![moulana azad and secular indian society](/wp-content/uploads/2024/02/moulana-azad-and-secular-indian-society.jpg)
بالی وڈ کی سیکولر اداکارائیں اور مولانا فضل الرحمن کے پرستار
گذشتہ دس سالوں میں جمیت علمائے اسلام کا مسلسل گرتا ہوا ووٹ بینک اور رو بہ زوال پارلیمانی طاقت میرے اس اصولی موقف کی عین تائید کرتے ہیں۔
ماضی کی نامور اداکارہ ملکہ ء حسن وحیدہ رحمان کے والدین کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور راسخ العقیدہ مسلمان گھرانے سے تھا. لیکن افسوس کہ وہ قرآنی احکامات الہی کے برخلاف ہندوتوا کے اٹوٹ حلیف اور تا دم مرگ سیکولر نظام حکومت کا حصہ بننے والے مولانا ابو الکلام آزاد کے بھارت دیش کے آزاد خیال سیکولر نظریات کی رو میں بہہ کر بھٹک گئی۔ اس نے ایک کامیاب اداکارہ بننے کے جنون میں ہندوستان کے آزاد خیال سیکولر معاشرے کا رنگ اپنایا تو ساری مذہبی اقدارو روایات کو یکسر پس پشت چھوڑ دیا۔ وحیدہ نے اپنے والدین اور مذہب سے بغاوت کر کے اپنی زندگی میں سیکولر انقلاب برپا کیا تو کئی نامور ہندو اور مسلمان اداکار اور فلمساز و ہدایتکار اس کے حسن کی آتش میں جل کر راکھ اور تہ ِ خاک ہو گئے. اسے لانچ کرنے والے نامور اداکار اور فلم ساز گرودت جیسوں نے اس کی قربت کی آرزو میں اس بیوفا جوانی سے دل برداشتہ ہو کر موت کو گلے لگا لیا ۔
لیکن ان تمام معاملات سے بے نیاز وہ جادوئی حسن رکھنے والی حسینہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کیلئے گرودت ، دیوآنند ، راج کپور اور دلیپ کمار جیسی ہندو اور مسلمان ہستیوں کے بیڈ روموں کی زینت بننے سے بھی گریزاں نہ ہوئی. اور پھرجب کئی فلمی دیوتاؤں کو اپنے عشق کے تندور میں جلا کر فلمی کیریئر کے عروج پر پہنچی تو اس نے سیکولرازم کی پیروی اوراپنے بہتر مالی مستقبل کیلئے تمام مذہبی اور اخلاقی حدود کو عبور کر کے ایک ہندو رئیس زادے سے شادی کر کے خود کو ہندو مسلم اخوت کی عظیم داسی قرار دے دیا۔ افسوس کہ آج لاکھوں گمراہ بھارتی مسلمانوں کی طرح وحیدہ رحمان کے بیٹے اور بیٹیاں کٹر ہندو ہیں اور اگلی ہندو نسلیں پیدا کر رہے ہیں
احباب گرامی آج بھی حضرت اقبال کا دیا ہوا دو قومی نظریہ اور وقت کے بہتے ہوئے دھارے کے احوال یہ سچائی ثابت کر رہے ہیں کہ قیام پاکستان کی مخالفت میں ہندوتوا کا دیا گیا سیکولرنظام کا طعوق گلے میں ڈالنے والے مولانا آزاد جیسے مسلمان سیاست دان ہندوستان کے مسلم معاشرے میں سیکولرازم کی آمیزش یا وحیدہ رحمان سے لیکر آج کے دور کی مسلمان فلمی شخصیتوں کی لا دینی روش کے ذمہ دار ہیں۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر گاندھی جی کی پیوکار اور بھارتی سیکولر حکومت میں وفاقی وزیر بننے والے مولانا آزاد اور دیگرکانگریسی حلیف علمائے دیوبند کی طرف سے ہندو مسلم بھائی چارے کے فروغ کی تحریک سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہونے والی ناموراداکاراؤں مدہوبالا ، نرگس اور گلوکارہ شمشاد بیگم جیسی کئی مسلم خواتین نے سیکولرنظام کی آزاد خیال رنگینیوں میں ہندوؤں سے شادیاں رچا کر اسلام کی بنیادی تعلیمات سے کھلی بغاوت کی روش اپنائی۔
اور بدقسمتی سے یہ قابل مذمت سلسلہ ، فلمی دنیا سے لیکر بھارت کے طول و عرض تک مولانا آزاد کا سیکولر نظریہ زندہ باد کے نعرے کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ افسوس کہ آج بھی بھارتی مسلمان اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ہندوؤں سے بیاہتے ہوئے بڑے فخر کے ساتھ مولانا آزاد کے ہندوتوا کے ساتھ وفادار تعلقات کا ذکرکرتے نظر آتے ہیں
احباب یہ محض ایک اتفاق نہیں بلکہ ہفت افلاک کی قدرت کی طرف سے عبرت انگیز سزا بھی تھی کہ یہ خواتین ایک عرصہ تک بستر مرگ پر تڑپ تڑپ کر اذیت ناک زندگی گزارنے کے بعد انتہائی دردناک کیفیت میں اموات کا شکار ہوئیں۔ اپنے مذہب سے بغاوت کرنے والی یہ تینوں خواتین کینسر اور دیگر لا علاج امراض کی ہولناک تکالیف میں اپنے اگلے جہاں روانہ ہوئیں۔ بلاشبہ مولانا آزاد نے کبھی کسی مسلمان مرد و زن کو کسی ہندو سے شادی رچانے کی ترغیب نہیں دی تھی ۔ لیکن قرآن کی تفسیر لکھنے والے عالم دین مولانا آزاد نے اپنے کانگریسی دور حکومت میں مسلمان خواتین کی طرف سے اسلام سے کھلی بغاوت کے وقت نہی عن المنکر کے تحت ان کی اصلاح کی کوئی واجبی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ ہاں ان کے دور حکومت میں سیکولرازم کی عملی علمبرداربننے والی نرگس، مدہوبالا اور شمشاد بیگم جیسی ان مسلمان اداکاراؤں کو بھارت کے اعلی ترین فلمی ایوارڈز سے ضرور نوازا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ آج سلمان خان، شاہ رخ خان، نصیر الدین شاہ، سیف علی خان، شرمیلا ٹیگور، سوہا علی خان اور فرح دیبا جیسی مسلم فلمی شخصیات گھروں میں مندر بنانے اور ہندوؤں سے شادیوں کو مولانا آزاد کے ہندو مسلم بھائی چارے کے فلسفے کی جیت اور معاشرتی اخوت کا پیغام قرار دیکر سیکولرازم کے لادینی نظام پر فخر کرتے ہیں۔ ان برائے نام مسلمانوں کی بیٹیوں کیلیئے ہندوؤں سے شادیوں اوراپنی اگلی نسلوں کو ہندو بنانے میں کوئی عار نہیں ہے۔ آج عامر خان جیسا مسلمان اداکار اپنی بیٹی کو ایک ہندو سے بیاہتے ہوئے بڑے فخر سے اپنا تعارف مولانا آزاد کے نواسے کے طور پر کرواتا ہے اور اس سیکولر شادی کو ہندوستان کے سیکولر نظام کی پاسداری قرار دیتا ہے۔ عامر خان کے اعلانیہ بیان کے مطابق وہ مولانا آزاد کا نواسا ہو یا نہ ہو، اس کا تعلق مولانا آزاد کے خاندان سے ہو یا نہ ہو۔
لیکن عامر خان کے اس بیان سے ایک حقیقت ضرور واضع ہوتی ہے کہ بھارتی مسلمان مولانا آزاد جیسوں کے سیکولر افکار سے متاثر ہو کر اپنے دین سے بغاوت پر بھی آمادہ ہیں۔ اور یہ تمام حقائق آج بھی یہ واضع اور واضح اعلان کرتے ہیں کہ اقبال کا دو قومی نظریہ کل بھی سچا تھا اورآج بھی حق نمائی کی آواز ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہندوؤں سے بہنیں اور بیٹیاں بیاہنے والے نام نہاد مسلمانوں کا محبوب سیکولر لیڈر مولانا آزاد آج مولانا فضل الرحمن کے دین دار پیروکاروں کا بھی محبوب راہنما ہے۔
پاکستانی سیاسی معاشرت میں جمیعت العلمائے اسلام کا کردارہمیشہ مثبت اور مثالی رہا ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آئینی جدوجہد سے لیکر دینی نظریات سے متصادم عوامل کیخلاف ہر سیاسی مزاحمت اور آئینی جدوجہد تک مولانا مفتی محمود اور ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کی سیاسی اور دینی خدمات سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ صد آفرین کہ مولانا فضل الرحمن نے نہ تو نظریہء پاکستان کی مخالفت میں کبھی کوئی بیان دیا، نہ کبھی قائد اعظم یا علامہ اقبال کے کرداروں پر کوئی تنقید کی اور نہ ہی کبھی مولانا آزاد یا دیگر کانگریسی علماء کے قیام پاکستان کی مخالفت کے موقف کی ترجمانی کی ہے۔ لیکن افسوس ناک امر ہے کہ ان کی جماعت کے فعال سیاسی ورکرز آج بھی مولانا آزاد ، دیگر کانگریسی علماء اور ایک کٹر بھارت نواز سرحدی گاندھی باچا خان کی تقلید میں نظریہ و قیام پاکستان ، قائد اعظم اور علامہ اقبال کیخلاف کھلی ہرزہ سرائی کرتے نظرآتے ہیں۔ پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کی بربادی کے بارے مولانا آزاد سے منسوب پیشین گوئیوں کی تشہیر ، نظریہء پاکستان کی بجائے اکھنڈ بھارت کے نظریہ کی وکالت اور قائد و اقبال کے مداحین سے قیام پاکستان کیخلاف جارحانہ بحثیں معمول ہے۔
یہ ایک الگ موضوع ہے کہ پاکستان کے ٹوٹنے کے بارے مولانا آزاد سے پہلے ایک عظیم مفکرعلامہ عنایت اللہ مشرقی اور چند احراری راہنماؤں کی ان جیسی کئی پیشین گوئیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد سید عطا اللہ شاہ بخاری اور احرار رہنماؤں نے صدق دل سے لا الہ الا اللہ کے نام پر بننے والی اسلامی ممککت پاکستان کو قبول کیا اور تا دم مرگ ملک و قوم اور ملت سے وفا کے پاسدار رہے۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مولانا آزاد نے واضع قرانی احکامات کیخلاف ہندوتوا کا اٹوٹ حلیف اور سیکولرازم کے لادینی نظام کا عملی حصہ بننا قبول کیا۔ جبکہ تمام مسالک دین کے مطابق قرانی احکامات الہی کے برخلاف کسی بھی قول و فعل کی اسلامی شریعت و نظریات میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرانی احکامات الہی سے استشنی اگر بعد از انبیاء ہستیوں صحابہ کرام یا پاک اہل بیت رضوان اللہ کو بھی حاصل نہیں تو کسی مسلمان کیلئے مولانا آزاد کی ہندوتوا کی حلیفی یا ان کے سیکولر قول و فعل کا دفاع یا وکالت بھی عذاب الہی کو للکارنے کے مترادف ہے۔
مولانا آزاد جیسے کانگریسی علماء کی طرف سے قیام پاکستان کی مخالفت جیسے نظریات کی تشہیر کے حوالے سے حقائق یہی ہیں کہ جماعتی ورکرز کی انٹی نظریہ ء پاکستان اور قائد و اقبال مخالف مباحثوں کا نتیجہ اور ناقابل تلافی نقصان ان کی جماعت کی مسلسل گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کی صورت میں برامد ہو رہا ہے۔
جماعت کے جذباتی کارکنوں کی ضدی روش کے باعث ایک دینی سیاسی جماعت کے پرو پاکستان ہونے پر جو سوالیہ نشان ابھر رہا ہے، وہ اس جماعت کی حامی رائے عامہ کو تیزی سے متاثر کر رہا ہے۔
کچھ سیاسی مبصرین مولانا فضل الرحمن کی اقربا پرو رپالیسی پر کڑی تنقید کرتے اور اسے پارٹی میں اندرونی اختلافات اور سیاسی زوال کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی مقبولیت میں کمی کے حوالے سے میرا واضع موقف اسلام کے بنیادی نظریات اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ سے جڑی قیام پاکستان کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ یاد رہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو کسی بھی فرد کی طرف سے احکامات الہی کیخلاف کسی بھی قول و فعل کی مذمت آپ کا دینی فرض ہے۔ آپ پاکستانی ہیں تو نظریہ ء پاکستان سے محبت آپ کی حب الوطنی کی دلیل جبکہ پونی صدی گزر جانے کے بعد ابھی تک قیام پاکستان کیخلاف مولانا آزاد برانڈ نظریات اور اکھنڈ بھارت کا فکری پرچار قومی و ملی بغاوت کا آئینہ دار ہو گا۔ وہ دینی نظریات کی علمبردار سیاسی جماعتیں ہو ں یا کوئی بائیں بازو کی سوشلسٹ نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت ہو، قیام پاکستان اور بانیان ِ پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی پاکستانی عوام کی اکثریت کو ہرگز قبول نہیں ۔ اور گذشتہ دس سالوں میں جمیت علمائے اسلام کا مسلسل گرتا ہوا ووٹ بینک اور رو بہ زوال پارلیمانی طاقت میرے اس اصولی موقف کی عین تائید کرتے ہیں۔
(فاروق درویش)
پاکستان ڈیفنس کے بارے میرا یہ مضمون بھی پڑھیں
پاکستان ائرفورس کا ایٹمی میزائیلوں سے لیس اگلا طیارہ ففتھ جنریشن ملٹی رول سٹیلتھ فائٹر جے- 31