مشرق و مغرب

پاکستان میں کم عمری میں شادیاں اور گورے دیس کے جلتے ناسور

غربت و افلاس کے باوجود اسلامی اقدار اور مشرقی حیا کے زیور کے آراستہ بچیوں کا پاکستانی معاشرہ ، امریکہ اور مغرب کے "مہذب معاشروں " سے لاکھوں درجہ بہتر ہے


 برطانوی میڈیا اور حکمرانوں کو اپنی لاڈلی  ملالہ جی کی طرح پاکستانی تعلیمی حالات کی بڑی فکر رہتی ہے۔ گذشتہ برسوں  سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس ” تعلیم کا نامکمل ایجنڈا ” میں شرکت فرمائی۔ جہاں اس تعلیمی کانفرنس کے کتابی ایجنڈے سے ہٹ کر یہ شتابی شوشہ چھیڑ دیا کہ پاکستان میں “کم عمری کی شادی سے پاک” علاقے بنائے جائیں گے۔  بچیوں کو زبردستی شادی پر مجبور کرنا ” جدید دنیا میں قابلِ قبول نہیں ہے” کیونکہ اس سے لڑکیاں اپنی تعلیم اور بچپن کھو بیٹھتی ہیں۔

جبکہ دوسری طرف    انہی برطانوی گوروں  اور امریکی سفیر کیمرون منٹر نے   بیکن ہاؤس سکول  کی مالکہ فوزیہ قصور ی کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں   سکول کے  طلبا اور طالبات کیلئے ہم جنس پرستی کا سیمینار کروا دیا۔ کیونکہ مغربی تہذیب کے گوروں   کے مطابق  ہم جنس پرستی  کے فروغ سے بچیوں کی تعلیم اور جوانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اور اسی  تہذیبی    حملہ آور مشن کیلئے انہوں نے برطانیہ میں ہم جنس پرستی کی کمپین  کرنے اور    پارلیمنٹ  میں ووٹ دینے والے ایک    آلہ کار چوہدری سرور کو پنجاب میں گورنر بنوا کر بٹھایا  ہے۔

ان کے لفظ ” قابل قبول ” پر میں انہیں ان کی ” جدید دنیا ” کی یہ ” قابل قبول ” روایات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ کہ مغربی معاشرے میں ، اگر پندرہ سولہ سال کی لڑکی کا بوائے فرینڈ نہ ہو تو پر اسے  غیر معمولی  اور پریشان کن سمجھا جاتا ہے۔  بوائے فرینڈ کے بغیر لڑکی کے ماں باپ کو اس کی صحت کے حوالے سے یہ خدشات لاحق ہوتے ہیں کہ بیٹی میں کیا کمی  ہے کہ  اس نے ابھی تک  کوئی بوائے فرینڈ ہی نہیں بنایا۔ کیا مغرب کی غیرت کیلئے یہ حقائق “قابل قبول ” ہیں کہ ان کے معاشرے میں چالیس فیصد ٹین ایجر لڑکیوں کے بوائے فرینڈ ان کی عمر سے چار گنا بڑے بڈھے یا نیم بڈھے ہوتے ہیں۔

گورے حکمرانوں کو فاروق  درویش کا مشورہ ” اول خویش بعد درویش ” کا ہے۔  وہ پاکستانی بچیوں کے خیرخواہ بننے سے پہلے اپنے ملک کی کم عمر بچیوں کی  بدحالی کی حالت زار پر توجہ دیں۔ میں انہیں برطانیہ ہی کے سرکاری اعداد و شمار یاد دلاتا ہوں۔ جن کے مطابق ہر سال تین ہزار سے زائد کم عمر بچیاں اپنے ہم جماعت ساتھی بچوں کی طرف سے  ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اور اس جرم کی پاداش میں پانچ ہزار سے زائد ” معصوم گورے بچے” سکولوں سے نکال دیے جاتے ہیں۔ 

 برطانیہ میں روز اوسطا پندرہ کم عمر بچیاں تشدد کا نشانہ بن  کر عزت لٹوا دیتی ہیں  اور بیس کے قریب بچوں کو   اسی غیر اخلاقی  عادت  اور بے راہ روی کے نتیجے میں اسکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ اور اس تعداد میں سے کم از کم دو تین کا تعلق لازمی پرائمری اسکول سے ہوتا ہے۔ ان کے مہذب دیس کی انگنت کم عمر طالبائیں اپنے ہی اساتذہ کی  درندگی کا شکار ہو کر” قابل قبول” بن جاتی ہیں۔

  پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ ماضی و حال میں اقوام متحدہ  کی طرف سے ملنے والی امدادیں کن بڑی توندوں کے دوزخ میں ہضم ہو جاتی ہیں۔ امدادی پیکج  کی صورت میں دراصل سیاسی رشوت اورمغربی آلہ کار این جی  کے غیر ملکی اکاؤنٹوں میں پہنچ جاتی ہے۔  برطانوی وزیراعظم  نے مزید کہا کہ پاکستان میں ایسے گروہ ہیں جو چاہتے ہیں کہ بچوں کی فروخت کر کے کم عمری میں شادی کروانے کے عمل کو آسان بنایا جائے، جو قابلِ قبول نہیں ہے۔

احباب پاکستان میں غربت اور افلاس کے ستائے ہوئے معاشرے میں کم عمری کی شادیاں ماں باپ کی مالی مجبوری کا نتیجہ ہوتی ہیں۔  ایسی ہی مجبوریوں کے باعث پاکستان میں دس فیصد کے قریب ایسی شادیاں ہوتی ہیں جہاں لڑکی کو اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی رخصت کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اعتراضات اٹھانے والے عریاں گوروں کے معاشرے میں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والی نوے فیصد ” قابل قبول ” لڑکیاں، کئی بوائے فرینڈز سے مونہہ کالا کر چکی ہوتی ہیں۔

میرا ذاتی موقف ہے کہ بچی کی شادی سے  اس وقت تک  گریز کرنا چاہئے کہ جب تک وہ صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی طور پر مکمل بالغ  ہو کر  اپنی اولاد کی تعلیمی و اخلاقی تربیت کرنے والی ایک اچھی ماں بننے کیلئے تیار نہ ہوں۔ بچیوں کی شادی سے پہلے ان کی تعلیمی تریبت کے ساتھ ساتھ  ان کی خانہ داری اور ذہنی تربیت بھی اشد ضروری ہے ۔ مگر  میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا برطانوی تاجداراس بات سے بے خبر ہیں کہ آج بھی اندرون سندھ کے سکولوں میں ملک میں تعلیم کا نام نہاد انقلاب برپا کرنے کی داعی سیاسی جماعتوں کے وڈیروں کی بھینسیں بندھی ہیں اور “طالب علم” مویشیوں کی خوراک ڈھوتے ہیں۔

برطانوی خیرخواہ پاکستانی قوم سے  مخلص ہیں تو شمالی پنجاب اور اندرون سندھ کے  میں گائے بھینسوں کے باڑے بنے ان سکولوں کی بازیابی کیوں نہیں کرواتے جو   وڈیروں کے قبضوں  میں ہیں۔ یہ کھلی  منافقت ہے  کہ ایک طرف تعلیم کے نام پر ملالہ سے میڈونا تک سب  فتنے ہم آواز ہیں، پورا یورپ  دسویں صلیبی جنگ میں عالم اسلام کیخلاف برسر پیکار ہے مگر دوسری طرف مظلوم سندھی اور بلوچی مزارعوں کے سکولوں پر قابض جاگیر دار اور وڈیرا مافیہ ان گوروں کا آلہ کار ہے۔

لہذا پاکستانی معاشرے کے ہمدردبننے سے قبل اپنے برطانیہ کی یہ پراگندا تصویر بھی پیش نظر رکھیں۔ کہ برطانوی بچوں کی فلاح و بہبود کی  تنظیموں کی  رپورٹس  کے مطابق  وہاں عریاں  جرائم کا سب سے بڑا سبب کم عمر بچوں کا انٹرنیٹ پر  پراگندا سائٹس کی یاترا ہے، جس کی وجہ سے پرائمری اسکولوں کے بچے بھی اپنے ساتھیوں کے   غیر اخلاقی   تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔

برطانوی این جی اوز کے مطابق بچوں کی بے لگام انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کی وجہ سے ان کے اندر  تشدد کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل یونین آف ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے کاروباری اداروں نے اپنے کاروبار کو توسیع دینے کے لئے بچوں کیلئے بنائے گئے پنسل باکس اور دوسری اشیا کو پلے بوائے کی   غیر اخلاقی   علامات کے ڈیزائینوں میں ڈھال کر بچوں میں مقبول بنایا ہے۔ بچوں کی تعلیمی پراڈکٹس پر ڈانسر لڑکیوں کو طاقتور دکھایا گیا ہے۔

ان شہوت انگیزیوں سے برطانیہ کے نو عمر طبقے میں ایک خطرناک جنونی کلچرنے جنم لیا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ گذشتہ سال تین ہزار سے زائد بچوں کو  غیر اخلاقی  اشتعال کی حرکات کے الزامات پر اسکولوں سے خارج کیا گیا ہے ۔ اس تعداد میں دس فیصد بچوں کا تعلق کم عمر بچوں کے پرائمری اسکولوں سے تھا۔   غیر اخلاقی   تشدد میں ملوث جن بچوں کو سکولوں سے خارج کیا گیا ہے ، ان کا طرزعمل انتہائی ناقابل برداشت ہوگیا تھا وگرنہ ایک بڑی تعداد کو تو صرف تنبیہ کے بعد چھوڑ دیا گیا ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکنڈری اسکولوں کے تیس فیصد اور پرائمری اسکولوں کے گیارہ فیصد اساتذہ کو اس امر کا علم ہوتا ہے کہ ان کے اسکولوں میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ گورے حکمران پاکستانی معاشرے کے  رسوم  و رواج کی بجائے برطانیہ کی تیس فیصد کم عمر بچیوں اور ان کے بنا شادی  پیدا ہونے والے ان ناجائز بچوں کے مسقتبل کی فکر کریں جو صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ پورے مغربی معاشرے کے گورے چہرے  پر کالا سیاہ دھبہ بن کر چمک رہے ہیں۔

 غربت  کے باوجود پاکستانی معاشرہ ان کے “مہذب معاشرے ” سے بدرجہ بہتر ہے۔ یہ الگ موضوع بحث ہے کہ  پاکستان میں   سڑکوں پر کسی ڈکیٹی  اور گولی  کا خطرہ  یا  اسٹریٹ کرائم تو ہیں۔ مگر صد شکر یہاں کم عمر بچے، بچیاں اورعورتیں اس معاشرتی اور  غیر اخلاقی  درندگی سے محفوظ ہیں جو برطانیہ سمیت پورے یورپ اور امریکہ کا خاصہ ہے۔

گو کہ بے راہ روی کے اکا دکا کیس یہاں بھی ہیں لیکن یہ معاشرہ گورے معاشروں سے ہزار بہتر ہے۔ یہاں بچوں سے محبت و شفقت اور خواتین  کا احترام باقی ہے۔  مغربی اور پاکستانی معاشرے کا خوبصورت فرق یہ ہے کہ ” مہذب مغرب” کی عورت عمر رسیدہ ہو کر حسنِ جواں سالی کھو دیتی  ہے  تو ٹشو پیپرسمجھ کر مدر ہاؤس اور اولڈ ایج اداروں میں پہنچا دی جاتی ہے۔ جہاں اس کے بچے کبھی کبھار مل کر اپنا مہذب فرض پورا کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی عورت جوں جوں بوڑھی ہوتی ہے، وہ بیٹی سے ماں اور پھر ماں سے نانی اور دادی بن کر خاندان اور معاشرے میں معزز سے معزز تر ہوتی جاتی ہے۔

صد شکر کہ حوا کی بیٹی کیلئے ہمارا معیار احترام مغربی معاشرے کی طرح صرف  حسن اور جنونِ ہوس نہیں بلکہ عورت سے رشتوں کی وہ تقدیس ہے جو اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ وہی گورے ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر بن کر آئے اور پاک و ہند کو غلامی کی ایسی سدا بہار زنجیروں میں جکڑ گیے کہ ہم گذشتہ 73  برس سے آزاد ہو کر بھی غلام ابن غلام ہیں۔

والعصر سے والناس کی تفسیر لکھوں گا : آزادیء غلمان کو زنجیر لکھوں گا

( فاروق درویش – واٹس ایپ –  03224061000)


کشمیر میں عورت پر ریاستی دہشت گردوں کے ظالم پر میری یہ کالم  بھی پڑھیں

قدیم ہندو تہذیب سے مودی تک عورت پر ظلم کی کہانی اور کشمیر میں ریاستی دہشت گردی


Spread the love

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Back to top button