شیر کی زندگی اور غدار کی موت
مردِ مومن ٹیپو سلطان کی شہادت اور غدارِ میر صادق کی ہلاکت میں آنے والی نسلوں کیلئے راہنمائی ہیے
ٹیپو سلطان شہید تاریخ اسلام اور جدوجہد آزادیء ہند و پاک کا وہ لازوال و تابندہ کردار ہے جس پر عالم اسلام تا قیامت نازاں رہے گا ۔ ٹیپو کے حالات زندگی اور شہادت کے حوالے سے بہت کچھ لکھنے کی آرزو رہی ہے، فی الحال ان کے یوم شہادت پر وکی پیڈیا سے کچھ مصدقہ اقتباسات اور اپنا موقف پیش کر رہا ہوں۔ مسلم مورخ سچ لکھتا ہے کہ حضرت اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم حالت میں دیکھنا مقصود ہو تو ٹیپو سلطان اس کا بہترین نمونہ ہے۔
تاریخ عالم شاید ہی اس جری و اولوالعزم مسلم سلطان کی کوئی مثال یا نظیر پیش کر سکے گی۔ ٹیپو سلطان موجودہ دور کے مغربی غلام حکمرانوں کی طرح عالی شان محلوں اور ائرکنڈیشنڈ ڈرائینگ رومز میں پریس کانفرنس کرنے والا ابن الوقت سیاست دان نہیں تھا۔ وہ نہ صرف ایک عملی مرد مجاہد تھا بلکہ حقیقی معنی میں حضرت اقبال کا وہ مرد مومن تھا جو عالِم بھی تھا اور زاہد و عابد بھی۔
وہ ایک جری سپاہی اور بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین حاکم و منتظم بھی۔ ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما بھی تھا اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کو اپنا فرض اولین سمجھنے والا ایک عوام دوست قائد بھی۔ اپنے والد سلطان حیدر علی کی وفات کے بعد جس وقت عنان حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی، انگریزوں کی سازشوں کے باعث امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور مسلمانان ہند تقسیم ہو رہے تھے۔ اس نازک صورت حال میں ٹیپو نے ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی تو دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر بھرپور توجہ بھی دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے کہ جنہوں نے صلیبی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس مسلم سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنت خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی ۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے شیطان جان چکے تھے کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے گا تو پھر مغربی طاقتوں کا ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس مسلم دشمن اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے نہایت عیاری سے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔
حتیٰ کہ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہو کر اعلان کردیا گیا کہ سلطان ٹیپو سفاکی اور بربریت میں چنگیز اور ہلاکو سے بڑھ کر ظالم اور انسان دشمن ہے۔ اور پھر مئی 1799 ء 29 ذی قعدہ 1213 ہجری کو ٹیپو سلطان شہید نے اپنی زندگی میں آخری مرتبہ سورج نکلتے دیکھا۔ صبح سویرے اپنے طاؤس نامی گھوڑے پر سوار ہوکر وہ فوجیوں کے معائنے کیلئے نکلا ۔ انگریزوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعہ کی دیوار گرگئی تھی۔ اس نے اس کی مرمت کا حکم دیا اور پھر واپس محل آ کرغسل کیا۔
یاد رہے کہ قلعے کے محاصرے کے بعد سے وہ محل میں رہائش ترک کر کے سپاہیوں کی طرح اک خیمہ میں رہنے لگا تھا۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر تک فصیل کی مرمت دیکھتا رہا۔ دن کے ایک بجے وہ فصیل سے نیچے اترا ایک درخت کے سائے میں نماز ظہر ادا کی اور وہیں دوپہر کا کھانا طلب کیا۔ مگر ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھاکہ شہر کی طرف سے رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں۔ ٹیپوسلطان نے سپاہیوں سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ہے تو معلوم ہوا کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہو گیا ہے اور انگریزی فوج بلاروک ٹوک قلعہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے۔
وہ فوراً دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوا چند جانثاروں کو ساتھ لیا اورقلعہ کے دریچے ڈڈی دروازہ سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے بڑھا۔ ٹیپو سلطان کے باہر نکلتے ہی غدار ِ ملت میر صادق نے اندر سے دریچے کو بند کر دیا تاکہ اگر سلطان کو واپس قلعہ میں آنا پڑے تو وہ واپس نہ آسکیں۔ اور پھر شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو امت مسلمہ اور دین محمدی کی سربلندی اور آزادی ء ملت کی حفاظت کرتا ، دست بدست مردانہ وار لڑتا ہوا اپنی جان پر کھیل کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر ٹیپو شہید کہلایا۔
مگر اس غداری کی سزا ننگ آدم میرصادق کو کس صورت میں بھگتنی پڑی۔ اس کی تفصیل تاریخ دان صاحب حملات حیدری نے جن الفاظ میں بیان کی ہے وہ ہو بہو پیش کر رہا ہوں ۔”میرصادق نے گنجام کے تیسرے روز دروازے پر آکر دربانوں کو کہاکہ خبردار میرے جانے کے بعد تم چپ چاپ دروازہ بند کرلینا وہ یہ کہہ کر آگے بڑھا تھا کہ سامنے سے ایک سپاہی ملازم سلطانی آ کر اسے لعن طعن کرنے لگا کہ اے روسیاہ ،راندہ درگاہ یہ کیسی بے حمیتی ہے کہ تو سلطان دین پرور محسن عالی گوہر , ٹیپو کو دشمنوں کے جال میں پھنسانے کے بعد اپنی جان کیسے بچا لئے جاتا ہے کھڑا رہ ،روسیاہی کے کاجل سے اپنا منہ تو کالا کر لے ۔یہ کہتا ہوا کمال طیش سے ایک ہی وار میں اس کو آب تیغ سے شربت اجل پلا گھوڑے کی زین سے زمین پر مار گرایا۔ اس بدبخت میر صادق کی لاش چاردن تک گلنے سڑنے کے بعد قلعے کے دروازے پر بغیر کفن کے دفن کر دی گئی۔ آج بھی لوگ آتے جاتے قصداً اس ننگ آد م ، ننگ دین، ننگ وطن مردود کی قبر پر تھوکتے ،پیشاب کرتے اور ڈھیر کے ڈھیر پرانی جوتیاں ڈالتے ہیں ’’
کچھ دانشور اسے ہندوؤں کا ہمدرد اور رواداری کا بادشااہ قرار دیکر پاکستان میں ہندوؤں کو اعلی سرکاری عہدوں پر بٹھانے کے آرزومند ہیں۔ بلاشبہ اسلام اقلیتوں کیکئے امن اور رواداری کا دین ہے اور اس بہادر سلطان نے ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ ہمیشہ رواداری کا مظاپرہ کیا ، لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ سلطان نے ہندوؤں کو کلیدی عہدے اور وزارتیں دیکر دراصل جن سانپوں کو دودھ پلایا، انہی نے اسے جان لیوا ڈنگ بھی مارا ۔ ایسے کالم نگار اور دانش ور حضرات اپنے تاریخی نالج کی اپ ڈیشن کریں کہ سلطان ٹیپو کی شکست اور شہادت کے ذمہ داروں میں ننگ دین و ملت غدار میر صادق کا ساتھی ہندو وزیر پورنیا اور دوسرے ہندو اہلکار سب سے نمایاں تھے۔
سلطان کی ہندوؤں کو وزیر بنانے کی پالیسی نے ہی دراصل مملکت خداداد میسور کا بوریا بستر گول کر دیا۔ ہم امن پسند مسلمان دوسرے مذاہب سے اخلاقی رواداری اور ان کی جان و مال کے تحفظ کیلئے ریاستی اور عوامی کاوشوں کے قائل ہیں۔ لیکن ان ہندوؤں نے انہیں کلیدی عہدے اور محبتیں دینے والوں کے ساتھ کیا کیا سفاکانہ و غدارانہ سلوک کیا اس کا احوال تاریخ ہند کے حقائق سے عیاں ہے
اب تک ہیں یہیں ننگِ وطن جعفر و صادق
میسور و پلاسی کے وہ منظر ہیں ابھی تک
افسوس صد افسوس کہ مغرب اور سامراج کی غلامی کا طعوق گلے میں ڈالے، ملک و ملت کے ننگ دین غداروں نے ہوس زر کے قیدی بن کر ابھی تک میر صادق جیسے بدبختوں کے عبرت ناک انجام بد سے نہ کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ہی کبھی سیکھیں گے
آں شہیدانِ محبت رَا اِمام ۔ آبروئے ہند و چین و روم و شام
جعفر از بنگال، صادق از دکن ۔۔ـ ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن
( فاروق درویش )
سلطان ٹیپو کی عظمت اور قادیانت کے فتنہ کے حوالے سے میری ایک تحریر
سلطان ٹیپو کی عظمت اور قادیانت کے فتنہ کے حوالے سے میری ایک تحریر
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
عمدہ۔۔ بہت خوب تحریر
آپ کا بلاگ آج پہلی دفعہ دیکھا امید ہے کہ آپ اپنے علم کو ہمارے ساتھ شئیر کرتے رہیں گے۔
وعلیکم السلام برادر ایم اے راجپوت
حوصلہ افزائی کیلئے ممنون ہوں۔ سدا سلامت رہیں