
لارنس آف عریبیہ ، میڈم ملالہ اور عمران خان
میڈم ملالہ یا نیا پاکستان جیسے ڈراموں کی ڈرٹی گیمز سمجھنے کیلئے ہمیں خلافت عثمانیہ کی تاریخ کے اس کردار کے بارے جاننا ہو گا جسے دنیا لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے
میڈیا جادوگروں ، صحافتی منڈی اور سیاسی دلالوں کی بھرپور فنکاری کے باوجود مغرب کا سٹیج کردہ ملالہ ڈرامہ اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا نیا پاکستان شو مسلسل شکوک و شبہات میں ڈوبا ہے ۔ ملالہ شو یا نیا پاکستان تماشہ پروگرام سے مغرب و سامراج کو اتنی کامیابی ضرور ملی کہ اس نے پہلے سے تقسیم زدہ قوم کو مزید تقسیم کر دیا ۔ مغرب کی آلہ کاری کے بدلے ایک کٹھ پتلی ملالہ کو نوبل پرائز اور عمران خان جیسے ایک ایسے مغربی تہذیب زدہ کرکٹر کو ایک ایٹمی ریاست کی حکمرانی ملی جو ملکی نظم و نسق چلانے میں مکمل نا اہل لیکن سیاست میں عدم برداشت کے فروغ اور فتنہ و فساد برپا کرنے میں انتہائی کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ اس "معصوم ملالہ ” یا "نئے پاکستان ” جیسے گورکھ دھندوں کی عالمی سازشوں کو سمجھنے کیلئے ہمیں تاریخ کے اس پراسرار شہرہء آفاق کردار کے طریقہ واردات کو جاننا ہو گا جسے دنیا لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کی اسلام دشمن سازش سے جڑے اس تاریخی کردار پر ہالی وڈ کی اکیڈمی ایوارڈز یافتہ فلم بھی ریلیز ہو چکی ہے۔ مارچ 1916 ء کو دریائے دجلہ کے کنارے ترک کرنل خلیل پاشا نے برطانوی فوج کو عبرتناک شکست دی، تو انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ مسلمانوں کا مقابلہ میدان جنگ میں نہیں کرسکتے۔ لہذا ” ڈیوائیڈ اینڈ رول ” کی پالیسی پر عمل درامد کیلئے برطانوی فوج کے ایک ایسے جاسوس کرنل لارنس کو خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط عرب علاقوں میں بغاوت پھیلانے کا فریضہ دیا گیا جو عربی فارسی اور دیگر زبانوں پر دسترس رکھتا تھا۔
یہ برطانوی شخص گذشتہ چند برس سے عرب علاقوں میں جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ لہذا اس نے 1911ء میں عراق کے شہر بصرہ میں جاسوسی کا مرکز قائم کر کے حسن پرست عرب نوجوانوں کو بھی اپنے گروہ میں شامل کر لیا تھا ۔ یہودی پلان کے مطابق ایک امریکی یہودی بھی اس کی مدد کیلئے پہنچا دی گئی تھی۔ اس خوبصورت جنسی بلی نے حکمران طبقے کے عرب نوجوانوں کو حسن کے جال میں پھنسا کر ترکوں کی بیخ کنی شروع کردی ۔
عرب نوجوانوں کو شراب اور شباب کے نشے میں مدہوش رکھنے کیلئے مغربی ماڈلز اس جنسی گینگ میں شامل کی گئیں۔ کرنل لارنس کو ہدایات دی گئی کہ وہ ایسے غدارمسلمانوں کا انتخاب کرے جو مذہب فروش ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی مقام رکھتے ہوں۔ لارنس نے سب سے پہلے بصرہ کی مسجد میں دکھاوے کیلئےاسلام قبول کرکے یہ اعلان کیا کہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کر رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے خان صاحب کو خوش رنگ بلاؤں ، پیشہ ور لٹیروں اور کرپشن لنگ لوٹوں کی پوری ٹیم دی گئی ہے۔ اور وہ ایاک نعبدو ایاک نستعین پڑھ پڑھ کر ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست کے کاذبانہ دعوے کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی کے لارنس عریبیہ کا بھی یہ مکارانہ دعوی تھا کہ وہ ملت اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ لیکر انہیں ظالم ترکوں کی غلامی سے آزاد کروانے کیلئے میدان عمل میں نکلا ہے ۔ اور مغرب کی پالتو ملالہ کا دعوی بھی اس کرنل لارنس سے ہی ملتا جلتا تھا کہ وہ تعلیم کے فروغ اور ظلم و جبر سے نجات دلانے کیلئے نکلی ہے۔ جبکہ خان صاحب بھی کرپشن سے پاک ریاست مدینہ جیسی فلاحی مملکت اور غریبوں کیلئے خوشحال نیا پاکستان بنانے کا دعوی کیا تھا۔ لیکن ان کے دعووں کے برعکس حقائق یہ ہیں کہ خان صاحب اور ان کے کرپشن کنگ پیشہ ور اتحادی پرانے پاکستان کی ستر سالہ کرپشنز کے ریکارڈ صرف چار سالوں میں توڑ کر عوام کو مہنگائی کے قبرستان میں زندہ درگور کر دیا۔ اور اتنا لوٹا کہ اگلی حکومت کیلئے معیشت سنبھالنا اور مہنگائی کنٹرول کرنا ہی ایک چیلنج بن گیا۔
صد افسوس کہ ملت اسلامیہ کے کچھ لوگ لارنس آف عریبیہ کو صرف ایک سچا مسلمان ہی نہیں بلکہ اپنا حقیقی نجات دہندہ سمجھتے رہے لیکن ترک خلافت اور مسلمانوں کے اقتدار اعلی کے خاتمے کے بعد راز یہ کھلا کہ وہ بناوٹی مسلمان در اصل برطانوی فوج کا ایک عیسائی کرنل اوریہودیوں کا تربیت یافتہ جاسوس تھا۔ ماضی کے لارنس آف عریبیہ کی طرح آج میڈم ملالہ اور خان صاحب جیسے بناوٹی مسیحاؤں کی حقیقت بھی دن بہ دن کھلتی جا رہی ہے۔ تاریخ اور حقایق بتاتے رہتے ہیں کہ اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان میں لارنس آف عریبیہ جیسا کوئی نہ کوئی خطرناک مغربی کردار ضرور موجود ہوتا ہے۔
لارنس آف عریبیہ کو خلافت عثمانیہ میں بغاوت پھیلانے کی کامیاب سازش کے بدلے عالمی شہرت اور اعزاز ملے ۔ اسی صیہونی کردار کی سازش کی بدولت پہلی جنگ عظیم کے بعد تمام عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل کر آٹھہ سو سالہ خلافت کا خاتمہ ہو گیا ۔ یہی یہودی آقاؤں کی طرف سے دیا گیا کرنل لارنس آف عربیہ کا حقیقی مشن تھا۔
اس وقت بھی مسلمان کی نوجوان نسل کو شراب و شباب میں ڈبونے کیلئے عیسائی اوریہودی حسینائیں لارنس آف عریبیہ کی جاسوسی ٹیم کی فعال کارکن تھیں۔ اور آج کہیں عورت مارچ اور قحبہ خانے چلانے والی ماڈلز ملالہ جی کیلئے موم بتیاں جلاتیں ہیں اور کہیں تبدیلی اور انقلاب کے نام پر سیاسی جلسوں میں ماڈرن یوتھ کے ذریعے عریانی کو فروغ دیتی ہیں ۔ اُس وقت بھی مغرب کی ڈانسروں نے لارنس آف عریبیہ کی پذیرائی میں رقص و میوزک شو کئے تھے۔ اور آج بھی کہیں ملکہء فحاشی میڈونا جیسی ماڈلزاپنے عریاں بدن پر ملالہ جی کے ڈیزائن بنا کر ناچتی تھیں ۔ اور کہیں اسلام آباد کے چوراہوں پر ماڈرن سیاسی دھرنوں میں نیم عریاں جوانیاں تھرکتی اور ناچتی رہی ہیں۔
اُس وقت لارنس آف عریبیہ کا دجالی پلان کامیاب کرانے کیلئے دین فروش عرب اور سیکولر ترک لوگ مغربی آلہ کار بنے تھے۔ تو آج کبھی لبرل اور انٹی مذہب امریکی غلام میڈم ملالہ کو تعلیم نسواں کی علمبردار بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ اور کہیں امریکی کٹھ پتلے ، سیاسی کرپشن کنگ اور پیشہ ور لوٹے قوم کو نئے پاکستان کی فلاحی ریاست کا سبز باغ دکھا کر عمران خان صاحب کو غریبوں کا مسیحا بنا کر پیش کر تے ہیں ۔
ان تمام حقائق کے بعد میں اس پراسرار کردار کے انجام کی طرف واپس آتا ہوں۔ تا کہ آپ کوجعلی مسلمان بننے والے اُس عیسائی کرنل لارنس آف عریبیہ کے عبرت ناک انجام سے بھی آگاہی ہو۔ جسے امت مسلمہ کے سیکولر لوگ اپنی آخری شکست تک مغرب کی اس میڈم ملالہ کی طرح کا انسانیت کا حقیقی نجات دہندہ اور ہمارے خان صاحب جیسا ملک و قوم کا ایمان دار مسیحا سمجھتے رہے۔
ایک پراسرار موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ کے بعد سات دن کومہ میں رہنے کے بعد سسک سسک کر مرنے والے اس کردار کرنل لارنس کی قبر پر آج بھی ایک کتبہ عالم اسلام کے معصوم مسلمانوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میں کوئی مسلمان نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا بدترین دشمن اور قاتل برطانوی فوج کا ایک عیسائی کرنل ٹی ایس لارنس تھا ۔ اس برطانوی عیسائی کی قبر کے کتبے پرکندہ کردہ یہ الفاظ امت اسلامیہ کیلیے ایک زوردار طمانچہ اور ایک سبق آموز تحریر ہیں۔
کرنل ٹی ایس لارنس
فیلو آف سولز کالج آکسفورڈ
پیدائِش ۱۶اگست۱۸۸۸
وفات ۱۹مئی ۱۹۳۵
وہ ساعت آرہی ہے جب مردے خدا کے بیٹے یسوع کی آواز سنیں گےاور جو سنیں گے وہ چیخیں گے
اس کے ساتھ ہی کرنل لارنس کی موت کی تحقیقات کے بارے برطانوی مصنف ایڈروڈ رابنسن کی کتاب میں لکھے یہ جملے میڈم ملالہ جیسے تمام اسلام دشمن ایجنٹوں کیلئے لمحہء فکریہ ہیں۔ کہ ۔ ” تحقیقات کے دوران ایک عینی شاہد نے بتایا کہ دو سائیکل سواروں کی ٹکر سے عین قبل ایک سیاہ موٹر کارانتہائی تیز رفتاری سے کرنل لارنس کی موٹر سائیکل سے ٹکرا کرگزری جس کے باعث یہ جان لیوا حادثہ رونما ہوا” ۔
در اصل سامراجی اور مغربی بادشاہ گر اپنے ایجنٹوں اور سازشوں کے راز افشا ہونے سے پہلے ، انہیں خود ہی راستے سے ہٹا کر قصہ ء پارینہ بنا دیتے ہیں ۔
خدا جانے کہ ملالہ کو لگنے والی بندوق کی گولی اصلی تھی یا نقلی لیکن ملالہ کے آزاد خیال بیانات سے یہ ضرور ثابت ہو رہا ہے کہ ملالہ کی ہر اسلام دشمنی اصلی تھی۔ واللہ اعلم قوم کو نیے پاکستان کے خواب دکھا کر سیاسی شدت پسندی ، مہنگائی اور افلاس کے سمندر میں غرق کرنے والے عمران خان قوم کے مسیحا ہیں یا لارنس آف عریبیہ جیسا کوئی مغرب کا ڈیزائن کردہ بہروپیا کردار ہیں۔ لیکن مغرب کی طرف سے روانہ کیا گیا پراسرار موت کا پروانہ ہمیشہ اس نوبل پرائز کی طرح اصلی ہوتا ہے جو کسی مہان ننگِ اسلام شخصیت ہی کو انعام میں ملتا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ مغربی اور سامراجی قوتیں دراصل لارنس آف عریبیہ ، ملالہ یوسف زئی یا عمران خان صاحب جیسے آلہ کاروں کو ہیرو بنانے اور ان کے حق میں رائے عامہ استوار کرنے کیلئے منظم پلاننگ کرتے ہیں۔ ایک صدی پہلے مغرب اور صیہونی قوتوں کا مشترکہ ٹارگٹ خلافت عثمانیہ تھی آج مملکت خداداد پاکستان ہے۔ لیکن میڈم ملالہ اور کرپشن کیخلاف نعرہ لگا کر کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دینے والے خان صاحب یہ نہیں جانتے کہ مغربی بادشاہ گر اپنے سب استعمال شدہ آلہ کاروں کا ہولناک انجام ، راجیو گاندھی ، مجیب الرحمن اور حتٰی کہ اپنے لارنس آف عریبیہ جیسا ہی کرتے ہیں ۔
( فاروق درویش ۔واٹس ایپ ۔ 00923324061000 )
عبدالسلام قادیانی کے بارے میرا یہ مضمون بھی پڑھیں
پاکستان ڈیفنس انڈسٹری کے بارے میرا یہ مضمون بھی پڑھیں
بھارتی براس ٹیک سے ایٹمی میزائیل ، جے ایف 17 تھنڈر اور الخالد ٹینک تک