سیکولرازم اور دیسی لبرل
Trending

علامہ اقبال کی عظمت اور صحافت کا ارب پتی مسخرہ حسن نثار

اسلام سے بیزار سیکولر نظریات اور مغرب زدہ طبقات کی نمائندہ صحافت کے میڈیائی ڈان اپنے سیاسی آقا بدلنے میں بھی کمال ماہر ہوتے ہیں

پاکستان میں  عدلیہ آزاد  اور انصاف و  احتساب شفاف ہو تو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ  زرد صحافت  کے گورکھ دھندوں  اور میڈیائی  لارڈز کے ناجائز   اثاثوں کی بھی   منصفانہ  چھان  بین  ممکن  ہو ۔    تا   کہ پتہ چلے کہ   صحافت کے میدان میں اترنے والے  کنگلے   چند سالوں  میں    ارب پتی کیسے بنتے ہیں ۔ اس کی واضع مثال آج  کی  ماڈرن صحافت کے وہ ارب پتی  میڈیائی ڈان    حسن نثار صاحب ہیں جو   بیس  برس پہلے  حامد میر صاحب کے والد وارث میر  مرحوم کا بیگ تھامے   اورسر جھکائے ان کے پیچھے پیچھے   چلا کرتا تھے۔    احتسابی  اداروں پر اس بارے بھی  تحقیقات  واجب ہیں  کہ ایک ٹوٹی پھوٹی  موٹر سائیکل والے  حسن نثار کے پاس آج   اربوں  روپے مالیت  کا  ایکڑوں  میں پھیلا ہوا   عالی شان  محل اور اس  میں   قیمتی جنگلی حیوانات  کا چڑیا گھر  کہاں سے اور کس کاروبار  کی بدولت   آیا  ہے۔ 

قوم قدرتی آفات کا شکار ہو ، ملک میں فتنہ گرعناصر کی شرپسندی ہو یا سیاسی منافرت کا بازار گرم ہو۔ حسن نثار جیسے کچھ بنارسی دانشور ایسے  موقف پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ دل لہو کے گھونٹ پی کر تلملا اٹھتا ہے۔ ان کو اسلامی نظریات اور نظریہء پاکستان سے خدا واسطے کا اس قدر بیر ہے کہ ان کی گفتگو و تحریر کا محور ہمیشہ مسلمانوں کو جاہل اور دہشت گرد ثابت کرنا رہتا ہے۔ ان کے مطابق مسلمان بنی نوع انسان کیلئے زہر قاتل اور مغرب کے امن گرد انسانیت کے حق میں آب حیات و تریاق کا درجہ رکھتے ہیں۔

موصوف کی تحریر و گفتگو میں اکثر اسلام سے بیزار مغربی فلاسفروں کے اصلی یا زیادہ تر خود ساختہ و نقلی حوالہ جات  یا ایسے  ہی کلمات ملتے ہیں کہ کہ فلاں مسلم نے فلاں قتل عام کیا ،فلاں مسلمان خلیفہ نے اتنے معصوم لوگوں کو مارا،  فلاں مسلمان حکمران نے بلا جواز خون کے اتنے دریا بہائے۔ اور اگر دوران گفتگو کوئی موضوع سخن کو مغرب و سامراج کی دہشت گردیوں یا   اسرائیل کی سفاکیت کی دل آزار تاریخ کی جانب موڑنے کی کوشش کرے تو اس  مغربی دلال  کی  آنکھوں میں بلا کا غضب اور بدلتے ہوئے طیور جینا لولو برجیڈا کے کلاسیکل اور کترینہ کیف کے ماڈرن ہوش ربا رقص کے مناظر جیسے قابل دید ہوتے ہیں۔

 بے گناہ کشمیری بھارتی بربریت کا نشانہ بن رہے ہوں یا فلسطینی شہید ہوں، مجال ہے کہ حسن نثار جیسے کسی صاحب نے ان سے  ہمدردی میں ہی کوئی جملہ بھی کہا ہو۔ البتہ اسرائیل کی حمایت میں یہ بیان دیکر وہ  پہلے پاکستانی صحافی کا اعزاز پانے میں ضرور کامیاب ہوئے تھے کہ” اگرغزہ   کے فلسطینی   راکٹ پھینکیں گے تو کیا اسرائیل انہیں پھولوں کے گلدستے بھجوائے گا "۔

لیکن ان کی اسرائیل دوستی کی ٹرین یہی نہیں رکتی خدا جانے کہ شاید  اس دن وہ  نشہ میں ٹُن تھے کہ انہوں نے پاکستان کی بہتری کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت میں اول فول کلمات فرما کر کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کے زخموں پر  مرچیں چھڑک ڈالیں۔ باخدا ان جیسے  مداریوں کو روکا نہ گیا تو کل یہ تھوڑی اور زیادہ پی کر  کشمیر کو بھی بھارت کا اٹوٹ انگ  قرار دینے کی بھی فرمائش کر گذریں گے۔

صحافی  اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وہ  ٹی وی چینل سیٹ ہو یا نجی محفلیں،  یہ صاحب اکثر و بیشتر  شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔ الحمرا آرٹ سینٹر میں ایک تقریب کے دوران  انتہائی نشہ کی حالت میں لمبی تقریر  کے دوران   انہیں تقریر    مختصر کرنے کی درخواست   کے رد عمل میں ،   تقریب کے صاحب ِ صدر اور   نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر  مجید نظامی مرحوم  جیسے  نیک شہرت     صحافی      سے  گالی گلوچ اور فحش کلامی کر نے پر اس سٹیج پر ہی    ایک صحافی  خواجہ فرخ سعید سے بری طرح چھترول بھی    کروا  چکے ہیں۔ یہ مجید نظامی  مرحوم  کا بڑا پن اور اعلی ظرفی  تھی  کہ انہوں نے لوگوں کو  اس  افسوس ناک واقعے  کے بارے  کوئی بھی خبر شائع کرنے سے روک  دیا تھا۔

ان کی تحریر و تقریر گواہ ہے کہ  اکابرین ملت سے لیکر حضرت  اقبال رحمۃ اللہ جیسے مردانِ قلندر تک، شاید ہی کوئی ہستی ان کے  گستاخانہ قلم کے  وار سے محفوظ رہی ہو۔ یو ٹیوب اوردوسرے سوشل میڈیا پر ابھی  وہ ویڈیوز موجود ہیں جن میں موصوف نے حضرت اقبال کے بارے توہین آمیز ہرزہ سرائی کی ہے۔ خود کو نظریہءپاکستان اور اقبال کے مخالفین کا  وفادار ثابت کرنے کیلئے ، اگر انہوں نے اقبال کے بارے یہ کہہ دیا کہ ،   ” اقبال کو شاعر مشرق کہتے ہوئے انہیں شدید کوفت محسوس ہوتی ہے” ۔  خیر  اس سے حضرتِ اقبال کی عزت اور مرتبت  پر تو کوئی اثرنہیں پڑتا لیکن ہاں چاند پر تھوکا سدا مونہہ پر ہی گرتا ہے۔  

کاش وہ کرپٹ   لیڈروں   کی قیمتی  رولیکس  گھڑیوں کا ذکر کرنے سے پہلے خود اپنی کلائی سے کسی گورے سفیر کی طرف سے عنایت کی گئی رولیکس ڈائمنڈ ہی اتار لیا کریں ۔ انہیں یاد رہے  کہ وہ خود بھی اس قدر خوش پوش ہیں کہ ان کا کینالی برانڈ پینٹ کوٹ، ٹائی شرٹ اور  بوٹ جراب کا  پیکج پانچ لاکھ سے کم نہیں بنتا۔ یہ اس قیمتی لباس لباس کا ہی کمال ہے کہ وہ ٹی وی سیٹ کی روشنی میں روشن خیال ہو کر اس سیاہ فام روشنی کی طرف چل نکلتے ہیں جہاں انسان کبھی حضرت اقبال اور کبھی ڈاکٹرعبدالقدیرجیسے روشن مہتابوں پر تھوکنے لگتا ہے۔

اقبال پر طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ” اقبال کیونکہ ”شاعر مشرق “ بلکہ ” شاعر مشرق و مغرب “ ہیں اس لئے پہلے ان کا شعر ہو جائے، الٹنا پلٹنا پلٹ کرجھپٹنا۔ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ یعنی مقصد مرغن غذاوں اور مشروبات پرجھپٹنا وغیرہ نہیں … لہو گرم رکھنے کا تھا اک بہانہ کے بارے میری لاجک یہ ہے کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ لہو ٹھنڈا ہے یا گرم، اصل بات یہ کہ لہو سفید نہیں ہونا چاہئے”۔ میں ان کے لہو کے رنگ و نسل سے تو واقف نہیں ، لیکن اقبال کے اس شعر میں ان کیلئے بڑا گہرا پیغام چھپا ہے کہ ” مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا”۔

حکیم الامت کے بارے ان کے قابل مذمت بیانات اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے بے وزن اشعار کو پڑھ کر احباب پر یہ راز آشکار ہوتا ہے کہ موصوف اقبال کو مشرق کہتے ہوئے شدید کوفت کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں. ظاہر ہے کہ جن کو اکابرین قوم و ملت کے ادب و آداب اور شاعری کی بحر و اوزان ہی کا علم نہ ہو۔ بھلا وہ اقبال جیسے بندہء مومن کے سخنِ اعلی کو کیا سمجھ پائے گا۔

حسن نثار جیسے خودساختہ “صاحب علم” کیلئے علامہ  اقبال جیسے مرد قلندرکی شاعری بھینس کے آگے بین بجانے جیسی ہی ہے۔ الٹا لٹک کر سیدھا دیکھنے کی عالمانہ رائے دینے والے صاحب کی اس "خوبصورت منطق” پرکسی  اخلاقی رائے  یا تبصرے کی ضرورت نہیں کہ "عورت برہنہ بھی گھومے تو کیا فرق پڑتا ہے، اصل پردہ اورشرم و حیا تو آنکھوں میں ہوتی ہے”۔

کسی فرسودہ خیال کو ان کے اس توہین آمیز بیان پر بھی کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ” داڑھی اورامامہ وغیرہ عرب کے کلچراورماحول کی ضرورت ہیں”۔  یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یقینی طور پر وہ ایسے بیانات و کلمات کے ذریعے خود کو اپنے مغربی آقاؤں اور اپنی سرپرست یہودی لابی کی نظر میں سب سے فعال و سرگرم وفادار مہرہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ملازم کیلئے نوکری کا پہلااصول بھی یہی ہے کہ جس کا کھاؤاسی کے گن گاؤ اور اسی کا راگ الاپو۔۔

اربوں روپے مالیت کی  جاگیر نما جائیدادوں  کے احتساب سے مبرا ٹیکس چوری کے مرتکب  حسن نثار صاحب  کو یاد رکھنا ہو گا کہ ابھی تک انہوں نے صرف دو شادیاں ہی کیں ہیں،   مذید دو ابھی باقی ہیں۔ دعا گو ہوں کہ باقی دو بیویوں کے حصول تک ان کی جسمانی و دماغی صحت بحال اور عمر دراز ہو۔ ان کی تھرڈ کلاس  عالمانہ بصارتوں کی نذر میرا اک شعر مکرر۔ ۔ ۔ ۔
شہر آسیب میں کچھ اہلِ نظر بھی ہیں جنہیں
الٹا لٹکے بنا سب سیدھا نظر آتا ہے

( واٹس ایپ ۔ فاروق درویش)
0092332-40610


حس نثار کے جواب میں میرا یہ کالم بھی پڑھیں

سیاہ پوش ساغر صدیقی اور خوش پوش حسن نثار

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button