مشرق و مغرب

ماروی سرمد برانڈ ناسور اور مشرق و مغرب کا دشمن جدید تہذیب کا خنجر

ان سب ماڈرن عناصر کا منشور اور آئین ِ عریاں مردی وہی ہے ، جو مغرب کی جدید تہذیب کا حسنِ گمراہی ہے

اہل علم و فضل کہتے ہیں کہ قلندر لوگ آنے والے وقت کو صدیوں پہلے پڑھ لیتے ہیں ۔ جب حضرت اقبال نے یہ لکھا ہو گا کہ "تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی ” تو شاید بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آیا ہو گا۔ آج مغرب اور مغرب کے زیرسایہ پلنے والی تہذیبوں کی پراگندگی  دیکھیں تو یہ بات ہر خاص و عام کی سمجھ میں آ رہی ہے کہ اقبال کی وہ پیشین گوئی پوری ہو رہی ہے۔ یورپ سے لیکر امریکی گورے دیسوں تک کے گورے  لوگ خدا کے ازلی و ابدی  قوانین کو اپنی تباہی و بربادی کیلئے صدائیں دے رہے ہیں۔

بالکل ویسے ہی جیسے آگ اور پتھروں کی بارش کے خدائی عذاب کے بعد صفحہء ہستی سے مٹ جانے والی قوم لوط کے سرکش باغی، جیسے تا قیامت نشانِ عبرت بن جانے والے فرعون اور نیل میں لہروں میں غرق ہونے والے اس کے حواری۔ کون جانے کہ نظام قدرت کے باغیوں کیلئے قوانین قدرت کب حرکت میں آئیں، کون جانے کہ ان کی رسی کب تک دراز رکھی جایے گی ۔  کشتیء نوح کا ہو یا غرقابیء فرعون ، تباہی قوم لوط کی ہو یا یا قوم عاد کی ۔  یقیناً  بنی نوع ِ انسان کی تاریخ کے وہ عظیم تماشے زمانوں نے دیکھے ہوں گے۔

خدا جانے  اگلا کوئی عظیم الشان تماشہ دیکھنے کیلئے ہم زندہ   ہوں  گے  بھی  یا ہماری اگلی نسلیں  وہ تماشہء عبرت دیکھ پائیں گی۔ لیکن  پیغمبرانِ حق اور الہامی کتابوں کے ساتھ اِس قدر بڑی  جنگِ عظیم اور ارض و سماں کے خالق کو اپنے احکامات کی باغی مخلوق کی طرف سے اتنی  دجالی شدت کا چیلنج آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم و مابعد اب تک کبھی نہ کیا گیا ۔

آج ماڈرن چیلنج بھی ایسا ہے کہ فریبانہ علم کی زبان ، عیارمنطق کی دلیل اور جدید تہذیب کا ٹھیکیداری میں  حقائق مسخ  کر کوے کو سفید ثابت کرنے کی ضدی روش  عام ہے۔ زمین کے مشرق و مغرب تک قائم اسٹیج پر پورے کرہء ارض کو تھیٹر بنا کر تاریخِ انسان کا طویل ترین دجالی ڈرامہ ہو رہا ہے۔

لیکن چشم بصیرت کہتی ہے کہ خدا اور خدا کے قوانین کے باغی مغربیوں  کے سٹیج کردہ اِس طویل ترین ڈرامے کا ڈراپ سین جب بھی ہوگا وہ پہلے سب تماشوں سے کہیں عظیم الشان اک با کمال تماشہ ہوگا۔ وہ پاکباز  عین خوش قسمت ہوں گے جو اپنی زندگی میں  تاریخ بنیء نوع انسان کے وہ  عظیم واقعات دیکھیں گے جن کا رونما ہونا حق الیقین ہے۔ اس حوالے سے انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ خالقِ قدرت کو چیلنج کرنے والے ماڈرن مغربی فرعون جس بھیانک انجام اور موت کواز خود دعوت دے رہے ہیں وہ موت اب ہمارے دروازوں پربھی مسلسل دستک دے رہی ہے۔

حیران کن طور پر ایسی خبریں آتی ہیں کہ مادر پدر آزاد   فحاشی  کے فروغ کے اس پروجیکٹ کے لئے غیر ملکی این جی او نے بھاری فنڈ فراہم بھی کیا ہے۔ احباب یہ بات کسی سے پنہاں نہیں کہ صرف مغربی این جی اوز ہی نہیں ، مغربی اشاروں پر ناچنے والی ملکی این جی اوز،   میڈیا اور مغرب کے کاسہ بردار روشن خیال منکرین دین مسخرے دانشور بھی ایک عرصہ دراز سے آزادیء اظہار اور لبرل ازم کے نام پر مغرب کی پراگندا تہذیب کی غلاظت کو ہماری نوجوان نسلوں کی رگوں میں انجیکٹ کرنے کیلئے  کوشاں ہیں۔

 اگر گلوبلائزیشن کی رفتار یہی رہی تو وہ دن دور نہیں کہ ماروی سرمد جیسی بلاؤں کے ساتھ پھٹی  جینز اور نیم عریاں لباس میں مادر پدر آزاد کڑیاں منڈے آزادیء ڈیٹنگ کیلئے جلوس  اور بدفعلیوں کیخلاف آواز اٹھانے والوں کیخلاف احتجاج کرتے دکھائی دیں گے۔ یہ  حیا باختہ عورتیں اپنی مرضی سے جس کے چاہیں ،  اس کے بچے پیدا کرنے   کی مغربی تہذیب جیسی  شرمناک   آزادی  کیلئے کھلے عام آواز اٹھا  رہی ہیں لیکن ان کو روکنے کیلئے کوئی قانون  حرکت میں نہیں آتا۔ہاں لیکن ان کے حمایتی   ان کی شرمناک حرکتوں  پر تنقید کرنے پر آپ  اور آپ کے آباو اجداد  کو بدتہذیب اور دقیانوسی ہونے کے طعنے  اور  دشنام دیں گے۔ ممکن ہے کہ جدید روشن خیال  کالی  روشنی کی اس ماڈرن  تہذیب کے زہر کا آخری گھونٹ بھی زبردستی آپ کے حلق میں اتارنے کی کوشش کریں۔ اپنی اولادوں کو ان کی دسترس سے بچانے کیلئے  حفاظتی تدابیر  لازم ہیں کہ  مغربی  تہذیب کی  کالی آندھی مشرق و مغرب کے ہر ملک اور خصوصاً  اسلامی ممالک کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔

 سیکولرز اور  فاشسٹ  اپنا اپنا کام کرکے  تاریخ کے اِس فسادِ عظیم کا راستہ صاف کرنے کی "مقدس کوششیں ” کرتے رہیں گے۔ یاد رکھیں کہ روشن خیالی کے نام پر ”کالے سویرے“ کے داعی سیکولرز   میڈیا دلال جو کہتے ہیں ان  کے لہجوں میں وہ  عریاں مغرب ہی بول رہا ہے ہے جو اس زہر کے ٹیکے لیکر دھیرے دھیرے آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے ۔ اب اگرآپ اور میں اِس روشن خیال کالی آندھی کے مقابلے میں نہیں اٹھیں گے، تو یقین کیجئے کہ اب سب مادر پدر آزاد بچونگڑے اور بچونگڑیاں آپ کے مال روڈ، لبرٹی ، ڈیفنس، آب پارہ اور کلفٹن جیسی جدید آبادیوں سے ہی نہیں، سفید پوشوں کے علاقوں سے حشرات ِ دشت کی طرح بار بار باہرنکلیں گے۔

ان سب کا منشور اور آئین ِ عریاں مردی وہی ہے ، جو مغرب کی جدید تہذیب کا حسنِ گمراہی ہے۔ اِس جدید مغرب کی ذات اور پہچان کیا ہے۔ اس کے جواب میں کسی نے کیا خوب کہا ہے  کہ ” مغرب کی جدید تہذیب کا ہر فرد دن کے وقت کام کرنے کی انسانی مشین اور رات کے وقت وحشی جنسی حیوان ہے اور حیوان بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ ہر فن مولا باکمال و بے لگام ۔

 ان نام نہاد “مہذب” امریکیوں اور  مغربی لوگوں کیلئے جنسی ہوس بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے لئے بھوک میں کھانے پینے کی خواہش۔ ہمیں چلتے پھرتے بھوک لگے تو سڑک پر  ریڑھی سے نان چنے کھا لیتے ہیں۔ طلب ہو تو فٹ پاتھی ہوٹل پر ہی چائے پی لیتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھے بھوک ستائے تو چائے کے ساتھ بسکٹ بھی ایک نعمت  ہے اور اگر رات گھر والی نے کچھ پکایا نہ ہو تو بچوں کو لیکر کے ایف سی  چلے جاتے ہیں۔ رات انٹر نیٹ پر بیٹھے بھوک ستائے تو بیوی بہن یا بیٹی جو بھی جاگ رہی ہو اس سے فریج میں رکھا ہوا کھانا گرم کرنے یا کافی بنانے کی فرمائیش کر دی جاتی ہے۔ بالکل ایس طرح امریکی اور مہذب مغربی لوگوں کو چلتے پھرتے سیکس کا جنون چڑھ جائے تو فٹ پاتھ سے گوری مٹیار کو جز وقتی سہیلی بنا لیتے ہیں۔

دفتر میں  خوبصورت سیکریٹری ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ رات اپنی بیوی بوائے فرینڈ کے ہمراہ ڈیٹ پر ہو تو شہر میں قحبہ خانوں کی سہولت موجود  ہیں۔  بیوی نہ ہونے کی صورت میں کوئی محرم  یا رضامند بہن یا بیٹی سے بھی جسمانی تسکین حاصل کرنا حیوانات کی طرح  مقدس رشتوں سے بے پروا انسان نما مغربی جانوروں کیلئے جائز ہے۔   امریکہ اور مغرب میں  جنسی ہوس اور سیکس کی تعریف یہی ہے۔ کہ جہاں چاہا، جب چاہا ، جیسے چاہا ، سرِ عام یا چھپ کر ، جس کے ساتھ چاہا کھایا پیا (جنس یا رشتوں کی بھی کوئی قید نہیں) اور ٹھنڈے ٹھار اور سیر و سراب ہو گئے۔ دو دن بعد یاد ہی نہیں کہ کس رنگ رنگیلی مٹیار یا خوبرو نوجوان سے کب اور کہاں محبتوں کی پینگیں بڑھائی تھیں۔

احباب اگرہمیں مغرب سے درامدہ یا مسلط کی جانے والی اس غلاظت آلودہ "جدید تہذیب” کا راستہ روکنا ہے تو پھر ابھی سے روکنا ہو گا ورنہ یاد رکھیے کل کو مغربی نسل کی طرح نہ تو ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ہمارے کنٹرول میں ہوں گی اور نہ ہی ہم اپنی بیویوں کو امریکی بیویوں کی طرح نئے بوائے فرینڈ بنانے سے روک سکیں گے۔ میں بھی آپ کی طرح منتظر ہوں کہ مغربی تہذیب کے ہاتھوں مغرب کی موت کے حوالے سے قلندرِ مشرق حضرت اقبال کی یہ پیشین گوئی کہ "تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی ” کب پوری ہوتی ہے۔

سچ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آج مغربی ممالک اور سامراج کو عالم اسلام  سے اتنا بڑا خطرہ ہرگزنہیں جتنا اپنی ہی مادر پدر آزاد قاتل”جدید تہذیب” سے ہے۔۔ اور اس زہریلی تہذیب کو اپنانے والے مشرقیوں کی مثال کسی کا مونہہ لال دیکھ کر خود کو طمانچے مار کر مونہہ لال کرنے والے جاہلوں جیسی ہے۔ مغربی گود میں بیٹھے قادیانی کلٹ اور  ماروی سرمد  برانڈ  دیسی لبرلز کا پسندیدہ کلچر  یہی تو ہے۔۔ سو انجام ۔ ۔وہ تو آپ سمجھ  ہی  گئے ہوں گے ۔ ۔ 

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرکم عیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پایئدار ہو گا

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ

( فاروق درویش ۔۔ واٹس ایپ۔۔ 00923224061000 )


پاک افغان سرحدی صورت حال پر میرا یہ کالم بھی پڑھیں

امریکی فوج کی واپسی پر افغان بھارت گٹھ جوڑ کی دہشت گردی

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

3 Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button