بین الاقوامیحالات حاضرہ
روس امریکہ اور چین کی گریٹ گیم سے غزوہء ہند تک
وقت کا مورخ بھارت کی ابدی شکست کے ضمرے میں تاریخ کا جو باب لکھنے والا ہے، اس کا نام " غزوہء ہند" ہے
ماضی کے حریف روس اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی قربت کوئی انوکھی بات نہیں۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہوئی تاریخ اور اکٹوپس کی مانند بدلتا ہوا جغرافیہ بڑی انوکھی سچی کہانیاں سناتے رہتے ہیں ۔ کل امریکہ کو اپنے پرانے پاکستان کی ضرورت تھی اور آج اس کا نیا اتحادی بھارت ہے۔
ماضی میں بھارت کا حلیف روس گرم پانیوں تک رسائی کیلئے نکلا تو پاکستان اور امریکی اتحادی ایک دوسرے کی مجبوری تھے۔ افغان کہساروں میں روسی استعمار کیخلاف برسر پیکار لوگ امریکہ اور مغرب کے مجاہدین کہلاتے تھے۔ لیکن پھر افغانستان میں سویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ بہادر کا مطلب پورا ہوا تو امریکہ اور یورپ کے وہی فیورٹ مجاہدین ان کی نظر میں دہشت گرد بن گئے۔ اور امریکہ نے روس کیخلاف جنگ میں اہم کردار نبھانے والے پاکستان کو "وار اگینسٹ ٹیرر” کے تندور میں دھکیل دیا۔
افواجِ پاکستان اور عوام کی ستر ہزار جانوں کی قربانیوں اور کھربوں ڈالرز کے معاشی نقصانات کے اس تیس سالہ طویل دور میں پاکستان اور روس کے تعلقات بھی برفانی سمندروں کی طرح سرد رہنے کے بعد برف پگھلنی شروع ہوئی ہے۔ تاریخ کے اوراق پر حریفوں کا حلیفوں میں بدلنا دیکھیں تو یہ عجب نہیں کہ حلیفوں کی تلاش میں روس بھی اپنے اسی حریف پاکستان کی قربت کا خواہاں ہے جس کی تاریخی جہدوجہد نے اس کا شیرازہ بکھیرا تھا۔ جبکہ دوسری طرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور روس چین اشتراک سے خائف امریکہ اب بھارت اور ایران سے یارانے بڑھا کر خطے میں نئے اڈوں کی تلاش کیلئے سب کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے ۔
یہ تاریخی حقائق ہمارے شاہوں کیلئے داستانِ عبرت ہیں کہ کارل مارکس کے سرخ منشور نے عوام کو اس ظالم نظام اور جابر شاہوں کیخلاف بغاوت پر اکسایا جو مزدور سے بیگار کیلئے کوڑے برساتے تھے۔ وہ انقلاب برپا ہوا تو جبر کے ستے عوام نے شہنشاہوں اور ان کی اولادوں کو سولیوں پر چڑھا دیا ۔ عوام الناس کیلئے جبر و استحصال کی علامت بننے والے ظالم بادشاہوں کی قبریں کھود کر ان کی ہڈیاں تک جلا دی گئیں۔ جنگ عظیم میں جرمن اتحاد کو شکست دینے والے متکبر روسی افغانستان اور پاکستان کو روند کر گرم پانیوں تک پہنچنے کی ہوس میں پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تو روسی اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ اور پھر قدرت کا کھیل دیکھیے کہ اسی روس کی کوکھ سے کئی آزاد مسلم ریاستوں کا جنم ہوا۔ اور الحاد و لادینیت کے نام پر برپا انقلاب اور کیمونزم کا بے چراغ خاتمہ ہوگیا۔
اقوام عالم میں فساد برپا کیلئے متحرک یہودیوں کی روایتی مہم جوئیوں نے جرمنی اورپولینڈ کے مابین کشیدگی کو تندور بنا دیا تو 3 ستمبر 1939ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ دنیا میں امن کے دشمن عناصر کیلئے بڑی فکر و عبرت کا پیغام ہے کہ مکافات عمل کا شکار ہونے والے ضدی مزاج یہود یوں کے قتل عام کا آغاز اور ان کی سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی پولینڈ ہی میں ہوئیں۔
تاریخ کی کھڑکی سے اور پیچھے جھانکیں تو دو صدیوں سے امریکہ اور برطانیہ عالمی امن فنا کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ فتنہ گری کا مرکزی کردار برطانیہ پہلی جنگ عظیم کے حریف جرمنی کے آمر ہٹلر کو روس پر حاوی دیکھنے کا خواہاں تھا ۔ چیکوسلوواکیہ پر جرمن قبضہ کے بعد اس کی خواہش تھی کہ ہٹلر مذید مضبوط ہو کر روس کو بھی نگل جائے۔ مگر گوری توقع کے برخلاف جرمنی نے روس کی بجائے ان کے یہودی آقاؤں کی سب سے اہم پناہ گاہ پولینڈ پر حملہ کردیا تو برطانیہ نے جرمنی کیخلاف اعلان جنگ کر دیا۔
پانچ کروڑ انسانی جانیں لیکر وہ خونی جنگ تو اپنے انجام کو پہنچی لیکن امریکہ اور برطانیہ کی یہودی برانڈ امن دشمنی اور منافقت ہر جنگ اور ہر رنگ میں جاری ہے ۔ اور ان طبقات کی سازشوں کا اگلہ نشانہ اب سامراج و مغرب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہوئی، عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان ہے ۔
ترکی کے عالمی سیاست میں ملی کردار کے بارے یہ خبر بھی پڑھیں
اقوام متحدہ میں بھی کشمیر اور فلسطین کیلئے صدر اردوغان کی آواز گونجتی ہے
چین کی دیرینہ کوششوں کی بدولت روس اور پاکستان میں دوستانہ ریلیشن بڑھ رہے ہیں۔ اس قربت کو حیرت کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو تاریخ یاد کرواتی ہے کہ سیاست ایوانان اقتدار کی ہو یا صحافتی اجارہ داری کی، کل کے حلیف آج کے حریف ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ پہلی جنگ عظیم کے دو حریف جرمنی اور اٹلی دوسری جنگ عظیم کے حلیف تھے۔ قدرت کا تماشہ دیکھئے کہ برطانیہ کی خواہش تھی کہ روس جرمنی کے ہاتھوں تباہ ہو۔ مگر بالآخر روس نے ہی جرمنی کو فیصلہ کن شکست دے کر برطانیہ اور سارے اتحادیوں کی جان چھڑوائی تھی۔
مقامِ عبرت ہے کہ دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کا وارسا معاہدہ کیمونسٹ ریاستوں اور روس کے ٹوٹنے کے بعد تحلیل ہو چکا ہے۔ بدلتی ہوئی دنیا کا تماشہء عجب دیکھئے کہ نیٹو کے حریف وارسا معاہدے کے رکن ہنگری ، چیک ریپبلک ، پولینڈ ، بلغاریہ ، اسٹونیا ، لتھووینیا ، رومانیہ ، البانیہ اور سلوواکیہ اب نیٹو کے رکن ہیں۔ اور نیٹو بھی ٹوٹنے کی طرف گامزن ہے اور برطامیہ یورپی یونین سے نکل رہا ہے۔ میرے مطابق دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست میں بھی قدرت کی حکمت پوشیدہ تھی۔ کہ قدرت کو قرب قیامت اور دجال و مہدی کے معرکے کے حوالے سے نبی آخر الزماں ﷺ کی پیشین گوئیاں پوری ہونے سے پہلے یہودیوں کا صفحہء ہستی سے مٹ جانا منظور ہی نہیں تھا۔
ماضی میں بھارت روس کا قریبی حلیف ہی نہیں بلکہ اپنے اسی فیصد جنگی ساز و ساما ن کا خریدار بھی رہا ہے۔ جبکہ بتدریج بدلتے ہوئے مناظر میں اب یہودی لابی کے زیر نگرانی بھارت اور امریکہ کے مابین اربوں ڈالرز کے دفاعی معاہدے ہو رہے ہیں۔ ردعمل میں چین اور پاکستان میں قربتیں اس حد تک مظبوط ہوئیں ہیں کہ اب روس بھی پاکستان سے قربت کا آرزومند ہے۔ روس کی اس خواہش کا پہلا مظہر جولائی 2014 میں اس وقت اخباروں کی شہہ سرخیاں بنا جب روس نے پاکستان کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی ختم کر دی۔
میرے مطابق روس کے اس جذبے کے پس پردہ بھارت کے امریکہ کی طرف جھکاؤ کے بعد اسلحہ کی فروخت کیلئے گاہکوں کیلئے مارکیٹنگ بھی ہے۔ لہذا روس نے پاکستان کو طیارے اور ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کا سگنل دیکر حریف امریکہ سے پرانے کھاتوں کا حساب چکانے کیلئے دشمنوں کو دوست بنانے کا عندیہ دے دیا ۔ اس پر روسی اسلحے کے سب سے بڑے خریدار بھارت کی چیخ و پکار روائتی مکاری ہے۔ روس اب بھارت کے امریکی تعلقات سے پوری طرح ہوشیار ہے۔ لہذا عسکری، معاشی اور ثقافتی سطح پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری آنے لگی ہے۔ ماضی میں ذاتی مفادات کے عوض قومی مفادات کا سودا کرنے والے حکمران ، ستر ہزار جانوں کی قربانیوں اور ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کے نقصان کے باوجود امریکہ سے جائز حق لینے میں ناکام رہے ۔ لہذا اب پاکستان کو روس سے معاہدات کرتے ہوئے ماضی میں امریکہ کی بیوفائیوں کے تلخ اسباق ضرور یاد رکھنے ہوں گے ۔
امن سے دہشت کی طرف گامزن یہ دنیا ، جنگل اور درندوں جیسی معاشرت میں بدل رہی ہے۔ کمزور طاقتور وڈیروں اور چھوٹی ریاستیں عالمی طاقتوں سے پناہ میں مصروف ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں تنازعات کی وجہ سروائیول اور اپنے مفادات کی جنگ ہے۔ یہاں ہر ملک کے دوسرے ملک سے دوستی اور دشمنی کے رشتے اپنے ریاستی مفادات کیلئے بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ امریکہ کی منافقت کے ہاتھوں مجروح قوم کیلئے یہ حقائق بھی معمہء حیرت ہیں کہ ایک طرف روس اپنے دیرینہ حریف امریکہ سے پرانے زخموں کا انتقام لینے کیلئے بے تاب نئے جال بچھا رہا ہے۔
جبکہ دوسری طرف امریکہ اور مغربی چالوں کا شکار ہو کر شام کی اقلیتی حکومت کے ایما پر نہتے شہریوں پر وحشیانہ بم باری بھی کر رہا ہے۔ خطے میں بدلتے ہوئے ان حالات میں پاکسان کو دھرنوں، میوزیکل انقلابیوں، مفلسوں سے بے نیاز ناکام حکمرانوں یا کرپشن کنگ مداریوں کی نہیں، انٹرنیشنل ویژن اور سیاسی فہم کی حامل وہ قیادت درکار ہے، جو عالمی طاقتوں سے تعلقات اور معاشی و دفاعی معاہدوں میں ذاتی نہیں بلکہ ملی و قومی مفادات کو ترجیح دیں۔
نوسٹرا ڈیمس اور نعمت شاہ ولی کی پیشین گوئیوں کے مطابق موجود منگولوں (موجودہ چین اور کوریا) کا کردار اہم ہو گا۔ سر دیوار لکھا ہے کہ ایک طرف یہودی لابی کے زیرنگرانی بھارت، ایران اور امریکہ کی یاریوں اور دوسری طرف پاکستان اور چین کے رشتے مظبوط ہونے کے ساتھ روس کے پاکستان کی طرف جھکاؤ کی اس نئی کہانی سے خطے میں ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان فضائی کے ہاتھوں بالاکوٹ ڈرامے کے مونہ توڑ جواب اور لداخ میں چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے بھارتی زوال کہانی شروع ہو چکی ہے۔
افغانستان کے شکست خوردہ مریکی اور اور لداخ میں ذلت رسیدہ بھارت اپنے حلیفوں سمیت سی پیک کے منصوبے کیخلاف سرگرم ہو رہے ہیں۔ اس کیلئے بھارت اور امریکی کٹھ پتلی افغانی حکومت کی طرف سے بلوچستان میں بلوچ باغیوں اور دہشت گردوں کیلئے سہولت کاری جاری ہے۔ جبکہ دوسری طرف بھارت کے اندر میں ماؤ گوریلوں اور دیگر علیحدگی پسند عناصر کی طرف سے انڈین فورسز کیخلاف عسکری کاروائیاں شدت اختیار کر رہی ہیں ۔
فاروق درویش کا دعوی ہے اس گریٹ گیم کا مورخ، اب بھارت کی ابدی شکست کے ضمرے میں تاریخ کا جو باب لکھنے والا ہے، اس کا نام وہ ” غزوہء ہند” ہے۔ جس کے مجاہدوں کو میرے آقائے نامدار نبیء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فتح اور جنت کی بشارت ہے۔ افواج پاکستان اور بائیس کروڑ پاکستانی وطن عزیز کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
(فاروق درویش ۔ واٹس ایپ کنٹیکٹ ۔۔ 00923224061000)
جے ایف – 17 بلاک 3 کے بارے میرا یہ آرٹیکل بھی پڑھیں
جے ایف-17 میں چین کے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر جے-20 کے میزائیل اور جدید ریڈار نصب کر دیے گیے
جنوبی ایشیا کے خطے میں بدلتے ہوئے منظر کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں