بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
بلا شبہ یہودی دوسرے مذاہب کے مقابلے میں ذہین و فطین اور دور اندیش ہیں۔ لیکن ان کی عیاری اور دوراندیشی دوسروں کیلئے بربادی ہے ۔ یہ اپنے دشمنوں کیخلاف صدیوں بعد تک کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
قرآن کے حرف حرف میں حق کی جستجو اور تحقیق کرنے والوں کیلئے دانائی اور واضع اشارات ہیں۔ قابل غور ہے کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل کی بشارت دی گئی تو فرمایا ، "ہم نے اسے ایک ’’حلیم‘‘ لڑکے کی بشارت دی (سورہ الصّافات) ۔ لفظ حلیم کی ذیلی صفات اطاعت گزار اور عاجزی پسند ہیں۔ مسلمان حضرت اسماعیل کی نسل سے ہیں اس لئے ان میں آج بھی کافی حد تک حلیمی موجود ہے۔ جبکہ حضرت اسحاق کی پیدائش کے بارے یہ مختلف الفاظ ہیں کہ۔ ہم تمہیں ایک ’’علیم‘‘ لڑکے کی بشارت دیتے ہیں (سورہ الحجر)۔ علیم کے معنی علم والا، دوراندیش، ذہین اور فطین ہیں۔ یہودی سیدنا اسحاق کی نسل سے ہیں ، لہذا ان میں یہ تمام باتیں موجود ہیں۔
بلا شبہ یہودی دوسرے مذاہب کے مقابلے میں ذہین و فطین اور دور اندیش ہیں۔ لیکن ان کی عیاری اور دوراندیشی دوسروں کیلئے بربادی ہے ۔ یہ اپنے دشمنوں کیخلاف صدیوں بعد تک کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ خود تو اپنے مذہب سے شدت پسندی کی حد تک انتہائی پختگی سے وابستہ ہیں۔ لیکن اپنے مقاصد کے حصول کیلئے پہلے عیسائیت اور اب عالم اسلام کو ان کے مذاہب سے دور رنگین و خوش رنگ لبرل رحجانات کی طرف دھکیلنے کی عیارانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
اب یہ امر ایک یونیورسل ٹرتھ بن چکا ہے کہ دنیا میں ہر امن دشمن اشتعال انگیزی اور ہر مذہبی فتنہ گری کے پیچھے کوئی نہ کوئی یہودی ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ لہذا مغرب اور عالم ِ عیسائیت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ اسلام عین امن کا مذہب ہے جبکہ دنیا کے امن کو اصل خطرات صدیوں سے جاری یہودی مہم جوئیوں سے ہیں
اپنے دشمنوں کے اندر تک رسائی اور عالمی سازشوں کیلئے ان کا ڈیزائن کردہ سب سے خطرناک پروگرام فری میسن نامی ایک پراسرار تحریک ہے۔ بظاہر انسانی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی اس تنظیم نے دنیا بھر میں کئی سیاسی لیڈروں ، جرنیلوں، پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا، سٹاک مارکیٹ ، سرمایہ کاروں اور موم بتی مارکہ این جی او مافیوں کو فنڈنگ کر کے اپنی کٹھ پتلیاں بنا رکھا ہے ۔ لہذا آج مغرب ہو یا پاکستانی میڈیا ، بیشتر میڈیا اینکر اور صحافتی ڈان اپنے ان ہی آقاؤں کے دجالی پروگرام پرعمل پیرا ہیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ کبھی جاوید چوہدری جیسا اینکر ترکی میں اسلامائزیشن سے متاثر ذہنوں کو بھٹکانے کیلئے کاذبانہ تاریخ لکھ کر ” پاکستان کے اتا ترک کا انتظار” کا کالم دے مارتا ہے۔
اور کبھی حسن نثار جیسا مغرب زدہ صحافی مذہبی اقدار کی دھجیاں اڑاتا اڑاتا ہوا بالآخر اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسی فتن انگیزی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اسی فری میسن اور ہندوتوا کے خدمتگار نجم سیٹھی اور عاصمہ جہانگیر جیسے مذموم کردار پاکستان کیخلاف ہرزاسرائی اور بھارت دیش کے مفادات کی رکھوالی کرنے کے باوجود ایوان اقتدار کے حلیف ہیں۔ اور اسی فری میسن کے آلہ کار کبھی مسلکی و مذہبی اور کبھی سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کروا کر معاشرے میں بدامنی اور دہشت پھیلانے کی سازشوں میں شریک ہوتے ہیں۔
احباب یہ فاروق درویش کا موقف نہیں بلکہ فری میسن برانڈ صحافتوں اوز اور یہودی آلہ کاروں کی پوری دنیا میں مبینہ موجودگی کا واضع اشارہ ہے کہ اِدھر ترکی میں فوجی بغاوت کی خبر آئی، اُدھر مغربی میڈیا اور ان کے غلام پاکستانی اینکرز نے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر ” اردگان کا اقتدار ختم” ، اردگان کا بیڑا غرق” اور اردگان کا واپسی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند” جیسے پرجوش ٹویٹ کے ڈھول بجا کر اردگان حکومت اور اسلامی نظریات کے ساتھ اپنی دلی مخاصمت اور بغض کا عریاں مظاہرہ کیا.
اور پھر یہود و نصاری اور ایران برانڈ عناصر کا تیار کردہ ڈرامہ فلاپ ہوتے ہی مغربی صفوں میں سوگ کی فضا اور فاکس نیوز میں معروف یہودی برانڈ کالمسٹ رالف پیٹرز کے آرٹیکل کے شکستہ دل عنوان، ” ترکی میں آخری امید بھی دم توڑ گئی ” نے ثابت کر دیا کہ یہودی لابیاں ناکامیاب و نامراد ہو چکی ہیں۔ رالف پیٹرز کے کالم کا عنوان دراصل مغرب و سامراج کی ناکام حسرتوں، یہودی لابی کی ہزیمت انگیز ناکامی کے مرثیوں اور ان کے فارسی بغل بچوں کی ماتمی مجالس کا احوال بیان کر رہا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کیلئے کلام اللہ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ، ” قل موتوا بغیظکم ” ۔ کہہ دیجئے کہ اپنے غصے میں مر جاؤ۔
تاریخ بولتی ہے کہ عیسائیت اور یہودیت میں اٹھارہ صدیوں تک شدید دشمنی اور گرم نفرت کی فضا رہی۔ اور پھر یہودیوں نے ان کی اپنے خلاف مذہبی شدت پسندی کو ٹھنڈا کر کے پہلے خود سے قریب کرنے اور پھر اخلاقی اور معاشی طور پر تباہ و برباد کرنے کی پلاننگ شروع کی۔ انہوں نے پہلے جنگ عظیم اول اور دوم کے شعلے بھڑکانے میں فتنہ پرور کردار ادا کیا اور پھر مغربی ریاستیں کی آپسی خونریزی و تباہی میں انہیں بڑے بڑے قرضے دیکر اپنی مٹھی میں لینے اور آپس میں لڑوا لڑوا کر کمزور کرنے کے دوہرے مقاصد حاصل کیے۔
مغربی معیشت پر کنٹرول کیلئے انہوں نے لیور برادرز، پیپسی ، کوکا کولا اور مکڈونلڈ جیسے ملٹی نیشنل بزنس نیٹ ورکس پوری دنیا میں پھیلا کر مغرب و سامراج کو معاشی طور پرایسا غلام بنا لیا ہے۔ کہ یہ جب بھی چاہیں کسی بھی ملک سے اپنی سرمایہ کاری نکال کر اس کو ہاتھ کھڑا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ خلافت عثمانیہ قرضوں تلے دبی تو ایک ترک یہودی قرہ صوہ آفندی کی قیادت میں یہودیوں نے سلطان عبدالحمید کو یہ پیش کش کی تھی کہ” اگر بیت المقدس اور فلسطینی علاقہ یہودیوں کو دے دیا جائے تو خلافت عثمانیہ کا سارا قرضہ اتار کر کئی ٹن سونا بھی دیا جائے گا “ ۔ لیکن سلطان نے اس پیشکش کے جواب میں کہا تھا کہ ” اگر تم یہودی اپنی ساری دولت دے کر بدلے میں بیت المقدس کی ذرا سی مٹی بھی مانگو، تو ہم نہیں دیں گے۔“ اور پھر خلافت کا چراغ بھجنے پر وہی یہودی شخص اتا ترک کی طرف سے خلافت کے خاتمے کا خط سلطان عبدالحمید کے پاس لایا۔
آج سامراج ، مغرب اور یہودی گٹھ جوڑ کو طیب اردگان جیسی مسلمان قیادت نہیں، عرب و عجم میں نفرت پیدا کرنے والے لا دین اتا ترک جیسے وہ کٹھ پتلی حکمران درکار ہیں جو عالم اسلام کے اتحاد کے دشمن اور یہود و سامراج و مغرب کے مفادات کے محافظ ہوں۔ آج انٹی اسلام لابیاں خوف زدہ ہیں کہ اردگان کی پالیسیوں کی بدولت کل کا ” مرد بیمار” ترکی آج ایک طاقتور پہلوان بن کر کھڑا ہے۔ یہود کیلئے یہ بھی سردرد ہے کہ آج ترکی میں شراب اور قحبہ خانوں پر پابندی ہے۔ خواتین کے حجاب پر پابندی ختم ہوئی ہے تو آج ہر طرف سکارف نظر آتے ہیں۔
آج کا ترکی ” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی” کی تصویر ہے۔ وہ برما میں مسلمانوں پر مظالم ہوں، غزہ میں فلسطینوں پر جبر و تشدد ہو یا شام کے نہتے مسلمانوں کا قتل عام ، ترکی کا غیرت مند کردار پورے عالم اسلام کیلئے قابل تقلید مثال ہے۔ لیکن عالمی طاقتوں کیلئے ترکی کے عربوں اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ دوستانہ مراسم قابل قبول نہیں ۔ طیب اردگان کو راستے سے ہٹانے کی کوششیں اگرچہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور اسرائیل کے قیام کی سازشوں سے قدرے مختلف ہیں ۔ لیکن مقصد وہی یعنی عالم اسلام کے اتحاد اور طاقت ور ہوتی ہوئی اسلامی ریاستوں پر اتا ترک برانڈ کٹھ پتلی قیادت مسلط کرنا ہے۔
حقائق بولتے ہیں کہ اس بغاوت کو صرف سپر پاورز کی نہیں، ایران اور شام کی بھی مدد حاصل تھی۔ اب سامراج اور ایران کا قدیمی خفیہ معاشقہ روبروئے عالم آشکار ہو چکا ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ایران کو ایٹمی طاقت بنا کر خطے کا تھانیدار بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔ جبکہ چاہ بہار بندرگاہ کا بھارت کے ساتھ مشترکہ منصوبہ بھی ایران و امریکہ کے قربت و وصال کا مظہر ہے۔
ایران کو خطے کا چوہدری بنانے کا مقصد پاکستان اور ترکی کو عالم اسلام کی قیادت سے دور رکھنا ہے۔ مگر خوش آئیند ہے کہ سعودی عرب اور ترکی میں دوستانہ مراسم بڑھ رہے ہیں۔ یمن، کویت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کی مشترکہ فوج سمیت دیگر اہم سیاسی و فوجی معاملات پر ترکی اور سعودی عرب کا موقف ایک ہے۔ خطے میں بدلتی ہوئی صورت حال بتا رہی ہے کہ افغانستان سے پسپائی کے بعد اہل یہود کے تمام حواری اور ایران اینٹی اسلام حلیف بن کر ترکی، سعودی عرب اور پاکستان کے مقابل کھڑے ہیں۔
آج امریکہ ، یہود اور ایران کی ہر فتنہ گری سے نپٹنے کیلئے، پاکستان اور ترکی جیسی بڑی عسکری طاقتوں کا سرزمین حجاز سعودی عرب، جدید ترین انفرا سٹرکچر اور تیل کی دولت و دوسرے وسائل سے مالا مال عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ سیاسی اورعسکری اتحاد ہی نہیں، بلکہ شرق و غرب پورے عالم اسلام کا وسیع تر اتحاد لازم ٹھہرا ہے۔
خطے میں دائمی امن کیلئے ایران کی بڑھتی ہوئی مہم جوئیاں مسلسل خطرہ ہیں۔ امریکی معاشقے کے نشہ میں خوش مست ایران ان حقائق کو نظر انداز کر رہا ہے کہ جہاں سعودی عرب پورے عالم اسلام کیلئے ایک مذہبی تقدس، عقیدت اور نظریاتی وابستگی کا مرکز ہے۔ وہاں ترکی اڑھائی سو ایف سولہ طیارے رکھنے والی فضائیہ، جدید ترین اسلحہ سے لیس تباہ کن بری فوج اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی بحریہ رکھنے والی انتہائی طاقتور عسکری قوت ہے۔
پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور خلیجی عرب ممالک کو مستقبل میں انتہائی محتاط رہنا ہو گا کہ اصفہان کی یہودی کمیونٹی کی سرپرستی اور یہودی شہیدوں کے مقبرے تعمیر کرنے والے ایران اور استنبول و انقرہ کی امیر ترین یہودی تاجر برادری کے مابین خفیہ روابط و اشتراک کی رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں۔ اور ادھر آج پھر صدائے اقبال عالم اسلام کے کوبہ کو، سو بہ سو و در بہ در گونج رہی ہے کہ ۔ ۔
فاروق درویش ۔۔ 00923224061000
اس حوالے سے تاریخ پر مبنی میرے اس کالم کا ضرور مطالعہ کیجئیے
جاوید چوہدری کے جواب میں ” کافر کی ہو گدا تو فقیری بھی کافری”۔۔