ریاست اور سیاستسیکولرازم اور دیسی لبرل

خان صاحب! یہ بھی سلمان رشدی سے کم بدبخت نہیں

بی بی سی پروگرام میں دین اسلام کی سخت توہین اور قرآنی آیات کو گٹار پر بجانے کرنے والا گستاخ قرآن گویا سلمان احمد ، میوزیکل دھرنوں سے آج تک خان صاحب کی نجی زندگی میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ہے

کچھ  برس پہلے کی بات ہے کہ اپنے انقلابی افکار اور سیاسی فیصلوں سے  یو ٹرن  لینے میں  شہرت رکھنے والے  عمران خان صاحب نے پاکستان کا سر اس وقت فخر سے بلند کر دیا تھا. جب انہوں نے بھارت میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت سے صرف اس لئے انکار کر دیا تھا کہ جس کانفرنس میں ملعون گستاخ رسالت برطانوی مصنف سلمان رشدی شریک ہو گا وہ اس میں  ہرگز شرکت نہیں کر سکتے۔ یاد رہے کہ عمران خان کو انڈیا ٹوڈے نامی جریدے کے زیر اہتمام انڈیا کونکلیو ٹوڈے فورم میں سب سے آخر میں کلیدی خطاب کرنا تھا ۔مگرجب انہیں یہ پتہ چلا کہ اس کانفرنس میں ملعون سلمان رشدی بھی خطاب کرے گا تو  بہت  خوشی ہوئی کہ انہوں نےغیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی شرکت منسوخ کردی تھی۔

یہ انہیں دنوں کی بات ہے جب  وہ  پاکستانی سیاست سے لوٹا کریسی اور کرپشن کا کلچر ختم کرنے کیلئے انتہائی پرعزم تھے۔ لیکن   پھر کچھ عرصہ بعد حکومت    بنانے  کیلئے جہاں   سب لوٹے اور کرپشن کنگز کو اپنی جماعت میں شامل نہ کرنے کا جذبہ ٹھنڈا ہو کر "یوٹرن” بن گیا ۔  وہاں  ان کی دینی غیرت کے حوالے سے بھی اس وقت سوال ابھرنا شروع ہوئے جب ان کے سیاسی جلسوں میں انقلاب اور نیا پاکستان کے  نغمے  گانے  والے مشہور سنگر ملعون سلمان احمد کی طرف سے  بی بی سی  کے ایک پروگرام  میں  کھلی توہین اسلام اور گستاخیء قرآن کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں۔ ساری دنیا اس گستاخِ اسلام  کیخلاف  چیختی رہی لیکن  ریاست مدینہ کے زبانی دعویدار  عمران خان صاحب نے  ایک دریدہ دہن   گستاخ دین ، سلمان  احمد کو اپنے جلسوں کے سٹیج    کی زینت بنانے  کا سلسلہ نہ  روکا۔۔

حکومت پاکستان کی طرف سے بین کی گئی یو ٹیوب، دوسری انٹر نیٹ سائٹس، سوشل میڈیا اور فیس بک پر عام ان مصدقہ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک مغربی خاتون دوست دین اسلام اور قرآن حکیم کا انتہائی قابل اعتراض انداز میں مذاق اور تمسخر اڑاتی ہے۔ جس پر اس کا ننگ اسلام دوست، مشہورمیوزیکل بینڈ جنون کا گویا ملعون سلمان احمد یہ کہ رہا ہے کہ” مجھے بڑا عجیب لگتا ہے کہ جب کوئی مسلمان یہ کہتا ہے کہ اسلام ایک امن کا دین ہے ، میرے نزدیک ( ملعون سلمان احمد کے نزدیک) تو اسلام ایک سیکسی دین ہے” نعوذباللہ من ذالک ۔ پھر یہ قصہ اسی توہین اسلام و قرآن پر ختم نہیں ہوا۔  بلکہ اس کے بعد اسی گستاخ   سلمان  احمد کی طرف سے قرآنی آیات کو  میوزک اور   گٹار  پر بجا کر  مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی گئی ۔

.

اسلام کے بارے کھلے گستاخانہ کلمات کی وڈیو ذیل کے اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے

https://www.facebook.com/watch/?v=4575420379687

۔

لیکن انتہائی افسوس کہ عمران  خان صاحب اپنے  جلسوں میں اس ملعون گستاخ قرآن کے میوزک شوز کے ذریعے نئے پاکستان کا پیغام دیتے  رہے ۔  افسوس اور حیرت ہے کہ  وہی  گستاخ   گویا سلمان احمد  دھرنے سے لیکر  آج تک بنی گالہ  میں  خان کی نجی زندگی میں بھی  ان کے ساتھ ساتھ ہے ۔  مگر تحریک انصاف کی مسلمان قیادت اور ورکرز مسلسل خاموش ہیں۔ دل آزاری کی بات یہ ہے کہ عوام کی شدید تنقید اور مذمت کے باوجود یہ گستاخ قرآن و اسلام  23 مارچ کے جلسے میں بھی عمران کے ساتھ  میوزک شو کرنے کیلئے سٹیج پر موجود  تھا ۔ جو اس بات کا کھلا  اشارہ  تھا  کہ عمران خان نے توہین قرآن کے اس مجرم کیخلاف قوم و ملت کا احتجاج  نظرانداز کر دیا ہے۔ شاید عمران خان  بھی اقتدار کی طوالت کیلئے ایک روشن خیال اور  لبرل لیڈر کا لبادہ اوڑھنے کو بہتر سیاسی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔

 اس حوالے سے میرا دیرینہ موقف ہے کہ وہ عمران خان  کی طرف سے ملعون  سلمان احمد جیسے مسخروں   کی توہین قرآن پرخاموشی اور تحریک انصاف کے جلسوں میں اس کی شرکت کا قابل مذمت معاملہ ہو یا مسلم لیگ نون کے ایم این اے ایاز امیر کی طرف سے فتنہء قادیانیت کیخلاف آئین کی اسلامی دفعات ختم کر کے ان کو قادیانیت کی دجالی تبلیغ، مسلمانوں کی طرح مساجد بنانے کی اجازت دینے کی بات ہو۔  یا میاں نواز شریف کی طرف سے "قادیانی بھی ہمارے بھائی ہیں” جیسا خلاف قرآن و اسلام بیان ہو،    یہ  پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ  کے نظریہ پر یقین رکھنے والی پوری  قوم کیلئے  ناقابل برداشت  ہیں۔

ان تمام  گستاخانہ  عوامل  کی اصل وجہ  یہ ہے کہ ہم سب  لوگوں کی حد سے زیادہ شخصیت پرستی،”صرف میرا لیڈر زندہ باد”، ” میرے لیڈر کو سب کچھ معاف” اور” میرا لیڈر نہایا دھویا گھوڑا” جیسی احمقانہ اور  جذباتی روش ہے۔ قابل غور ہے کہ کیا تحریک انصاف کے کسی  کارکن نے  خان صاحب یا اپنی مرکزی قیادت سے یہ استفسار کیا کہ ملعون سلمان احمد جیسا گستاخ اسلام ، گستاخ قرآن تحریک انصاف کے جلسوں میں کیوں شریک ہوتا ہے؟ افسوس کہ یہی گستاخِ اسلام سلمان احمد جب بلاول بھٹو کے بارے غیر اخلاقی بیان دیتا ہے تو  جیالے   کارکن آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن اس کی توہین اسلام پر خاموش رہتے ہیں۔

کیا نون لیگ  والو ں  نے  نواز شریف صاحب سے یہ سوال کیا کہ آپ نے گستاخین قرآن و رسالت زندیق قادیانیوں کو ” ہمارے بھائی ” کہہ کراسلامی نظریات کی خلاف ورزی  کیوں کی ؟ کیا    قاف لیگ کے کسی   ورکر  نے  کبھی چوہدری شجاعت کی محفل مجرہ پرتنقید  کی؟    کیا  کبھی کسی جیالے نے بلاول بھٹو زرداری کی مندر میں پوجا پاٹ میں عملی شرکت  کی مذمت میں  کوئی  لفظ کہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے جذباتی ورکروں سے معذرت کہ ایمانداری سے دیکھا جائے تو تمام سیاست دانوں کے پرستاروں کی اپنے اپنے سیاسی قائدین کے خلافِ اسلام بیانات اور اقدامات پر صرف خاموشی یا  ان کا ڈھٹائی سے احمقانہ دفاع ہی  ان کے  گستاخانہ    بیانات اور   قومی و ملی نظریات و مفادات کیخلاف بے لگام پالیسیوں کی اصل وجہ ہے۔ بلاشبہ ڈھٹائی اور جہالت پر مبنی ہماری یہ دین سے ماورا محبت اور  بری ” سیاسی عادت ” شدید مذمت کے قابل ہے۔

کیا سیاست دانوں کا مذہب صرف حصول اقتدار یا طوالت اقتدار ہے؟ صد افسوس کہ ہمارے سیاست دانوں کا دجالی یقین ہے کہ حصول اقتدار کیلئے سب سے پہلے امریکی سامراج اور مغربی بادشاہ گروں کا پسندیدہ روشن خیال کردار اور لبرل سیاست اپنانا ضروری  ہے ؟۔ صد افسوس کہ ہمارے تمام سیاست دان ایک اللہ سے نہیں،  بلکہ پاکستان میں حکومتیں  بنانے اور گرانے  والے سامراج اور مغربی تاجداروں سے خوف زدہ  ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ  ملائشیا کے عظیم راہنما  مہاتیر محمد نے امریکی خوشنودی اور مغربی روشن خیالی کے مظاہرے سے نہیں  بلکہ ملک دوستی اور انتھک محنت سے اپنی قوم کو اقوام عالم میں حقیقی ترقی پذیر ممالک کی صف میں  باعزت  مقام دلوایا ہے۔ کیا امریکی غلامی کو حصول اقتدار کا اصل ذریعہ و طاقت سمجھنے والوں کیلئے  وینزو یلا  کے لیڈر آنجہانی ہوگو شاویز کی زندہ مثال کافی نہیں ہے ؟۔ 

آئیے آج ایک عہد کریں۔ خواہ ہمارا سیاسی تعلق مسلم لیگ قاف سے ہے یا نون سے۔ ہم الطاف حسین کے پرستار ہیں یا باچا خان کے پیروکار، ہم عمران خان کو اپنا نجات دہندہ مانتے ہیں یا زرداری ہمارا محبوب لیڈر ہے۔ ہم اپنے یا کسی بھی رہنما کے ہر  غیر اسلامی اور  ہر ملک دشمن قول و فعل کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے رہیں گے کہ یہی زندہ قوموں کی نشانی اور سیاست دانوں کی اصلاح کا بہترین طریق ہے۔  

ہماری ملی اور دینی غیرت زندہ رہی تو تحریک انصاف کے  ملعون سلمان احمد جیسے سب ننگ آدم ، ڈوم میراثی ہمیشہ ناکام و نامراد ٹھہریں گے ۔  انتہائی قابل مذمت ہے کہ یہ ملعون گستاخ قرآں و اسلام آج  بھی  ہمہ وقت خان صاحب کے ساتھ ساتھ  نظر آتا  ہے ۔ خدارا ! خاں صاحب کا کوئی ایک  پیروکار کوئی ایک سچا مسلمان   خاں صاحب اور تحریک انصاف   کی اعلی قیادت  کی سوئی ہوئی مذہبی اور ملی غیرت جگا دے۔

ذیل میں ملعون سلمان احمد کی توہین اسلام و قرآن کے ویڈیو لنکس دئے جا رہے ہیں، دیکھنے کیلئے لنک پر کلک کیجیے

سلمان  احمد  بی  بی  سی  کے  غیر مسلم دوستوں کے ساتھ  دین  اسلام اور قرآن پاک کا مذاق اڑا رہا ہے

 

سلمان احمد  بھارتی    صحافی  کے  بی بی سی پروگرام  میں جہاد کیخلاف امریکی نظریات اور بھارت سے دوستی کا پرچار کرتے ہوئے

https://www.youtube.com/watch?v=n_xm9P459Qs

 

فاروق درویش ۔ واٹس ایپ ۔ 00923224061000


پاکستانی جے ایف 17 کی کامیابی کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

گلوبل ڈیفنس مارکیٹ میں پاکستانی جے ایف ۔ 17 نے انڈین تیجاس کو شکست دے دی

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

2 Comments

  1. پاکستان میں الکشن کا طریقہ کار سرار غلط ہے
    ۲ ارب سرکاری اور ۵۰ ارب امیدوار خرچ کرتے ہیں
    دوران الکشن لوگوں کا مارے جانا اور زخمی ہونا دیگر نقصانات بھی ہوتے ہیں
    بہتر ہے کے متناسب الکشن کرائے جانے کا سیسٹم رائج کیا جائے
    دو یا تین سیاسی پارٹیاں ہونی چاہیں سیاسی جمعہ بازار بند کیئے جائیں
    تمام انتہاں پسند لسانی سیاسی مذہبی پارٹیوں اور تنظیموں کو ختم کیا جائے مہذب پڑھے لکھے معاشرے کے طرز پر جینا سیکھا جائے کمپیوٹراز الکشن ہونے چاہیے پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھنس والے الکشن ہوتے ہیں شفاف الکشن کا تصور فضول ہے
    کیونکہ الکشن کمیشن تو اپنی سی کوشیش کرتا ہے مگر جس امیدوار یا پارٹی کا جس شہر
    یا حلقے میں اثرو اسوخ یا طاقت ہو تی ہے وہ دھڑلے سے دھاندلی کرتا ہے اور وہاں عملہ اور پولیس سب بے بس ہوجاتے ہیں ۔۔ جاگیردار سردار وڈیرے اور سیاست کی دنیا
    کے ڈان سب کچھ کرگزرتے ہیں پاکستان میں ۴۰ فیصد ووٹ کا جائز یا ناجائز استعمال ہوتا ہے ۶۰ فیصد ووٹ ڈالتے ہی نہیں ایسی صورت میں ہمیشہ اقلیت اکثریت پر جبری حکومت کرتی ہے ۔۔۔ یہ رائے صوبے بناو تحریک پاکستان کے چیئرمین عزیز قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button