرے یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اصفہانی یہودی تمام یہودی قبائل ميں ممتاز درجہ اور اعلی ترین مقام رکھتے ہیں۔ اسرائیلی قیادت کیلئے ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کئی بار ان یہودیوں کو اسرائیل منتقلی کی اپیلیں کر چکا ہے۔ اسرائیلی حکومتوں کی طرف سے ان کاروباری یہودیوں کو ہر ممکن مدد ، صنعت اور کاروبار میں اعانت کی آفرز تک کی گئیں ۔ لیکن اپراسرار امر ہے کہ یہ یہودی لوگ ایران ہی میں رہنے پر مصر ہیں۔
یہ سب کچھ قابلِ مذمت تفرقہ بازی یا خطہء عرب و فارس میں عسکری بالا دستی کی جنگ سے بڑھ کر کوئی ایسا پراسرار معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ جس کی ناقابل فہم کڑیاں اس دورِ آخر سے ملنے جا رہی ہیں۔ جب سیدنا عیسی علیہ السلام اپنے نزول ثانی میں افلاک الہی سے نبیء آخر الزماں ﷺ کے ایک امتی بن کر ملکِ شام میں اتریں گے۔ اور اسرائیل کے مقام لد پر دجال اور خنزیر کا قتل کرنے کے بعد صلیب توڑیں گے۔
تکلیف دہ امر ایران نواز طبقات کی طرف سے ایران پر تنقید کو شیعہ ازم پر حملہ تصور کرنا ہے۔ شعیہ مسلمانوں کی اپنے وطن پاکستان سے زیادہ ایران سے محبتیں سوالیہ نشان بن رہی ہیں۔ پاکستانی شعیہ مسلمانوں کی طرف سے ایران کو پاکستان کے مقابلے میں مضبوط تر دفاعی طاقت قرار دینا بڑا چشم کشا ہے ۔ کیا یہ ایران کے حامی مذہبی شدت پسند طبقات کی پاکستان کی ایٹمی فوجی ریاست کو للکارنے جیسی قابل مذمت جرات نہیں ؟
پاکستان کا مطلب صرف لا الہ الا اللہ ہے ۔ یہ صرف تمام مسالک ِ اسلام کا ہی نہیں اقلیتوں کیلئے بھی امن کا سانجھی دھرتی ہے۔ پاکستان کے اندر ایران برانڈ انقلاب کے خواب دیکھنے واے مذہب اور ریاست کے غدار ہیں۔ میرا یقین ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت اور ادارے ان عناصر اور معاملات پر ضرور کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ دعا گو ہوں کہ پاکستان کی مغربی سرحدیں بھارت اور افغانستان کے حلیف ایران کے شر سے محفوظ رہیں۔
تحریر : فاروق درویش
واٹس ایپ ۔ 03324061000
پاکستان کی ڈیفنس انڈسٹری کے بارے میرا یہ مضمون بھی پڑھیں
پی کے ۔ 15، جے ایف ۔ 17 اور الخالد سے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر پراجیکٹ عزم تک