پرویز رشید میں بولتی اتا ترک کی روح
سامراجی بادشاہ گروں کی طرف سے پاکستان کا وزیر اطلاعات و نشریات کسی ایسے سیکولر و دین دشمن کردار ہی کو نامزد کروایا جاتا رہا ہے۔ جو میڈیا سے اپنے مغربی آقاؤں کی عین منشا کے مطابق کام لے سکے
ماضی میں سابق وفاقی وزیر پرویز رشید کی بیباک روشن خیالیوں پر میرا یہ دیرینہ موقف بارہا درست ثابت ہوا ہے کہ جاوید چوہدری جیسے میڈیا پرسنز اگر اتا ترک کے سیکولر طرز حکومت کی بے ہنگم تعریفیں، ڈاکٹر عبدالسلام جیسے قادیانیوں کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں یا عاصمہ جہانگیر اور پرویز رشید جیسے سیکولر عناصر اسلامی نظریات کیخلاف کھلی ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کا یہ ” کارِ خیر ” بلا مقصد نہیں بلکہ ایک منظم دجالی پروگرام کا حصہ ہوتا ہے ۔ دراصل ضمیر فروش سیاسی کرداروں، نام نہاد دانشوروں اور میڈیا کے ذریعے اسلام دشمن نظریات، سامراجی برانڈ دجالی سوچ اور خلاف مذہب رائے عامہ استوار کرنے کیلئے باقاعدہ ایک پروگرام کے تحت ڈالرز اور بدیسی ذمہ داریاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
عسکری اور حساس قومی اداروں کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے طارق فاطمی جیسے سفارت کار استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہی وہ سب سے خوفناک غیر جنگی ڈاکٹرائن ہے ، جس کے ذریعے مغرب ، یہود اور ہندوتوا کا تکونی اتحاد ہماری نظریاتی اور مذہبی سرحدوں پر حملہ آور ہے۔ کیا کوئی صاحب علم و فضل مسلم لیگی دوست یہ بتائے گا کہ سبکدوش ہونے سے کچھ روز قبل جب پرویز رشید نے اپنی جوشیلی تقریر میں جب یہ کلمات کہے تھے کہ ” ان لوگوں کے ہاتھ میں لاوڈ سپیکر آ چکا ہے اور وہ بھی پانچ وقت کا لاؤڈ سپیکر “، تو اس ” کلماتی دہشت گردی ” کے کیا معانی تھے اور یہ کس پانچ وقتی ” دہشت گرد امر” کی طرف اشارہ تھا ؟
کیا ” پانچ وقت ”باچا خانی لاؤڈ سپیکر چلتا تھا یا ” پانچ وقت” ملا فضل اللہ جیسے سفاک بھارتی دہشت گرد کے سپیکر سے راکٹ لانچرز فائر ہوتے ہیں؟ مگر ہائے صد افسوس اور یہ کافرانہ عالم بدبختی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس سابق وزیر اطلاعات کیلئے بھی ہندوتوا کے خالص بالکے سونو نگم کی طرح پانچ وقت اللہ اکبر کی صدا دینے والی اذان کا لاؤڈ سپیکر تو راکٹ لانچر جیسا ہے ۔ مگر ان سیکولر لوگوں کیلئے ناموس قرآن و شریعت، نظریہء پاکستان اور افواج پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے والی بال ٹھاکری محبوبہ عاصمہ جہانگ کا احمد آباد کے مندروں میں گنٹیاں بجانا عین امن گردی اور روشن خیال فنکاری ہے۔
صد افسوس کہ موصوف کو مسلمانوں کیلئے امن اور سکون کی علامت عبادت الہی ، پنجگانہ نماز بھی دہشت گردی محسوس ہوتی ہے۔ مگر الطاف حسین کا افواج پاکستان کیخلاف بکواسی پروگرام اور را کو مدد کیلئے پکارنے والا لاوڈ سپیکر قابل قبول ہوتا ہے؟ گمان ہوتا ہے کہ پرویز رشید میں اتا ترک جیسے اس یہودی بغل بچے کی روح چیختی ہے، جس نے ترکی میں سیکولر حکومت قائم کرتے ہی، یہودی آقاؤں کے ایما پر اذانوں اور نماز پر پابندی ہی نہیں مساجد کو تالے لگا کر تمام حفاظ قرآن بھی شہید کروا دئے تھے۔
احباب کو یاد دلاتا چلوں کہ سامراج اور بال ٹھاکرائی فکر کی نمائیندہ عاصمہ جہانگیر نے مغرب رسیدہ، افرنگ زدہ اور آوارگیء نسواں کی علمبردارعورتوں کے اسلام آباد سیمینار میں معلم انسانیت اور تاجدارختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو ، معاذ اللہ ” تعلیم سے نابلد” اور” ان پڑھ” کہہ کر خطاب کیا تھا۔ مسلم لیگ کے موجودہ مرکزی لیڈر احسن اقبال صاحب کی والدہ آپا نثار فاظمہ صاحبہ جیسی مسلم ہستی ، اس کے اس شاتمانہ عمل کے بعد اس وقت تک سرگرم رہیں، جب تک توہین رسالت کیخلاف آرٹیکل 295 سی منظور نہیں ہوا ۔۔
لیکن افسوس کہ آج اسی خاتون کے بیٹے احسن اقبال کی جماعت کا ایک لیڈر دینی تعلیم کے اداروں کو جہالت کی نرسریاں اور ان طالب علموں کو جاہل قرار دے رہا ہے مگر مجاہدہ آپا نثار فاطمہ کا مسلم لیگی بیٹا اور ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی اسلامی ریاست قائم کرنے کی نام نہاد داعی حکومت خاموش ہے؟ کیا حکومت اسلام آباد اور کراچی میں سرعام چلنے والے قحبہ خانوں اور شراب گھروں سے لا علم ہے؟ کیا کراچی میں متحدہ کی سرپرستی میں چلنے والے ہم جنس پرستی کے کلب قوم کی اخلاقی اور تہذیبی تباہی و بربادی کی علامت نہیں ہیں؟ کیا آج میڈیا کے بیسیوں چینل عریانی اور فحاشی کی رنگ برنگی نرسریاں نہیں؟
قوم کو بتایا جائے کہ کیا حکومت کی نظر میں تمام دینی ادارے دہشت گردی کے پلیٹ فارم اور مدارس بھارتی برانڈ دھماکہ گروپ ہیں ؟ کیا ارباب اقتدار کی نظروں میں فضل اللہ جیسے دہشت گردوں اور مفتی محمد نعیم جیسے عالموں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ۔ کیا مسلم لیگ نون میں عاصمہ جہانگیری گروہ کے سب سے بڑے پروموٹر پرویز رشید کیلئے منیب الرحمن اور زاہد الراشدی جیسے عالم بھی طالبانی دہشت گرد ہیں؟ ناموس دین کے اس حساس ایشو پر دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث سمیت تمام مسالک کا مثالی اتحاد خوش آئیند ہے۔ آج سب پاکستانی دہشت گردی کیخلاف قومی جنگ میں افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔
قوم کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ اگر کسی دینی مدرسے میں کسی قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے تو اس کا فوری اور آہنی سد باب کیا جائے۔ این جی اوز کیخلاف جاری تحقیقات کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے طرز عمل کا بھی کڑا احتساب اور امدن و اخراجات کا تھرڈ ڈگری آڈٹ کیا جائے۔ پوری قوم کی خواہش ہے دہشت گردی میں ملوث عناصر سے پاکستان کی اس پاک دھرتی کو ہمیشہ کیلئے پاک کر دیا جائے۔
لیکن ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے جو سیاسی دہشت گرد قوم کو مسلکی، گروہی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرنے اور اچھی شہرت کے حامل مدارس کیخلاف مغرب ساختہ پراپیگنڈا پھیلانے کی عالمی سازش کا حصہ ہیں انہیں بھی جیل کی کال کوٹھری یا ان کے پسندیدہ دیش بھارت دھکیل دیا جائے ۔ جو سیاست دان بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے واضع ثبوت کے باوجود بھارت کا نام لینا بھی کفر سمجھتے ہیں ، ان کی بھارت دیش سے درپردہ وفاؤں کی خفیہ کہانیاں منظر عام پر لائی جائیں۔
سورة المومنون میں مذہب کا تمسخر اڑا کر ہولناک مرگ کا شکار ہونے والے گمراہوں کیلئے ارشاد باری ہے کہ ” تم نے دین اور اہل دین کو تمسخر کا نشانہ بنا لیا تھا حتیٰ کہ تم نے میری یاد بھی بھلا دی تھی اور تم ان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھۓ”۔۔۔۔ افسوس صد افسوس کہ وقافی وزیر نے صرف پانچ وقت کی آذان دینے والے لاوڈ سپیکر کا ہی نہیں بلکہ ” موت کا منظر ” کا بھی کھلا مذاق اڑایا ۔ کیا پرویز رشید جیسے اسلام مخالف ان قصص القرآن سے واقف نہیں کہ قوم عاد و ثمود و قوم لوط کے گمراہوں پر عذاب الہی نازل ہونے سے قبل وہ لوگ بھی موت اور مابعد از موت سزا و جزا کا تمسخر اڑاتے تھے۔ مگر جب عذاب الہی سر پر آن پہنچا تو ایک چیخ کی مہلت بھی نہ مل سکی ۔
خدا اور موت بھولنے والے ، اپنی ایک سابقہ ہم منصب پی پی پی کی وزیر اطلاعات فوزیہ وہاب کا ربی انجام ہی یاد رکھیں۔ خیال رہے کہ وہ خاتون بھی اسلامی اقدار اور قرآنی فکر کا بعین انہیں کی طرح مذاق اور تمسخر اڑاتی تھی۔ اور پھر اچانک ایک پراسرار و ہولناک بیماری کا شکار ہو کر ، محض چند ہی دنوں میں عبرت ناک انجام کو پہنچ کرسارے زمانے کو قدرت کے غیبی انتقام کی جو گہری حقیقت سمجھا گئی ، پرویز رشید کو تا دم مرگ اس “قال اللہ کن فی یکن ” سے چلنے والے موت کے خنجر کے وار کا کبھی ادراک نہیں ہو گا۔ دل سے دعا گو ہوں کہ موصوف کی موت کا منظر مرزا غلام احمق قادیانی یا اسرائیلی وزیر اعظم شیرون جیسا بھیانک نہ ہو۔
یہ امر محض ایک اتفاق نہیں کہ وہ شیخ رشید ہو ،شیریں رحمن ہو ، فوزیہ وہاب ہو یا پرویز رشید، یہ سب لوگ حد سے ماورا ناقدین اسلام ثابت ہوئے ہیں۔ دراصل سامراجی بادشاہ گروں کی طرف سے پاکستان کا وزیر اطلاعات و نشریات کسی ایسے سیکولر و دین دشمن کردار ہی کو نامزد کروایا جاتا رہا ہے۔ جو میڈیا سے اپنے مغربی آقاؤں کی عین منشا کے مطابق کام لے سکے۔ اب یہ میاں نواز شریف صاحب کا قومی و ملی فرض ٹھہرا ہے کہ وہ ہندوتوا کے حواری ایسے گستاخ دین کرداروں کو وزارتیں بانٹنے کی پالیسی ترک کریں ۔
پرویز رشید کو عہدے سے ہٹانا پاکستان میں قیام امن کیلئے کوشاں تمام مسالک دین کے جید و غیر متنازعہ علمائے حق اور نون لیگ کے ہمنواؤں کا پرزور مطالبہ تھا ۔ مسلمانوں کی نظر میں انہوں نے ہمیشہ دینی نظریات کا مذاق ارا کر سنگین ملی و قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ کسی سیاسی شخصیت کی ذات یا حسب معمول مفلسان وطن کا مذاق نہیں بلکہ عادتاً اور فطرتاً دینی عقائد و شعائر اور احکام قرآن و شریعت پر شاتمانہ حملے کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان سے زیادہ بھارتی مفادات کے محافظ یہی پرویز رشید ہی ایک طویل مدت سے افواج پاکستان اور سول حکومت کے مابین اختلافات اور اور حساس عسکری اداروں کیخلاف سیاسی مہم جوئیوں سے لیکر ڈان لیکس میں بھی ایک مشکوک کردار رہے ہیں۔ احباب قابل غور ہے کہ جب بھی کسی نازک وقت میں ، افواج پاکستان اور قوم کی بے پناہ قربانیوں سے ملک میں امن پروان چڑھتا نظر آیا ۔ پرویز رشید جیسے ملک کو انارکی اور بدامنی کی طرف لیجانے کیلئے سامراجی برانڈ شوشا چھوڑتے رہے ہیں۔ لہذا اب حکومت سے پہلے ، وطن کی سلامتی اور قیام امن کیلئے فوجی قیادت کا ملی و قومی فرض ہے کہ ڈان لیکس میں مجرم ثابت ہونے والے حکومتی اہلکاروں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ ایسے امن دشمن فتنہ گر، مذہب مخالف، گستاخانہ اور فتنہ انگیز بیانات برانڈ لوگوں کو وزارتیں اور سفارتیں بانٹنے کے عمل پر کڑی نطر رکھیں۔
قوم کو آنجہانی عاصمہ جہانگیر، فوزیہ قصوری ، حسن نثار، نجم سیٹھی، طارق فاطمی اور پرویز رشید جیسے کردار اور بدیسی کٹھ پتلے کسی بھی صورت قبول نہیں ۔ حکمرانوں کو قوم کے محب الوطن دانشوروں کا مخلصانہ مشورہ ہے کہ عسکری قیادت اور حساس اداروں سے ڈبل گیم کھیلی چھوڑئیے اور پاک فوج کے ازلی و ابدی مخالفین بھارتی ایجنٹ عناصر کو اپنے حلقہء مشاورت سے باہر نکالئے۔ ورنہ قوم اور تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ اسلام کبھی خطرے میں تھا نہ ہو گا لیکن اب آپ کے اقتدار اور عاقبت کو قدرت کی طرف سے شدید خطرات ضرور درپیش ہیں ۔
تحریر : فاروق درویش واٹس ایپ کنٹیکٹ ۔ 00923224061000