فغاں نا رسیدہ بیاں آبدیدہ ۔ فاروق درویش
لٹے قافلوں کے مسافر گزیدہ
گھنے جنگلوں کے سفر میں دمیدہ
کسی زرد پتے کی صورت خزاں کی
ہواؤں کے گرداب و طوفاں میں بکھرے
دکھوں کی برستی ہوئی شبنموں میں
زمینوں پہ بے جاں پڑے ہیں کبیدہ
جزیرہ نما منزلوں کے یہ راہی
فغاں نا رسیدہ ، بیاں آبدیدہ
خمیدہ پریشاں ، شجر سے بریدہ
کبھی سنگِ رہ کی طرح ٹھوکروں میں
کہیں تپتے صحرا کے تپتے پہر میں
بیاباں کے خونخوار چرخوں سے سہمے
بنا جانے خود ہی چلےجا رہے ہیں
جھکائے سروں کو سوئے مقتلِ شب
غزالانِ دشتِ قضا آبلہ پا
شکستہ بدن خستہ جاں دل دریدہ
بنا جانے منزل کا رستہ یہ راہی
رواں ہیں سوئے محشرِ شہرِ ظلمت
تلاشِ سحر میں یہ آہو رمیدہ
چلے جا رہے ہیں چلے جا رہے ہیں
زمستاں کی سفاک و قاتل فضا میں
کوئی سرد سینوں میں مشعل جلا دو
جو شب بھرجلے گرم رکھے جنوں بھی
نکالو کہیں سے وہ سورج تپیدہ
مری زندگی کے جو ظلمت کدوں کو
نئی روشنی کے شراروں سے بھر دے
ندیدہ زمانے کے ان مقتلوں پر
بدن سربریدہ ، دہن با دریدہ
گذرتے ہویے خوابدیدوں سے پوچھوں
کہ درویش کیسے لکھے ظلمتوں میں
زمانے کے شاہوں کا روشن قصیدہ
لٹے قافلوں کے مسافر ہیں سارے
فغاں نا رسیدہ ، بیاں آبدیدہ
فاروق درویش