تاریخِ عالم و اسلام
عالم اسلام اور پاکستان سے طویل عداوتوں کی ایرانی تاریخ
ایران کسی مذہب یا مسلک کا نام نہیں، فرقہ واریت کے نام پر تشدد پھیلانے والی ایک بھارتی اتحادی ریاست ہے
Share this
میں فرقہ واریت پھیلانا اتحاد امت مسلمہ کیلئے زہر قاتل سمجھتا ہوں ۔لہذا میرے اس مضمون کو شعیہ سنی اختلافات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے ۔خیال رہے کہ ایران کسی مذہب و مسلک کا نہیں بلکہ اپنے مفادات کی نگران اس ریاست کا نام ہے جو پاکستان کے مقابل بھارت کی دیرینہ اتحادی رہی ہے۔ ان حقائق کو جھٹلانا بھی ممکن نہیں کہ بلوچستان میں پاکستان کیخلاف سرگرم بھارت کے کٹھ پتلی بلوچ باغیوں کو ایران کی بھی بھرپور مدد حاصل ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن اور دیگر بھارتی ایجنٹوں سے ایرانی پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کی برامدگی ایران کی بھارت نوازی اور انٹی پاکستان سرگرمیوں کا ناقابل تردید ثبوت بنتے رہتے ہیں۔
ہائے ہائے امریکہ کے پرفریب نعروں کے شور میں پاکستانی سرزمین پر برستے ہوئے راکٹوں، سرحدی چوکیوں پر حملوں اور پاکستانی جوانوں کی شہادتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ گویا سرحد کے اس پار سے ایرانی نہیں بھارتی فوج حملہ آور ہیں۔ لیکن یہ پاکستانی فوجی قیادت کی انتہائی بردباری ہے کہ خطے میں بھڑکتی ہوئی آگ کے پیش نظر بیس گنا فائر پاور رکھنے کے باوجود ایران کی اشتعال انگیز حرکتوں کا کبھی جواب نہیں دیا گیا۔ گذشتہ برسوں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت، افغانستان اور امریکی کٹھ پتلی ایران کی طرف سے پاکستانی بندرگاہ گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار کی بندرگاہ کے مشترکہ پراجیکٹ کے اعلان سے ایران کی نام نہاد ” اسلامی انقلابیت” ،” اسلام دوستی ” اور “جذبہء ہمسائیگی” کا اصل چہرہ پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ ۔
تاریخ کی موم بتی جلائیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ایران کی سرزمین سے اسلام دشمن سازشوں کی روایات نئی نہیں بلکہ صدیوں پرانے یہ سلسلے قدیم غیر مسلم ایرانی ریاستوں کے ادوار سے جاری ہیں۔
سب سے پہلا قابل ذکر باب ایران کی غیر مسلم سلطنت کسریٰ کا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی طرف سے شاہ خسرو پرویز کو دعوتِ حق کا خط پہنچتا ہے اور وہ طیش میں وہ خط پھاڑدیتا ہے۔ آپ ﷺ پیشین گوئی فرماتے ہیں کہ ، ”جس طرح اس خسرو نے میرے خط کو پرزے پرزے کیا ہے، اللہ اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا “۔
۔
اس پیشین گوئی کے مطابق وہ پہلے عربوں اور پھر رومی فوجوں کے ہاتھوں شکست کھا کر بھاگتے ہوئے گرفتار ہوتا ہے۔ اس کے اٹھارہ بیٹوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا جاتا ہے ۔ وہ اپنے ہی بیٹے شیرویہ کی قید میں اس کے ہاتھوں قتل ہو کر انجام عبرت کو پہنچتا ہے۔ اور بالآخر صرف آٹھ برس میں کسری کی عظیم الشان سلطنت کے ایسے ٹکرے ہوتے ہیں کہ اس گستاخِ رسول کا تخت ہی کا نہیں بلکہ اس کی نسل تک کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔
میں اتحاد بین المسلمین کا داعی اور فرقہ واریت کا سخت مخالف ہوں۔ لہذا سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلاء میں تنہا چھوڑنے والے مختار ثقفی یا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو خدا کا درجہ دینے والے عبداللہ بن سبا کے شیعہ ہونے کا ذکر نہیں کروں گا۔ کیونکہ اس سے بات تفرقہ بازی کی طرف نکل پڑے گی۔
لیکن تاریخی حقائق ضرور لکھوں گا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قاتل اور نئی ایرانی نسل کا ہیرو ابو لولو فیروز، مسلم فتوحات سے خائف ایرانی عناصر ہی کا پالک تھا۔ مصر میں عیسائیت کے اتحادی بننے اور بنا مزاحمت بیت المقدس کو صلیبیوں کے حوالے کرنے والے فاطمی حکمران بھی ایران کے زیر اثر تھے۔ صلیبی لشکر کی مدد کرنے والا احمد بن عطا بھی ایرانی کٹھ پتلی تھا۔ نورالدین زنگی کو زہر دینے والے فاطمی حشاشین، فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے قتل کا منصوبہ بنانے والا کنز الدولہ بھی ایرانی النسل ہی تھا۔
سقوط بغداد میں عباسیوں کیخلاف سازش کے کرداراور ہلاکو خان کو بغداد ہر حملے کی دعوت دینے والا غدار ابو العلقمی بھی ایران سے تعلق رکھتا تھا۔ اور اس کا وہ ساتھی خواجہ نصیر الدین طوسی بھی ایرانی تھا۔ جسے ہلاکو نے غداری کے صلے میں انعام و اکرام سے نواز کر محکمہ اوقاف کا امین بنایا تھا۔ بغداد میں وحشیانہ قتل عام کرنے والے تاتاریوں کو خوش آمدید کہنے والے تمام عناصر ایرانی تھے۔ اسی طرح شام میں ہلاکو کا استقبال کرنے والا کمال الدین بن بدر التفلیسی بھی ایرانی تھا ۔
بیس ہزار حاجیوں کو قتل کر کے لوٹنے اور حجر اسود کو چرانے والا ابو طاہر قرامطی بھی ایرانی حمایت یافتہ تھا۔ اور کعبۃ اللہ پر قبضہ کرنے والے دہشت گرد بھی ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ نبوت ، مہدیت اور خدائی کا دعوی کرنے والا مرتد محمد علی باب اور اس کا کفر پھیلانے کیلئے جان دینے والی شاعرہ قراۃ العین طاہرہ کا تعلق بھی ایران سے تھا۔ جبکہ نبوت کا ایک اور کاذب دعویدار مرزا غلام قادیانی بھی ایرانی النسل ہونے کا دعویدار ہے۔
مسلم دنیا میں خود کش حملوں اور دہشت گردی شروع کرنے والی خفیہ تنظیم حشاشین کا بانی حسن بن صباح بھی ایرانی تھا۔ اس کے پیروکار داعی اور فدائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ فدائیوں کا کام اپنے مذہبی فلسفے کو سچا اور دوسروں کے نظریات کو باطل ثابت کرنا تھا۔ جبکہ فدائیوں کا کام مخالفین کو ہلاک کرنا تھا۔ دہشت انگیزی کی یہ تحریک اتنی منظم تھی کہ طاقت ور حکمران بھی اس سے خوف زدہ تھے۔ آج پاکستان کے قریب و جوار اور صحرائے عرب کے کشیدہ حالات کا بغور جائزہ لیں تو آج کی ایرانی ریاست بھی حسن بن صباح کے نقش قدم پر چلتی ہوئی بھارتی را کی مدد گار نظر آتی ہیں۔
مذہبی شدت پسندی کے بانی شاہ اسماعیل صفوی کا دور
۔
تاریخی حقائق ہیں کہ ایران کی فرقوں کے نام پر دوسری مسلم ریاستوں میں دخل اندازی بھی صدیوں پرانی ہے۔ سیدنا عمر فاروق کی دور میں ہوئی عظیم فتح ایران تک ہخامنشی ، اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ایران کا سرکاری مذہب تھا۔ لیکن فتح ایران کے ساتھ ہی جب آخری آتش پرست ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو پورے ایران میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ پندرہویں صدی تک ایران کی دو تہائی اکثریت سنی العقیدہ تھی۔ تب تک شعیہ سنی تفرقہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن پندرہویں صدی کے آغاز میں مذہبی شدت پسند صفوی سلطنت قائم ہوئی ۔ تو شاہ اسماعیل صفوی کی طرف سے سنی آبادی کو جبری طور پر شعیہ بنانے کی تحریک عروج پر تھی۔
شاہ اسماعیل صفوی بھی جدید ایران کی طرح ہمسایہ مسلم ریاستوں کیخلاف ایک سازشی کردار بنا رہا۔ اس نے ایک باغی ترک شہزادے مراد کی حمایت اور سلطان سلیم کا تختہ الٹانے کیلئے عثمانیوں کیخلاف محاذ جنگ کھول دیا۔ مشہور جنگ چالدران میں ایرانی شاہ اسماعیل صفوی کو شکست فاش ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں دیار بکر اور مشرقی ایشیائے کوچک کا وسیع و عریض علاقہ ہمیشہ کیلئے ایران کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ عثمانیوں کے ہاتھوں اس شرمناک شکست کا بدلہ لینے کیلئے اسماعیل صفوی نے ایران کی سنی آبادی پر جس وحشیانہ جبر کا آغاز کیا وہ ایرانی مسلمانوں کیلئے کڑا وقت تھا۔ اسے ایران میں مذہبی شدت پسندی اور شعیہ ازم کے فروغ کیلئے ریاستی دہشت گردی کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اسماعیل صفوی سے قبل ایران میں کئی شعیہ حکمران رہے، لیکن کسی نے مسلک کو سرکاری مذہب بنا کر دوسرے مسالک کی نسل کشی نہیں کی۔ لیکن اسماعیل صفوی نے شعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیکر صحابہ اکرام اور امہات المومنین پر تبرا کرنے کا سرکاری آغاز کر کے فرقہ واریت کی جو تحریک شروع کی اس نے عالم اسلام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی صلیبی سازش میں گھناؤنا کردار ادا کیا۔ اس وقت کئی شیعہ علماء کرام نے بھی اس کی سخت مخالفت کی لیکن اسماعیل صفوی نے ان شعیہ عالموں کو بھی پھانسیاں دیکر قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔
صفوی دور میں لوگوں کو نہ صرف شیعہ ازم قبول کرنے بلکہ صحابہ اکرام اور امہات المومنین پر تبرا کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ اس خونی تحریک کی مخالفت کرنے پر سنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ شعیہ علماء بھی قتل کردیے گئے۔ اور لاکھوں خوف زدہ سنی مسلمان ایران چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ایرانی انقلاب کے بانی خمینی نے اپنی تحریر و تقریر میں صحابہ اکرام و امہات المومنین پر انتہائی غلاظت زباں تبرا بازی شروع کر کے اسماعیل صفوی کی جس پلید طریقت کو تازہ کیا۔ آج اس کے نتیجے میں پورا خطہ خون آشام فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا ہے۔
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں گستاخان صحابہ و امہات المومنین ، سیکولر صحافیوں ، مذہب مخالف لکھاریوں ہی نہیں بلکہ توہین قرآن و رسالت اور گستاخیء اہل بیت کے مرتکب قادیانی طبقات کو بھی ایرانی اداروں اور شعیہ شعرا و ادیبوں کی سرپرستی حاصل ہے۔
موجودہ دور میں سب سے قابل مذمت 1987ء کی وہ مسلح دہشت گردی ہے۔ جس میں ایرانی مسلح افراد نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا مگر سعودی فورسز نے پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے تعاون سے یہ مذموم کوشش بھی ناکام بنا دی۔ اس واقع میں چار سو افراد شہید ہوئے۔ ان دہشت گردوں کے سرغنہ محمد حسن علی محمدی نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں خانہ کعبہ کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دینے کا مشن سونپا گیا تھا۔
یمن سے کعبۃ اللہ کی طرف پیش قدمی کے دعوے اور سعودی سرحدوں پر خون ریزی کرنے والے حوثی قبائل کو بھی فرقہ واریت کے پروموٹر ایران کی عسکری مدد حاصل ہے۔ عراق میں امریکیوں کو خوش آمدید کہنے والے سیستانی اور حکیم بھی ایرانی ہیں۔ افغانستان میں لاشوں میں پٹرول بھر کر ” ڈیتھ ڈانس” کروانے والے ہزارہ قبائل کے بابا مزاری جیسے ظالم ترین جنگجو کو اسلحہ کی فراہمی اور امریکہ اور نیٹو قبضہ کو خوش آئند قرار دینے والے بھی ایرانی حکمران تھے ۔
شام میں مسلمانوں پر کیمیائی ہتھیار برسانے والے بشار الاسد سے مل کر لاکھوں مسلم کے قاتل بننے والے عراقی حکمرانوں کو بھی ایران کی کھلی مدد حاصل
ہے ۔ برما کے مسلمانوں کے قتل پر بدھ قاتلوں کی حمایت کا اعلان کرنے والا واحد اسلامی ملک بھی ایران ہے۔ پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا مخبر بننے والا شاعر مرزا غالب بھی ایرانی النسل تھا۔ سلطان ٹیپو کا جرنیل میر صادق اور نواب سراج الدولہ کا غدار جرنیل میر جعفر بھی ایرانی تھے. جمہوریت کا پہلا قاتل اسکندر مرزا اسی غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے کردار جنرل رانی اور یحیی خان بھی ایران سے تعلق رکھتے تھے۔
۔
قابل توجہ ہے کہ دجال کے خروج اور اس کے حواریوں کے بارے مصدقہ احادیث کے مطابق دجال کا خروج ایرانی شہر اصفہان سے ہوگا اور ستر ہزار اصفہانی یہودی اس کے ہمراہ ہوں گے۔ چشم کشا حقیقت ہے کہ ایرانی حکومت نے عراق، ایران جنگ میں ہلاک ہونے والے ایرانی یہودیوں کی ” قومی خدمات ” کے اعتراف میں ان ” شہیدوں” کی یاد گار بنائی ہے۔ ایرانی یہودی برادری کے صدر ہمایوں نجف آبادی کے مطابق ، ’’جو اس یادگار کو دیکھے گا، وہ ان شہید یہودیوں کی ایران کیلئے دی گئی قربانیوں کو ضرور یاد کرے گا۔
معزز احباب ایمان داری سے بتائیے گا کہ کیا اول تا آخر ان تمام ناقابل تردید تاریخی حقائق اور خطے کی مسلم ریاستوں کے اندر جاری تازہ بہ تازہ ایرانی مہم جوئیوں سے عقل انسانی کسی طور یہ تسلیم کرنے کو تیار ہے کہ ایران واقعی امریکہ اور یہودیوں کا مخالف یا عالم اسلام اور پاکستان کا دوست ہے؟ اگر کوئی دوست ایسا سمجھتا ہے تو آئیے اس کی مرگ ِ عقل و فہم کے سوگ میں مل کر سینہ کوبی کریں۔
آج ایرانی ریاست کی مذہبی شدت پسندی اور پاکستانی مفادات و سالمیت کیخلاف بھارت اور افغانستان سے اتحادی منصوبہ بندیاں، عالمِ عرب و عجم کے مسلمانوں کے وسیع تر اتحاد کی متقاضی ہیں۔ آئیے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے پرعزم دفاع کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا مشترکہ دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنانے کیلئے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر اتحاد عالم اسلام زندہ باد۔ ناموس رسالت ، حرمت ِ اہل بیت اور تقدس صحابہ زندہ باد کے ساتھ فرقہ واریت مردہ باد کا نعرہ لگائیں
فاروق درویش : واٹس ایپ ۔ 00923324061000
لبرل نظریات کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں