تاریخِ ہند و پاکستانحالات حاضرہریاست اور سیاست

قوم کا اگلا ممکنہ لندن بوائے حکمران بلاول زرداری

 ان کی والدہ مرحومہ کا مقدس جنازہ ان کے والد کیش کروا چکے ہیں اور سیاسی جنازے بار بار کیش نہیں ہوتے

پی پی پلے بوائے گروپ کے جیالے جوان بلاول بھٹو زرداری سیاست کے میدان میں ابھی نا بالغ ہیں ۔ ان کی سیاسی تربیت کرنے والوں کو ابھی بڑی محنت درکار ہے۔ آدابِ سیاست اور  زبان و بیاں سے  مکمل نا آشنا بلاول  کوئی پریس کانفرنس کریں یا لائیو ٹی وی شو میں جلوہ گر ہوں ، ہمیشہ طفلانہ حماقتیں اور سوشل میڈیا پر گھومنے والے ویڈیو لطیفے چھوڑ جاتے ہیں۔  وہ دیوالی پر ہندو برادری کو مبارکباد دینے کیلئے پوجا پاٹ میں شرکت کا جو انداز اپناتے ہیں وہ کسی  مولوی صاحب کے فتوی کے مطابق نہیں بلکہ  قرآن  حکیم کی رو سے عین کفر ہوتا ہے۔ ہندو برادری کو مبارکباد دینا ، بلاشبہ  بین المذاہب رواداری ہے لیکن پوجاپاٹ میں شرکت بحر حال تمام مسالکِ دین کے نزدیک مشرکانہ ہے۔

یاد رہے کہ انہوں نے پچھلے برسوں کرسمس  کے موقع پر مسیحی برادری کو مبارکباد کا پیغام دیتے ہوئے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں   ایک عیسائی وزیر اعظم دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ حیرت ہے کہ موروثی اقتدار کی قیدی جس پی پی پی میں اس خاندان کے باہر سے کبھی کوئی پارٹی چیئرمین نہیں بن سکتا ، اسی موروثی پارٹی کا  چیئرمین پاکستان کی عیسائی اقلیت یا خاکم بدہن شاید اب کوئی یورپ سے امپورٹڈ وزیر اعظم چاہتا ہے۔

بلاول کے بیانات دراصل گذشتہ برسوں سے خالص سیکولر اور اعلانیہ ” صلیبی غلام ” پالیسی  والے زرداری گروپ کی حکمت عملی  ہی  کا  تسلسل  ہے۔  وہ اپنے کرپشن کنگ  گروہ  کو شہیدوں اور بہادروں کی جماعت قرار دیتے ہوئے مقتول سلمان تاثیر اور انجہانی شہباز بھٹی کا ذکر کرتے ہیں۔ تو جہاں ان کی دیسی ولائتی محبوباؤں کا دل دھڑکتا ہے،  وہاں اہل نظر کو اندازہ  ہے  کہ الیکشن میں بری طرح سے پٹے ہوئے جیالوں نے اقتدار کے حصول کیلئے عوام کی بجائے صلیبی بادشاہ گروں اور سیکولرز کو خوش رکھنے کی پالیسی اپنا لی ہے۔

یاد رہے کہ بلاول نے کہا  تھا کہ حضرت عیسٰی کے چاہنے والوں کیلیے پارٹی کے لوگوں نے اپنی جانیں تو دے دیں لیکن ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی۔  طویل عرصہ لندن کی گوری مٹیاروں کے ساتھ رہ کر شاید وہ یہ بھول گیے تھے کہ وہ جس ہجوم سے مخاطب ہیں وہ نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور چاہنے والے ہیں۔ اور ان مسلمانوں کے ایمان کا جزوء اول عشق مصطفے اور خاصہء دین آدم علیہ السلام سے لیکر عیسی علیہ السلام تک تمام سچے نبیوں پر ایمان اور توقیر و تکریم  ہے۔

لندن  میں  نان حلال  پکوان کھا کھا کر وہ اپنے گستاخ اسلام صلیبی دوستوں کی زبان تو سیکھ گئے لیکن آج تک یہ نہیں جان پائے کہ اسی انگلستان کے قانون میں بھی توہینِ مسیح کی سزا عمر قید رہی ہے۔ لیکن گوروں اور ان کے غلاموں کو توہین رسالت کی شرعی سزاؤں پر شدید تکلیف  ہے۔ بلاول کو یاد رہے  کہ ان کی والدہ  اور سلمان تاثیر اسی صلیبی  فرمانبرداری کی قیمت جانیں دے چکے ہیں۔  انہیں محتاط رہنا چاہئے کہ اس آگ میں کود کر اگر وہ بھی  خامخواہ میں "شہید” بن گئے تو بھٹو خاندان کے اقتدار کی امیدوں کا چراغ ہمیشہ کیلئے گل ہو جائے گا۔ 

 ماضی میں انہیں سابقہ وفاقی وزیر  حنا ربانی کھر   صاحبہ کی طرف سے  بھیجے گئے عید کارڈ پر لکھی اضطرابی تحریر کے الفاظ ”ہم نے بہت انتظار کر لیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے انتظار کو ختم کریں”۔  سیاست کیلئے سامراجی آشیرباد  سے  برہمن لابی تک کی ہر خواہش پوری کرنے کیلئے تیار خوش رنگ حنا صاحبہ نے یہ جملہ پاکستان کے مستقبل کے ممکنہ وزیر اعظم بلاول کے قریب تر ہونے کیلئے ہی کہا تھا۔ بلاول صاحب کو خیال رکھنا چاہیے کہ سیاست میں آگے سے آگے بڑھنے کے نظریے پر رواں دواں حنا ربانی کھر جیسی کئی اور بے چین روحیں آج بھی ان کی ملکہ عالیہ بننے کے خواب دیکھ رہی ہوں گی۔

بلاول زرداری  کہتے ہیں کہ ہے ان کی پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں کارکنوں کی جانیں بچانے کیلیے سو سیٹیں قربان کر دیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ  سیاست دان ہمیشہ ہی اپنے کارکنوں کے جنازوں کی سیڑھیوں پرایوان اقتدار تک پہنچنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔  وہ  پیپلز پارٹی کو بہادروں اور شہیدوں کی پارٹی قرار تو دیتے ہیں لیکن ماں کی طرح "شہید ” ہونے کے ڈر سے ایک مدت لندن کی گوری آغوشوں اور کروڑوں ڈالرز کے سیکورٹی پیکج کے خول میں رہنے کی وجہ نہیں بتاتے۔ 

 ماں کے خون سے غداری کرنے والے بہادر سپوت اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اپنی مقتول والدہ کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے اپنی جیالی حکومت کی حسن کارکاردگی کا بھی کوئی ذکر نہیں کرتے۔ لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ کراچی اب بھی برطانوی کالونی ہے۔انہیں یاد دلایا جائے کہ کراچی کو برطانوی کالونی بنانے والے دس برس انہیں کے والد کے حلیف رہے ہیں۔ بلاول اپنے سیکولر زبان و انداز میں مذہبی ٹھیکداروں کے خلاف جہاد کا اعلان کے ساتھ  یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کی پارٹی اپنی پانچ سالہ حکومت میں دہشت گردی کو ختم نہیں کر سکی۔

لیکن ان کے مطابق  ان کی جماعت نے دہشت گردوں کا سینہ تان کر ان کا مقابلہ کیا۔  بہادر بلاول  نے لندن کے پلے بوائے ہاؤس میں انگنت گوری دوستوں کے سامنے سینہ تانا  یا بھوک اور افلاس سے مرتے ہوئے ہاریوں کے قبرستان تھر میں برپا میوزیکل فیسٹیول میں جیالی رقاصاؤں کے سامنے رقصاں ہوئے ؟ لیکن  ان میں اتنی جرات کبھی نہیں ہوئی کہ وہ وزیرستان کے کسی دوراہے پر کھڑا ہو کر اپنے ماں کے فرضی قاتلوں سے سرگوشی میں بھی بات کر سکتے۔

تاریخ گواہ ہے کہ بلاول جیسے ہزاروں بہادر ، محمد شاہ رنگیلا کی اس فوج میں بھی موجود تھے۔ جنہوں نے نادر شاہ درانی کے محل میں داخل ہونے پر ” اللہ ان کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں” اور ” اللہ ان کی تلواریں توٹ جائیں” کے بہادرانہ طریق سے مقابلہ کیا تھا۔ بلاول اپنی سیاست کا آغاز والدہ پر کارساز حملے کی سالگرہ پر کریں یا ان کی نام نہاد شہادت کی برسی پر،  وہ مقدس جنازہ ان کے والد کیش کروا چکے ہیں اور یہاں سیاسی جنازے بار بار کیش نہیں ہوتے۔

 یہ امریکی و مغربی جادوگروں کے جادو کا ہی کمال ہے کہ اس وقت پاکستان میں روشن خیال اور اسلامی نظریات کا عیاں ٹکراؤ ہے۔ اس سے ملک میں انارکی اور بیرون سے در آمد دہشت گردی پھیلی ہے۔ مگر مغربی غلام میڈیا اور سیکولرز کی جان توڑ کوششوں کے باوجود ملالہ برانڈ  ڈرامے عملی فلاپ ہو رہے ہیں۔  پے در پے ٹھوکریں کھانے والی خوابیدہ قوم میں اب ملی اور قومی غیرت بیدار ہو رہی ہے۔ اب ہماری نئی نسل بھی مغرب اور ہندوآتہ کی اس نظریاتی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے جس کا منجن بیچنے اب بلاول صاحب بھی آن ٹپکتے ہیں۔

یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی پارٹی دور حکومت کی جو کارکردگی  انتہائی ناقص اور قاتل مفلس رہی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرے لگانے والے بہروپیوں سے مفلس عوام کو ریلیف تو نہیں ملا البتہ ان جیالوں کے اندھا دھند لوٹ مار پروگراموں کے باعث مہنگائی ناقبل برداشت حد تک بڑھی اور قومی اداروں میں لوٹ کھسوٹ سے بیروزگاری میں خطرناک اضافہ ہوا۔ 

مستقبل میں بلاول کا جو بھی سیاسی کردار ہو لیکن پی پی کی  ناقص ترین کارکردگی سے عوام اتنی متنفر ہو چکی ہے کہ اب والدہ کی یاد میں مصنوئی آنسو بہانے والے بہادر بلاول کو سیاسی میدان میں لانے سے پی پی کو کوئی غیبی مدد ملنے کا چانس کم ہی ہے۔ لیکن زرداری مافیہ کے پاس پھر سے اقتدار حاصل کرنے کا ایک طریقہ ضرور بچا ہے۔ وہ یہ کہ بینظیر کی طرح اب بہادر بلاول زرداری بھٹو کو ” سیاسی شہید” بنا کر آصفہ زرداری بھٹو کو وزیر اعظم پاکستان بنوایا جائے۔ اور پھر سے وہی پرانا کھیل شروع ہو جائے جو جیالوں کے ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے یعنی ” جئے بھٹو، رج کے لٹو”۔

لیکن ذرا سوچیے کہ پھر بلاول بھٹو زرداری کی خوش رنگ حنا  جیسی بے چین روحوں کا کیا ہو گا۔ جی ہاں وہی جو پاکستانی سیاست دانوں کے حسن پرست معاشرے کا حسن ہے۔ کہ نہ تو یہاں اقتدار کی دوڑ میں شریک سیاسی گھرانوں میں بلاول سے بڑھ کر خوبرو اور وجیہہ القامت دل پھینک مردوں کی کمی ہے اور نہ ہی سیاسی وابستگیاں بدلنے کے حوالے سے کسی سیاسی مرد و زن میں کوئی غیرت باقی ہے۔ اور  مندروں میں پوجا پاٹ کرنے والوں میں  قومی  غیرت نہیں تو ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے مر مٹنے کی  تڑپ  یا مذہبی غیرت کہاں ہو گی؟

  فریبِ دہر ہے قاتل کی مرثیہ خوانی  :  بنے مزارِ صنم قصرِ اقتدار چلے۔۔۔۔۔

       فاروق درویش ۔۔ 


پاکستان ڈیفنس پر میرا یہ کالم بھی پڑھیں

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button