کافر کی ہو گدا تو فقیری بھی کافری ۔۔ جاوید چوہدری کے نام
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتا ترک جیسی سیکولر ریاست کا خواب دیکھنے والے صحافت نہیں حماقت کے علمبردار ہیں
کچھ میڈیا پرسنز نے انٹی اسلام کرداروں کی قصیدہ گوئی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مقصد قوم کی سیاسی اور نظریاتی تقسیم در تقسیم ہے۔ نامور صحافی جاوید چوہدری کی مغربی برخوداری کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی جیسے متنازعہ کردار کی تعریف کو بھی شعور و آگہی کی تشہیر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک کالم ” پاکستان کے اتا ترک کا انتظار ” میں پاکستان کے موجودہ حالات کا علاج جدید ترکی کے بانی اتاترک جیسی کسی سیکولر شخصیت کے ظہور کو قرار دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جبکہ عالم اسلام کی اکثریت اتا ترک کو بدترین لادین اور اسلامی نظریات کا دشمن قرار دیتی ہے۔ چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ ” کمال اتاترک جانتے تھے، ہم نے اگر ترکی کو بچانا ہے تو پھر ہمیں خلافت اور سسٹم کی قربانی دینا ہو گی۔ اور ہم نے اگر پرسکون معاشرہ بنانا ہے تو پھر ہمیں ملک میں یورپ جیسی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ترکی بچ بھی گیا اور آزاد بھی ہو گیا” ۔۔
گویا چوہدری صاحب کے مطابق پاکستان کا وجود اور آزادی اب اسلامی اقدار اور اس نظریہء پاکستان سے پیچھا چھڑانے سے مشروط ہے، جن کی بنا پر یہ مملکت خداداد معرض وجود میں آئی ۔ صد حیف کہ چوہدری صاحب کی مغرب زدہ سوچ کے مطابق پاکستان کا وجود اور دائمی امن اللہ اور رسول کی اطاعت میں نہیں ، بلکہ مغربی تہذیب اور سیکولر ازم سے ممکن ہے ۔ اگر پاکستان میں ریاست مدینہ جیسے اس نظام ریاست و سیاست کا فوری نفاذ ممکن نہیں تو کم از کم اس کیلئے مخلصانہ اجتماعی کوششیں تو جا سکتی ہیں۔
چوہدری صاحب آپ کو وہ تاریخی حقائق یاد دلاتا ہوں، جنہیں لکھنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ انیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی تھی۔ اس دوران ایک ترک یہودی قرہ صوہ آفندی کی قیادت میں یہودی وفد نے سلطان عبدالحمید سے ملاقات میں یہ پیش کش کی کہ” اگر بیت المقدس اور فلسطین یہودیوں کے حوالے کر دیا جائے تو خلافت عثمانیہ کا سارا قرضہ اتار کر کئی ٹن سونا بھی دیا جائے گا “ ۔
لیکن غیرت مند سلطان نے اس پیشکش کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے یہ مونہہ توڑ جواب دیا تھا کہ ” اگر تم یہودی لوگ اپنی ساری دولت دے کر اس کے بدلے میں بیت المقدس کی ذرا سی مٹی بھی مانگو، تو ہم نہیں دیں گے۔“ اس کے بعد دنیا بھر کے یہودی خلافت کے خاتمے کیلئے آخری حد تک سرگرم ہو گیے۔ اور پھر چند برس بعد جو شخص اتا ترک کی طرف سے خلافت کے اختتام کا پروانہ لے کر سلطان عبدالحمید کے پاس آیا، وہ وہی بدبخت یہودی قرہ صوہ آفندی ہی تھا،جس نے سلطان کو بیت المقدس کے بدلے قرض اتارنے کی پیشکش کی تھی ۔
تعجب انگیز ہے کہ اپنے کالموں میں سیدنا فاروق اعظم کے فلاحی نظام کے قصیدے لکھنے والے جاوید چوہدری اچانک اتا ترک جیسے بے دین کے ظالم اور سیکولر نظامِ کے علمبردار کیسے بن گئے؟ کسی بھی مسلمان کیلئے ان کے اس باطل موقف کو درست تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ترکی صرف اتا ترک کے خون آشام سیکولر اقدامات کی بدولت بچا اور آزاد ہوا۔ بلکہ ان کی بیان کردہ دیگر وجوہات بھی کسی کلمہ گو کیلئے قابل قبول نہیں۔
اتا ترک نے "آزادی اور امن” کیلئے سسٹم کی قربانی میں جو سفاکانہ قتل و غارت اور لہو رنگ ” انقلابی اقدامات ” کئے، جاوید چوہدری صاحب کے بقول وہ ، ” خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا، سیکولر جمہوری ترکی بنایا، آئین سے مذہب کی شق خارج کی، عورتوں کا پردہ ختم کر دیا، مدارس بند کر دیے۔ مذہبی تعلیم پر پابندی لگا دی، اسلامی لباس کو غیرقانونی قرار دے دیا ، ملک کی تمام مساجد حکومتی کنٹرول میں لے لیں، مذہبی کتب کی اشاعت بند کرا دی اور علماء کرام کے خطبوں اور فتوؤں پر پابندی لگا دی”۔
لیکن ادھوری تاریخ بیانی کے ماہر جاوید چوہدری صاحب یہ حقائق نہیں لکھ سکیں گے کہ صرف خلافت کا خاتمہ ہی نہیں، خلافت کے حواریوں کا قاتلانہ خاتمہ بھی ہوا۔ آپ خلافت کے خاتمہ کیخلاف تحریک خلافت چلانے والے حضرت اقبال و جوہر سے عظیم دانشور بننے کی کوشش میں صرف رسوائی اکٹھی کر رہے ہیں۔ جبکہ خلافت کا چراغ گل کرنے پر علامہ اقبال بھی تڑپ کر کہہ اٹھے تھے کہ ” چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا” ۔
چوہدری صاحب یہ پورا سچ لکھیں کہ اتا ترک کے انقلاب میں مذہبی تعلیم پر پابندی دراصل قرآن پاک کی تلاوت، احادیث نبوی کے مطالعہ اور حفظ قرآن پر بھی مکمل پابندی تھی۔ قرآن پاک کے تمام نسخے جلا دئے گئے تھے، حتٰی کہ لاکھوں حفاظ قرآن کو شہید کر کے قرآن کو سینوں سے بھی مٹانے کی کوشش کی گئی۔ صرف دینی کتابوں پر نہیں بلکہ اشاعت قران و احادیث پر بھی مکمل پابندی لگائی گئی۔ مدارس بند اور مساجد ایسے حکومتی کنٹرول میں آئیں کہ تمام دینی مدارس مسمار اور مساجد کو تالے لگا کر اذان دینے اور سرعام با جماعت نماز ادا کرنے پر بھی ” انقلابی پابندی” عائد کر دی گئی تھی ۔
آپ یہ سچ لکھنے سے کیوں گریزاں ہیں کہ ہزاروں علماء کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔ کیا وہ علما ء بھی خود کش بم دھماکے کرتے تھے؟ لیکن پھر ان ظالمانہ اقدامات اور اذانوں پر پابندی کے بعد زمانے نے وہ ایمان افروز مناظر بھی دیکھے کہ جب 28 برس بعد پھر سے اذانوں کی صدائیں گونجیں ، تو لوگ مساجد کی جانب یوں دیوانہ وار دوڑے گویا مدتوں سے اپنی ماؤں سے بچھڑے بچے مائیں ملنے پر ان کی جانب دوڑ رہے ہوں۔
دیکھیے آج اسی ترکی میں مساجد پہلے سے زیادہ آباد، حفاظ قرآن کی تعداد دس گناہ اور دین و ملت سے عشق کی شمع جل اٹھی ہے۔ آپ سچ لکھیں کہ صرف حجاب اور اسلامی لباس پر نہیں بلکہ شرم و حیا اور غیرت مندی پر پابندی لگا کر قحبہ خانے اور شراب خانے کھولے گئے تھے ۔ ترکی کو روم ، لندن اور پیرس جیسا نیم عریاں بنا دیا گیا تھا ۔
آپ کھل کر بتائیں کہ کیا آپ پاکستان میں بھی حقیقی آزادی اور پائیدار امن کیلئے یہاں بھی سرعام اتا ترک جیسے قحبہ خانے، شراب خانے اور نائٹ کلب کھونے کی تجویذ دیں گے؟ کیا آپ بھی مغرب کی تقلید میں امن اور سلامتی کے دین اسلام کو شدت پسندی اور قرآنی افکار کو فساد کی جڑ قرار دیکر اتا ترک کی تقلید میں قرآن کے نسخے جلانے، حفاظ قرآن کو شہید کرنے اور دس لاکھ مسلمانوں کے ” انقلابی قتال ” کو "آزادی اور امن” کی ضمانت قرار دیں گے؟
چوہدری صاحب فرماتے ہیں ، " اتاترک کو یقین تھا کہ ترک عوام میری اصلاحات آسانی سے قبول نہیں کریں گے لیکن یہ خدشہ غلط ثابت ہوا، عوام نااہل حکمرانوں، کرپٹ بیورو کریسی اور متشدد علماء کرام سے اس قدر تنگ تھے کہ انھوں نے نہ صرف اتاترک کی اصلاحات کو خوش آمدید کہا بلکہ سکھ کا سانس بھی لیا، ترکی میں فوج 2005ء تک بااختیار رہی، مذہب ریاست کے کنٹرول میں رہا، کنٹرول کے ان 85 برسوں نے ترکی کو اسلامی دنیا کا لیڈر بنا دیا”۔۔۔
چوہدری صاحب آپ ان دجالی افکار کی تشہیر رائیگاں جائے گی۔ یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ پاکستانی مسلمان اتا ترک جیسے اتنی آسانی سے قبول کر کے ” خوش آمدید ” کہیں گے۔ آپ یہ کیوںکر ثابت کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مدارس شدت پسندی کی نرسریاں اور سب علمائے اکرام ہی ٹی ٹی پی کے حواری یا دہشت گرد ہیں ؟ بیوروکریسی کو بے لگام گھوڑا بنانے والے عناصر دراصل حکمران اور مغرب کا گماشتہ وہ کرپٹ نظام ہے ، جس میں آپ جیسے وہ دو رنگے صحافی بھی شامل ہیں جو ” امن گردوں” کے بھیس میں دراصل سیاسی و مذہبی منافرت پھیلانے کے سامراجی مشن کے شریک کار سازشی عناصر ہیں ۔
چوہدری صاحب آج عالم اسلام جس ترکی پر نازاں ہے اس کی بنیاد اتا ترک نے نہیں اردوغان نے رکھی ہے۔ جس کی پالیسیوں کی بدولت کل کا ” مرد بیمار” آج عالمی طاقتوں کے روبرو ایک طاقتور پہلوان کے روپ میں اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا ہے۔ ترکی میں امن و انصاف اتا ترک کی پابندیوں اور کافرانہ اقدامات سے نہیں بلکہ اردگان کی طرف سے وہ ظالمانہ پابندیاں اٹھانے سے قائم ہوا ہے۔
آج ترکی میں خواتین کے حجاب پر پابندی ختم ہوئی ہے تو آج ہر طرف اسلامی سکارف نظر آتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ آج کا ترکی ” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی” کی زندہ تصویر ہے۔ وہ برما میں مسلمانوں پر مظالم ہوں یا غزہ میں فلسطینوں کا قتل عام، ترکی کا غیرت مند کردار عالم اسلام کیلئے ایک روشن و قابل تقلید مثال ہے۔ چوہدری صاحب آپ کے مغربی آقاؤں کو یہ بات کانٹے کی طرح چبھتی ہو گی کہ عالم اسلام میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اتا ترک کا ترکی اب اسرائیل کیلئے سرطانی درد بن چکا ہے۔
اسلام کے بدترین دشمن اتا ترک کے سیکولر عاشقین کیلئے یہ نظارہ ء آفریں بھی بڑا تکلیف دہ ہو گا کہ آج کا ترکی اتا ترک کے دجالی نظریات کا حقیقی قبرستان ہے۔ ترک عوام اور قیادت نے ثابت کیا ہے کہ مسلمان اغیار کے ایجنڈے، کارل مارکس یا اتا ترک کے سیکولرازم کا نہیں بلکہ صرف احکام خداوندی کا پابند ہوتا ہے، یہی اقبال کا آفاقی پیغام بھی ہے
پابندیء تقدیر کہ پابندیء احکام ۔ یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات ۔ مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
کاش آپ ” پاکستان کے اتا ترک کا انتظار ” کی بجائے ” پاکستان میں دورِ فاروق اعظم کا انتظار” لکھتے۔ باخدا شدت پسندی کا علاج اتا ترک برانڈ متشدد خونی اقدامات میں ڈھونڈنے والے دراصل امن کے اصل دشمن اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتا ترک جیسی سیکولر ریاست کا خواب دیکھنے والے صحافت نہیں حماقت کے علمبردار ہیں ۔ ۔ آپکی نذر میرے دو اشعار۔
شاہی بھی کافری ہے، امیری بھی کافری ۔ کافر کی ہو گدا تو فقیری بھی کافری
درویش آنکھ سے نہ بہے دل کا خون اگر ۔ کافر ہےعشق، شب کی سفیری بھی کافری
( فاروق درویش واٹس ایپ – 00923324061000 )
جاوید چوہدری کے دیگر کالموں کے حوالے سے میرے جوابی آرٹیکلز کے لنکس
جاوید چوہدری کے قصیدہء احمقیہ کے جواب میں
امریکہ بھارت اسرائیل کے امن دشمن گٹھ جوڑ کے بارے میرا یہ آرٹیکل بھی پڑھیں
امریکہ اسرائیل اور بھارت کا اتحاد اور تیسری جنگ عظیم کی صف بندیاں – پارٹ ون