زرداری کے ڈاکو راج اور شاہ نیرو کی بانسری
اللہ سوہنا سندھ کے جوہڑوں کا پانی پینے والے بے یار و مددگار عوام کو وڈیروں کے جبر و استحصال اور وڈیرے گھوڑوں پر سوار ڈاکو راج کی قیامت خیزیوں سے محفوظ رکھے
جلتے ہوئے روم میں بانسری بجا کر تماشہء محشر دیکھنے کیلئے مشہور ظالم شاہ نیرو 54ء سے 68ء عیسوی تک اپنی من مانی کا حکمران رہا۔ ظلم و بربریت میں اس کی شہرت چنگیز خان ، حسن بن صباح یا ہٹلر اور شہری تعمیرات کی کارکردگی خاندانِ شریفاں جیسی ہے۔ جبکہ اسے جنسی معاشقوں میں غرق حکمرانوں اور اپنے عزیزوں کو قتل کر کے حکمرانی کرنے والے سیاست دانوں کا روحانی پیشرو کہا جا سکتا ہے۔
شاہ نیرو اپنی ماں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے اُس چچا کلاڈئیس کے قتل کے بعد تخت نشین ہوا، جس نے بھائی کے مرنے پر اس کی بیوہ ماں اگرپنا سے شادی کی اور شاہ نیرو کو باپ کی طرح پالا تھا۔ پھر اس ماں نے اپنے اس دوسرے خاو ند کلاڈئیس کو قتل کروا کر اپنے سترہ سالہ بیٹے نیرو کی بادشاہت کا راستہ ہموار کیا۔ لیکن اس ماں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ جس نیرو کو بادشاہ بنانے کیلئے وہ شوہر کا قتل کروا رہی ہے، وہی بدبخت بیٹا اسے ایک دن درناک اندازمیں قتل کرے گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ سیاست کے کاروبار میں کھربوں ڈالرز کا مالک بن جانے والے زرداری کس کس سنگی و ملنگی کی بد قسمتی کی کہانی لکھیں گے ۔ لیکن قوم کو افسوس ہے کہ ایسے کرداروں کو حسب وعدہ لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹ کر سیاست کے شریفوں نے ملک و قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق اور آنے والی نسلوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔
عجب اتفاق ہے کہ نیرو بھی زرداری اور بلاول صاحب کی طرح بچپن سے منہ زور اور جنونی تھا۔ عجب اتفاق ہے کہ شاہ نیرو اور زرداری صاحب کی حصول اقتدار کی جدوجہد اور دور حکومت کی داستانوں میں بھی بڑی مماثلت ہے۔ شاہ نیرو نے اقتدار کیلئے باپ ، بھائی اورعزیزوں کا قتل کروایا تو زرداری نے بھی پہلے اپنے سالوں مرتضے اور شاہنواز بھٹو اور پھر محبوب بیوی بینظیر کو راستے سے ہٹا کر اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کیا۔ نیرو بادشاہ بننے کے بعد شادی شدہ پومیا سبینا کے عشق میں مبتلا ہوا تو پہلے اپنی بیوی اوکتاویا کو خود کشی پر مجبور کیا اور پھر نئی محبوبہ کا شوہر قتل کروا کر اپنی ملکہ بنا لیا۔ جبکہ زرداری صاحب بھی اپنی محبوب بیگم کو قصہ ماضی بنانے کے بعد اقتداراور شباب کے دوہرے مزے لوٹتے رہے ۔
نیرو کی اصلاح کی خواہاں ماں نے عیاشی کی مخالفت کی تو اس نے ماں کی کشتی ڈبونے کی کوشش اور چارناکام قاتلانہ حملوں کے بعد آخرکار خود قاتلانہ حملہ کیا۔ بدبخت بیٹے کیلئے اپنے محسنوں کو قتل کروانے والی بدنصیب ماں کے دل ہلا دینے والے آخری الفاظ یہ تھے کہ ” نیرو میری اس کوکھ پر ضرب لگاؤ جہاں سے تم جیسے بدبخت بیٹے نے جنم لیا تھا “۔ یاد رہے کہ قدیم و جدید تاریخ حصول اقتدار کیلئے ایسے ہی قتلوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں چنگیز و ہلاکو کی آدم خور اولادوں سے لیکر کئی سلاطین ہند اود اورنگ زیب جیسی ہستیوں نے بھی حصول اقتدار کیلئے خونی رشتوں کے قتال سے دریغ نہیں کیا۔
زرداری اینڈ کمپنی کی تاریخ کا ہر باب نیرو کی رنگین مہم جوئیوں سے زیادہ رنگین رہا ہے۔ نیرو کے حرم میں دو چار حسینائیں تھی تو زرداری صاحب کی قربت میں جیسی کئی مست سیاسی کٹھ پتلیاں اور تھر میں فاقہ زدہ ہاریوں کی لاشیں بھلا کر رقص ِ دلربائی میں مدہوش ان گنت لیلائیں موجود رہتی ہیں۔ اقتدار گنوا کر بھی اتنی رسائی کہ زرداری صاحب کی ایان علی کو اڈیالہ جیل میں بھی فائیو سٹار ہوٹل جیسی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں۔ زرداری مرکز میں تھے تو پارلیمنٹ سے ایوانوں تک کرپشن کنگ ڈاکوؤں کا راج تھا۔ جبکہ سندھ حکومت میں وڈیروں کی سہولت کاری کے گھوڑوں پر سوار ڈاکوؤں کے راج میں حکومت کی یہ معنی خیز بے بسی کہ ریاستی پولیس کے اہلکاروں اور مزارعوں کا قتل عام اور انسانی زندگی کا محشر جاری ہے۔
اس داستان عشق درعشق میں دلچسب امر یہ ہے کہ حسن کی ان بجلیوں کی خدمات صرف زرداری تک ہی نہیں محدود نہیں بلکہ ہم آغوشیوں کے اس سمندر میں اوائل جوانی ہی میں تجربہ کار عاشق بن جانے والے بلاول بھی گنگا اشنان کرتے ہیں ۔ یاد رہے کہ شاہ نیرو کے اتالیق مشہور فلسفی سینکا نے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کی تو شاہ نیرو نے اسے بھی قتل کروا دیا۔ دعا گو ہوں کہ معاشقوں کے سرکاری راز افشا کرنے والے ذوالفقار مرزا جیسے سیاسی ارباب زرداری صاحب کے ” ممکنہ انجام ” سے محفوظ رہیں۔
تاریخ یاد دلاتی ہے خوفناک آگ مسلسل پانچ روز تک روم میں بھڑکتی رہی۔ مگر زمانے کے دکھوں سے بے نیازشاہ نیرو بانسری اور اک تارا بجاتا شعلوں کے رقص سے ایسے ہی محظوظ ہوتا رہا، جیسے سیلاب میں ڈوبتی ہوئی عوام کے مصائب سے بے نیاز عمران خان اور طاہر القادری دھرنوں میں رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ سن 64 عیسوی میں ظالم و سفاک شاہ نیرو نے روم کو آگ لگانے کے خود ساختہ الزامات لگا کر ، عیسائیوں کے وحشیانہ قتلِ عام کیلئے اذیت و تعذیب اور قتل کے جو ہولناک طریق استعمال کئے ان پرانسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ تاریخ دان ٹیسی ٹس کے مطابق عیسائیوں کو صلیبوں پر لٹکایا، جنگلی جانوروں کی کھالوں میں سلوایا اور بھوکے کتوں ، شیروں اور چیتوں کے سامنے ڈالا جاتا تو شاہی سٹیڈیم ” کولوزئیم” میں بیٹھا شاہ نیرو اپنے درباریوں اور رعایا کے ہمراہ ان “عیسائی شہیدوں” کی چیر پھاڑ کے انسانیت سوز مناظر سے لطف اندوز گرمجوشی سے تالیاں بجایا کرتا تھا۔
شاہ نیرو کے ساتھ آخرکار وہی تماشہء عبرت ہوا جو قانونِ قدرت اور موجودہ حالات میں پاکستان کی بھی عین ضرورت ہے۔ سن 68 ء میں نیرو کے مذہبی و سیاسی مظالم کی وجہ سے ، رومی فوج نے نیرو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کرحکومت کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ نیرو شہر سے فرار ہوگیا تو فوج اور سینٹ کی عدالتی کونسل نے اس کیلئے سزائے موت کا حکم دیا۔ مفرور نیرو نے شہر سے دور اپنے ایک وفادار سپاہی کے گھر میں پناہ لے لی۔ اور وہاں اپنی خودکشی کا ارادہ کر کے اپنے دفن کیلئے قبر کھُدوائی۔
انتہائی بدبختی کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی ماں پر یہ کہہ کر لعنت اور ملامت بھیجتا رہا کہ اس ماں نے ہی اسے جنم دے کر شکست کا یہ دن دکھایا ہے ۔ اور پھر جیسے ہی اُسے گرفتاری کیلئے آنے والے گھڑ سواروں کے ٹاپوں کی آوازیں سنائی دی، اُس نے اپنی ہاتھوں اور پاؤں کی نَسیں کاٹ کر خودکشی کر لی۔ جب اس کی گرفتاری کیلئے آنے والے فوجی اس کے سر پر پہنچے، تو مظلوم رعایا اور ماں کی بد دعائیں پانے والا اکتیس سالہ شاہ نیرو اپنی بھرپور جوانی کی عمر میں انتہائی اذیت ناک حالت میں سسک سسک کر دم توڑ رہا تھا۔ مرتے وقت اس درندہ صفت انسان کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے کہ ” دنیا نے مجھ جیسا ، کیسا نایاب فن کار کھو دیا ہے”۔
عجب تماشہ ہے کہ نیرو کی طرح اپنے ہی عسکری اداروں کیخلاف سازشیں کرنے والے زرداری کا دعوی ہوتا ہے اس کے بعد اس قوم کیلئے روٹی کپڑا اور مکان کی امیدیں دم توڑ جائیں گی۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ ملک کو ان کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا کوئی نہیں ملے گا۔ قوم کو نواز شریف کرپشن کی بتی کے پیچھے لگا کر عدل و انصاف کا تماشہ بنانے والے خاں صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے بعد پاکستان کو انصاف دینے والا میسر نہ ہوگا۔ قادری فرماتے ہیں کہ ” مجھے کھو دو گے تو کوئی دوسرا طاہر القادری نہیں ملے گا۔ الطاف حسین کا دعوی تھا کہ اس کے بعد شہر قائد ویران ہو جائے گا۔ سرحدی گاندھی کی اولادیں سمجھتی ہیں کہ ان کے بعد بھارت دوستی کا مقدس نظریہ دفن ہو جائے گا۔ لیکن ہم کس پر یقین کریں کہ ان میں کوئی بھی ایوبی سلطان جیسا مسلمان یا ماؤزے تنگ جیسا انقلابی کیا، مہاتیر محمد اور طیب اردوغان جیسے مسلمان رہنماؤں کے عشر عشیر صلاحیتوں کا حامل رہنما ہی نہیں ۔
قانون قدرت ازل سے ابد تک یکساں اور جاری و ساری ہیں۔ شاہ نیرو کی داستانِ عبرت کی طرح زرداری کے سندھ میں ڈاکو راج کی کہانی بھی کسی عبرت ناک انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاریخ کے سچ بڑے کڑوے ہیں ، مگر سبق آموز حقائق لکھنے ہیں تو فاروق درویش کا قلم سچ لکھنے پر مجبور ہے ۔ خدا جانے کہ زرداری صاحب جیسے سیاسی عناصر عسکری اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی اور بڑھک مار پروگرام سے کن بے بصیرت سیاسی قوتوں پر خفیہ ضرب لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سانپوں کو پال کر، بار بار ڈنگ کھانے والے سیاسی لوگ اور ان کے رنگ رنگیلے نو رتن جلد ہی اس امر سے خوب واقف ہونے والے ہیں ۔ اللہ سوہنا سندھ کے مظلوم عوام کو زرداری صاحب کے وڈیروں کے جبر و استحصال اور ڈاکو راج کی قیامت خیزیوں سے محفوظ رکھے ۔
( فاروق درویش -واٹس ایپ کنٹیکٹ ۔۔ 00923324061000 )
پاکستان ڈیفینس انڈسٹری کے بارے میرا ہ مضمون بھی پڑھیں
پی کے ۔ 15، جے ایف ۔ 17 اور الخالد سے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر پراجیکٹ عزم تک
kia chasham kusha tehreer ha ..,,,,,,,,,ham sub ko appany ammal drust karnay chahiay kaunkah jesy ham hoon gay waisy he hukmran aian gay