
حالات حاضرہریاست اور سیاست
Trending
افضل ندیم ڈوگر کی طیارہ حادثہ رپورٹ میں حقائق اور سوالات – فاروق درویش
کیا کرپشن پرور مافیوں کا نظام اپنے بغل بچہ ذمہ داران کیخلاف کڑی کاروائی اور سزا ہونے دے گا؟
Share this
جنگ اینڈ جیو گروپ کے سینئر صحافی افضل ندیم ڈوگر صاحب کا شمار ملک کے ان چند گنے چنے صحافیوں میں ہوتا ہے جو کسی بھی دباؤ سے بے نیاز حقائق و واقعات کی حق نمائی کرتے ہیں۔ کراچی کے نزدیک مسافر طیارے کی افسوس ناک تباہی پر ان کی رپورٹ پی آئی اے کے بدقسمت طیارے کی تباہی کا حال ہی نہیں در اصل پی آئی اے کی مبینہ زبوں حالی کی وجوہات اور اس دارے کے پورے نظام کے ناقابل اعتماد و اعتبار ہونے کے پس پردہ کرپشن اور ہولناک مجرمانہ غفلتوں کی کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اہم سوالات بھی اٹھا رہی ہے۔
افضل ندیم ڈوگر صاحب کی رپورٹ کے مطابق طیارے کے کریش کے 19 منٹ قبل کراچی ائیرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرنے کی کوشش کی مگر ایمرجنسی لینڈنگ کے ضروری انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے طیارے کو ٹیک آف کرالی گئی۔ ائیرپورٹ ذرائع کے مطابق پائلٹ نے لاہور سے کراچی پہنچ کر لینڈنگ کیلئے اپروچ لینے کے دوران طیارے کے پہیئے کھولنا چاہے مگر ناکام رہا جس پر پائیلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
۔
قارین کرام یاد رہے کہ پوری دنیا حتٰی کہ چھوٹے سے چھوٹے افریقی ممالک کے ننھے منے ائر پورٹس پر بھی ہنگامی کریش لینڈنگ کے فوری انتظامات کیلیے صرف تین سے پانچ منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ مگر ایک ایٹمی طاقت پاکستان کے کرپشن کنگ سیاہ کار سیاسی نظام کے زیر سایہ زوال کی آخری نہج تک پہنچنے والی قومی ائر لائن کا سسٹم اور براہ راست حکومت کے زیر کنٹرول ہوائی اڈوں کی خوفناک صورت حال کا یہ عالم ہے کہ اس بدقسمت طیارے کا جواں مرد پائیلٹ بیس منٹس تک ہوائی اڈے کے ارد گرد چکر لگا کر ہنگامی لینڈنگ کے انتظامات کا انتظار کرتے کرتے بالاخر سو کے قریب مسافروں سمیت اللہ کے حضور پہنچ گیا مگر ائر پورٹ انتظامیہ کی ناقابل معافی مجرمانہ غفلت اور حکومتی نا اہلی کا بھیانک چہرہ پوری دنیا کے سامنے اجاگر کر گیا۔
رپورٹ کے مطابق جہاز کے پہیئے کھولنے کے لیے کپتان نے آخری حربے کے طور پر سسٹم کو پمپ کیا تو جہاز کے پہیئے کھل گئے مگر اس وقت تک جہاز کا ایک انجن فیل ہوچکا تھا۔ پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول کو اس دوسری ہنگامی صورتحال سے بھی آگاہ کیا اور طیارے کو ہر ممکن مہارت سے ایئرپورٹ تک لے جانے کی کوشش کی مگر اس دوران جہاز کا دوسرا انجن فیل ہوا تو طیارہ خوفناک حادثے کا شکار ہوگیا۔ ایک اور ذریعے کے مطابق دوپہر دو بج کر 20 منٹ پر پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کی ہدایت کے مطابق طیارے کے پہیئے کھلے بغیر اور کسی ہنگامی انتظامات نہ ہوتے ہوئے ایمرجنسی لینڈنگ کیلئے رن وے کو ٹچ کیا تھا اور
کافی چنگاریاں اٹھنے پر پائلٹ دوبارہ ٹیک آف کرگیا۔
قارئین کرام مختلف مصدقہ ذرائع کی انفارمیشز پر مبنی اس رپورٹ کو سامنے رکھیں تو یہ ہمارے ایک قومی ادارے پی آئی اے کی زبوں حالی یا اندرونی نظام کرپشن کا گورکھ دھندا ہی نہیں بلکہ اس جیسے اہم اداروں پر قابض ان قومی مجرموں کے بھیانک چہروں کا احوال عریاں کر رہی ہے۔ جو سیاسی پارٹی پروری یا اقربا پروری کی بنیاد پر اپنے زیر شفقت نا اہل ملازمین اور کرپشن در کرپشن میں ملوث اعلی افسران کے نیٹ ورک بناتے ہیں ۔ تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ایسے کرپشن نیٹ ورکس سے جڑے ہوئے لوگوں کی منظم کرپشن کا گھناؤنا دھندا ” مال کماؤ اور صاحب کا حصہ پہنچاؤ ” کے اصولوں پر زندہ و پائیندہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی ایوی ایشن قوانین کے مطابق ہنگامی کریش لینڈنگ کیلئے تین سے پانچ منٹس کا وقت درکار ہوتا ہے، تو پوری دنیا کی سیر و تفریح کیلئے مفت سفر کرنے والے کراچی ائر پورٹ کے اعلی حکام اس طیارے کے پائیلٹ کے بیس منٹ تک انتظار کرنے کے باوجود بھی طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کے انتظامات کیوں نہ کر سکے؟ یاد رہے کہ طیاروں کی ہنگامی کریش لینڈنگ کیلئے درکار فوری طور پر بچھایا جانا والا فوم کارپٹ سسٹم ہر ائر پورٹ کا لازمی فوری دستیاب حصہ ہوتا ہے۔ اور اس فوم کارپٹ سسٹم کو رن وے پر بچھانے کیلئے متعلقہ عملے کو نا صرف جدید تربیت اور ریفریشر کورسز کروائے جاتے ہیں ۔ بلکہ سال میں کئی مرتبہ اس کی ورکنگ کنڈیشن کا چیک اپ اور عملی مشقیں بھی کی جاتی ہیں۔
[the_ad id=”15042″]
ہنگامی کریش لینڈنگ کے اس اہم سسٹم کے بارے تمام رپورٹس اور سسٹم کے مکمل فعال اور اپ ڈیٹ ہونے کا سرٹیفیکیٹ سول ایوی ایشن کے قومی اور عالمی اداروں کو دیا جاتا ہے۔ تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ یہ سسٹم عین ضرورت کے وقت دستیاب کیوں نہیں تھا؟ اور اگر بروقت ہنگامی کریش لینڈنگ کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ اس سسٹم کی عدم دستیابی یا کوئی اور تکنیکی خرابی تھی تو پھر اس حساس ذمہ داری میں مجرمانہ غفلت کرنے والوں یا ذمہ داران کو کراچی ائرپورٹ کے سامنے پھانسی پر کیوں نہیں لٹکایا جائے؟ ائرپورٹ کے جو اعلی حکام سو انسانوں کو موت کے دہانے پر دیکھ کر بھی ان کی زندگیاں بچانے کیلئے متحرک و کوشاں نہیں ہوئے کیا وہ کسی رحم اور معافی کے لائق ہیں؟
میں سیاسی اور اداراتی نظام میں اس دائمی مجرمانہ روش کا احوال بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جس سے آپ کو پی آئی اے جیسے تمام قومی اداروں کی زبوں حالی کی اصل وجہ بخوبی سمجھ میں آ جائے گی۔ پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم کے ایک سابق کپتان اور وزیر اعظم عمران خان صاحب کے قریبی دوست وسیم باری پی آئی اے کے ملازم رہے ہیں۔ بے نظیر صاحبہ کے دور حکومت میں وہ پی آئی اے میں ایک اعلی مالی عہدے پر فائز تھے، اس دوران ان پر ادارے کیلئے قیمتی سامان کی خریداری میں مالی کرپشن کے سنگین الزامات عائد کئے گئے۔
لیکن ابھی عدالتوں میں ان کیخلاف مقدمات چل رہے تھے کہ موصوف کو پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک اعلی مالی عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ مگر کسی عدالت نے ان کی اس غیر قانونی تقرری پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اور پھر حکمرانوں تک براہ راست رسائی کی بدولت خوش قسمتی کی دیوی ان پر اس قدر مہربان ہوئی کہ وہ دوبارہ اسی پی آئی اے میں پہلے سے بڑے اعلی مالیاتی عہدے پر براجمان ہو کر پھر سے کرپشن کے دھندے میں مصروف ہو گئے۔
[the_ad id=”15042″]
طیارے کے اس افسوس ناک حادثہ میں بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود سمیت دو افراد کا زندہ بچ جانا قدرت کا معجزہ ہے۔ ظفر مسعود صاحب نے یقینی طور پر زندگی میں کوئی بڑی نیکی کی ہو گی یا ابھی اللہ نے ان سے کوئی بڑا کام لینا ہے۔ خدا کی قدرت کے فیصلوں میں بڑے گہرے اسباق ہوتے ہیں کہ ایک ائر ہوسٹس مدیحہ ارم کو عین قت پر ڈیوٹی نہ دی گئی اور وہ زندہ و سلامت ہیں، جبکہ ایک دوسری ائر ہوسٹس انعم مسعود شہید کو اس فلائیٹ پر ڈیوٹی نہ ہوتے بھی موت کا فرشہ ڈیوٹی پر لے گیا ۔ شہید ہونے والے تمام مسافروں کی مغفرت اور ان کے لواحقین اور پیاروں کیلئے صبر جمیل کی خصوصی دعائیں ہیں۔
اعلی اداروں سے اپیل ہے کہ حادثے کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور اس میں مجرمانہ غلفت برتنے والوں کو جیل نہیں بلکہ سرعام کراچی ائرپورٹ کے عین سامنے پھانسی کے پھندے پرلٹکایا جائے۔ پی آئی اے جیسے قومی اداروں میں سنہرے دور واپس لانے کیلئے ایسے سانحوں کے بعد انصاف کو سالوں کی تحقیقات کے تاخیری حربوں سے نجات دلوانا اور سیاسی کرپشن مافیوں کے آلہ کار ایسے قومی مجرموں کو کڑی سے کڑی سزائیں دینا اب اشد ضروری نہیں ۔ قومی مقتدرین پر عین فرض ہے ۔
لیکن کیا نا اہل و کرپٹ افسروں کے سرپرست حکمرانوں اور کرپشن کنگ مافیوں کا زور آور طبقہ اپنے بغل بچہ نا اہل اور بد دیانت گروہ کیخلاف کوئی کاروائی ہونے دے گا؟
فاروق درویش