ریاست اور سیاستسیکولرازم اور دیسی لبرل

ہم جنس پرست ہندو وزیروں سے دو رنگی عامر خان تک

دو قومی نظریہ کے خالق مسلم راہنما دراصل ہندوتوا کی مکاریوں اور غداریوں کی طویل ہسٹری سے بڑے باخبر تھے


بھارتی اداکار عامر خان کو مولانا طارق جمیل کے ساتھ ملاقاتوں اور پاکستان کے بارے خوش کلامی کے جرم کی پاداش میں ہندوتوا کے طرف سے نفرت آمیز سلوک اور جان و مال کو خطرات لاحق رہے ہیں۔  بھارتی  ہندو مہاسبھا  کہتی ہے کہ عامر اور شاہ رخ جیسوں  کے  سر چوراہے پر ٹانگ دینے چاہئیں ۔   گاندھی ،  بال ٹھاکرے اور نریندرا مودی کے  سیکولر ہندوستان کا منافرت آلودہ چہرہ ایک  بھیانک  تصویر ہے۔ آج اکبر بادشاہ اور ملکہ جودھا بائی کی روحیں بھی تڑپ رہی ہوں گی کہ اب بھارت کی زمین ان کے شاہکار دین اکبری کے پیروکاروں کیلئے بھی تنگ  ہے۔ اب شاہ رخ خان جیسا نیم جوگیا نیم سبز مسلمان بھی اپنے گھر میں مندر بنانے کے باوجود قابل نفرت ہے۔ 

کسی مسلمان کا ہندو سکھ یا پارسی سے شادی کرنا   گناہ کاری کے ضمرے میں آتا ہے۔ عامر خان اور شاہ رخ خان کے بعد جلد ہی  ہندو اور سکھ مٹیاروں کے  شوہروں نصیر الدین شاہ اور  سیف علی خان جیسے دوسرے مسلمانوں  پر بھی  یہ  حقیقت کھلنے والی  ہے کہ بھارتی مسلمان  سیکولر شادیوں کے بھیس میں قانونی زناکاری کے مرتکب ہو کر    بھی  ہندوتوا کی نظر میں پلید ہی رہیں گے۔ لیکن ہاں خواہ ممبئی  یا کشمیر میں کوئی  معصوم بچی جنسی درندگی کا شکار ہو,  معاشرتی اور معاشی ناانصافی کیخلاف آواز اٹھانے والوں کے مونہ کالے کئے جائیں، یا بال ٹھاکری   دہشت گرد  غنڈے مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام کریں،   بھارتی  جمہور کو قطعی کوئی خطرہ ہیں۔

عملی طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ قوانین قدرت کے باغی سیکولرازم کا مطلب دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا اور انجام نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ہے۔ بھارتی گلوکار ابھیجیت بھتا چاریہ نے اسلامی  معاشرت کے بارے توہین آمیز رویہ اپناتے ہوئے یہاں تک کہا   تھا  کہ عامر خان کی بیوی کو چاہئے کہ وہ اباعہ پہن کر سعودی عرب چلی جائے تاکہ اس کے بچے گردنیں اڑتی اور پھانسیاں لگتی دیکھ کر جوان ہوں۔ لیکن   ہندوتوا  کو یاد رہے کہ  سعودی عرب  اور دیگر مسلم ممالک میں قانون اور انسانیت کا احترام و تحفظ بحرحال موجود ہے۔

 مغربی تہذیب کے مقلد بھارتی معاشرہ  میں نہ کم سن لڑکیوں کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی  مسلمانوں کی جان و مال کو تحفظ حاصل ہے۔ گو کہ سیکس ہاؤسز  وائن ٹانک اور  تمام  منشیات بھارت  میں بھی عام و سرعام ہیں۔ لیکن ابھیجیت بھٹا چاریہ کو میرا مشورہ یہی ہے کہ وہ ہالینڈ ، امریکہ یا کینیڈا جیسے اس ولائتی ملک میں شفٹ ہو جائے جہاں اس کی بیوی ، بہن اور بیٹی کو آزادانہ جنسی ماحول اور شراب خانے دستیاب ہوں۔

دوسری طرف ممتاز کالم نگار اینکر نصرت جاوید نے  ٹیپو سلطان کی طرف سے ہندو وزراء کی تعیناتی کو بہترین حکمت علمی قرار دیتے ہوئے پاکستان میں ہندوؤں کو کلیدی عہدے دینے کی پالیسی اپنانے کی دبی خواہش کا اظہار  کرتے  ہیں ۔ نصرت جاوید نے لکھا  کہ،  ” ٹیپو کا وزیراعظم ہمیشہ ایک ہندو رہا اور اس کی انتظامیہ میں مالیہ کے معاملات زیادہ تر برہمن ہی دیکھتے رہے۔ آج کے دور میں ”مسلم اْمہ“ کے نام پر نعرے بازی کرنے والے تو بہت ہیں مگر ٹیپو سلطان جیسا کوئی ایک حکمران نظر نہیں آرہا جو  21ویں صدی  کے تقاضوں کو  سمجھتے ہوئے ہمیں ایک بہتر اور مستحکم مستقبل کی طرف لے جاسکے ” ۔

نصرت صاحب سے عرض ہے کہ بلا شبہ ٹیپو سلطان ایک مرد مومن اور زیرک حکمران تھا ۔ اس نے ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ  ہمیشہ رواداری  کا مظاہرہ  کیا ، لیکن  ٹیپو سلطان نے ہندوؤں کو کلیدی عہدے اور وزارتیں دیکر  جن سانپوں کو دودھ پلایا، انہی نے اسے جان لیوا ڈنگ بھی مارا ۔ نصرت جاوید   اپنے تاریخی نالج کی تصحیح کریں کہ سلطان ٹیپو کی شکست اور شہادت کے ذمہ داروں میں  میر صادق کا ساتھی ہندو وزیر پورنیا اور دوسرے ہندو اہلکار  تھے۔

سلطان کی ہندوؤں کو وزیر بنانے کی پالیسی نے اس مملکت خداداد میسور کا بوریا بستر گول کر دیا۔ ہم امن پسند مسلمان  دوسرے مذاہب سے اخلاقی رواداری اور ان کی جان و مال کے تحفظ کیلئے ریاستی اور عوامی کاوشوں کے قائل ہیں۔ لیکن ان ہندوؤں نے انہیں کلیدی عہدے اور محبتیں دینے والوں کے ساتھ کیا کیا سفاکانہ و غدارانہ سلوک کیا اس کا احوال تاریخ کے ان چند حقائق سے عیاں ہے۔

ہندو نواز علاؤ الدین خلجی نے اپنے چچا کو قتل کر کے تخت پر قبضہ کیا، دین کی راہ سے بھٹک کر نیا دین بنانے اور پیغمبری کا دعوی کرنے کا سوچا،  ہم جنس پرستی  میں غرق ہوا،  اپنے ہم جنس پرست ہندو ملک کافور کو وزیر بنایا اور پھر اسی کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس ہندو وزیر نے سلطان کے پورے خاندان کا بھی سفاکانہ قتل کیا۔ پھر  سلطان قطب مبارک شاہ بادشاہ بنا تو اس کٹر ہندو نواز نے اپنے سارے بھائی قتل کروا کر ایک خوبرو ہندو لونڈے  خسرو خان کو اپنا وزیر مقرر کیا۔  تو اسی ہندو وزیر نے غداری سے اس کا قتل کر دیا۔  اس خسرو اور اس کے ہندو عزیزوں نے شاہی حرم میں سلطان کی بیوی اور دوسری خواتین کی عزتیں لوٹیں ، پورے خاندان کے قتل  کے بعد تخت پر قبضہ کیا  اور محل میں بت پرستی شروع کر دی۔

تاریخ فیروز شاہی گواہ ہے کہ ہندو امراء  قرآن مجید کے نسخوں کو کرسیاں بنا دیا  اور محل کے  محرابوں میں بت رکھ کر پوجا ہونے لگی ۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ خسرو خان  نے بادشاہ بن کر ہندوؤں کو اعلی عہدوں سے نوازا اور گائے کے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ خسرو نے بیشتر مسلمان امرا کو دولت کے بل بوتے اپنا ساتھی بنا لیا تھا ۔ مگر مقتول سلطان قطب فیروز شاہ کے ایک امیر غازی ملک نے بغاوت کی اور  خسرو کو  ٹھیک اسی مقام پر لیجا کر قتل کیا جہاں اس نے اپنے محسن سلطان کا  قتل کیا تھا۔

اسی غازی ملک نے غیاث الدین تغلق کے نام سے تغلق سلطنت کی بنیاد رکھی۔ لیکن افسوس کہ یہ بادشاہ  اپنے ہی بیٹے جونا خان کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ اور  وہ  بیٹا ،  محمد شاہ تغلق کے لقب سے بادشاہ بن گیا۔ باپ  کا قاتل بیٹا محمد شاہ تغلق دراصل  ہندوؤں کے اشاروں پر چلنے والا ایک  احمق تھا۔ معمولی باتوں پر قتل ناحق کی بدترین مثال یہ کہ، اس نے نو لوگوں کو صرف  با جماعت نماز نہ پڑھنے کے جرم میں قتل کر دیا۔

شیخ شہاب الدین خراسانی  جیسے جید عالم کو ذاتی خدمت سے انکار کرنے پر ڈاڑھی نوچ کر قید میں ڈال دیا ۔ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا قول واپس لیں۔ انہوں نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ایک ظالم  کیخلاف کلمہء حق ادا کر کے شہیدوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے کھانا بھجوایا تو انہوں نے ٹھکرا دیا ۔ بادشاہ نے ہندو ملازمین کو حکم دیا کہ شیخ صاحب کو زبردستی گوبر کھلایا جائے۔ ان ہندوؤں نے اس درویش کو زبردستی گوبر کھلایا اور مزاحمت کرنے پر سر قلم کر دیا۔

بادشاہ کے ظلم و ستم سے اکتائے ہوئے عوام رقعے لکھ کر لفافے پر لکھتے کہ بادشاہ کے سر کی قسم کہ بادشاہ کے سوا   کوئی  ان کو نہ کھولے۔ بادشاہ ان خطوں کو کھولتا، تو ان میں عریاں گالیاں  ہوتیں۔  بادشاہ نے سزا دینے کیلیے پوری دہلی کو بے گھر کیا اور حکم دیا کہ نئے  شہر دولت آباد چلے جائیں ۔ ابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے حکم دیا کہ پورے شہر کی تلاشی لی جائے۔ ایک گلی میں ایک اندھا اور دوسرا لولا شخص ملا تو  بادشاہ نے لولے کو منجنیق سے اڑا دیا اور اندھے  کو  دہلی سے دولت آباد تک گھسیٹ کر لے جایا  گیا ۔ اپنے بھانجے بہاؤالدین گشتاسپ کی بغاوت  کے جرم میں زندہ کھال کھنچوا کر،  چاولوں میں پکوا کر اس کے بیوی بچوں کو زبردستی کھلایا گیا۔

تاریخ فرشتہ کہتی ہے کہ ، اس کا اعمالنامہ سیاہ ہے۔ تاریخ فیروز شاہی  کے مطابق  ایک طرف محمد شاہ تغلق  نے ہندوؤں  کو اعلی مرتبے دیے۔ ایک گویے نجیا کو ملتان، گجرات اور بدایوں کے صوبے، عزیز کمہار ، فیروز حجام ، منکا باورچی اور لدھا مالی کو اعلیٰ عہدے نوازے۔  ہندو نواز غلام  فلسفی علیم الدین کے ایما پر اہل سنت عقیدے اور  احادیث کی شدید خلاف ورزی کی اور  قتل جیسے سنگین جرم کو بھی اپنے لیے جائز سمجھنے لگا ۔ نماز عیدین اور  نماز جمعہ کی ممانعت کر دی گئی۔  اور پھر بالآخر امیر تیمور اللہ کا قہر بن کر دہلی پر نازل ہوا ۔

دورِ تغلق شاہ سے تیمور کے حملے تک دس سالوں میں ہندوؤں کی سازشوں اور فتنہ گری کے باعث ہندوستان میں طوائف الملوکی کا دور رہا۔ اس دوران چھ مسلم بادشاہوں میں زیادہ تر قتل ہو گئے،  چاروں طرف بغاوتیں پھیلیں تو عوام الناس نے شہر چھوڑ کر بیابانوں کا رخ کر لیا۔ اس دور میں ہندو امراء کے زیر اثر مسلمان بادشاہوں کو عوام اور خاص طور پر اپنی مسلم رعایا کے مفاد سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ تاریخ فرشتہ گواہ ہے کہ دہلی میں ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے تخریبی انقلاب آچکا تھا، سلطنت کا استحکام ختم ہو کر چاروں طرف بغاوت و سرکشی کا ماحول تھا اورعیار ہندو  فتنے  بیدار کرنے میں لگے  تھے۔

تاریخ سے بے بہرہ نصرت جاوید جیسے تمام دانشور حضرات کو خبر ہو کہ وہ ہندوؤں سے روادارانہ سلوک کرنے اور انہیں وزرا ء بنانے والا  سلطان ٹیپو ہو یا ہندو لونڈوں کے عشق میں پاگل  وزارتیں بانٹنے والے خلجی و تغلق ہم جنس پرست حکمران، ہندو سانپوں کو پالنے والوں  نے ان سے ہمیشہ ڈنگ ہی کھایا ہے۔ اور یقیناً دو قومی نظریہ کے خالق مسلم قائدین، اس  ہندوتوا  کی مکاری و عیاری اور غداریوں کی طویل ہسٹری سے بڑے باخبر تھے۔تب پاکستان اشد ضروری تھا آج  ہندوتوا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ  کیخلاف   عرب و عجم کے مسلمانوں کا وسیع تر اتحاد وقت کی آواز ہے۔

فاروق درویش ۔۔۔ واٹس ایپ ۔۔۔ 03224061000


سیکولر اور لبرل حضرات کے نظریات کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

دیسی لبرلز اور بدیسی سیکولرز کا گورکھ دھندا


Spread the love

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

Leave a Reply

Back to top button