احمد فراز اور دیسی لبرلز مسلمانوں کی ایرانی محبوبہ
پیکرِ حسن و جمال ایرانی شاعرہ قراۃ العین طاہرہ نے خدائی کا دعویٰ کرنے والے ایک جھوٹے نبی اور جعلی امام مہدی کے عشق میں اپنی جان قربان کر دی۔ اور دنیا کے تمام سیکولر اور لادینی طبقات کی آئیڈیل بن گئی
میں گورنمنٹ کالج لاہور میں اپنے زمانہ طالب علمی کے اس افسوس ناک واقعہ کا عینی گواہ ہوں ۔ یہ دسمبر 77ء کی بات ہے کہ جب طلبا نے بخاری آڈیٹوریم میں ادبی تقریب کے مہمان خصوصی شہرہ آفاق شاعر احمد فراز کے سر پر اپنی این سی سی وردی کے فوجی بوٹ برسا دیے۔ انہوں نے کمال ہوشیاری دکھائی اور فوری نعت ِ رسول پڑھنی شروع کر دی۔ نعت کے احترام میں چھترول رکی تو کچھ سٹوڈنٹ نے پمفلٹ بانٹنے شروع کر دیے۔ فراز صاحب نے صورت حال بھانپتے ہوئے اپنی تقریر سمیٹی اور فوری روانہ ہو گئے۔
دراصل اس پمفلٹ میں ” روزنامہ امروز” میں شائع ہونے والے فراز کے اس دل آزار انٹرویو کا عکس اور گستاخانہ نظریات درج تھے۔ جن میں انتہائی قابلِ اعتراض ان کا یہ بیان تھا کہ ( معاذ اللہ ) ان کے نزدیک فیض احمد فیض کی وہی حیثیت ہے جو مسلمانوں کے نزدیک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ فراز صاحب کے اس متنازعہ بیان سے جڑی ہوئی تلخیوں نے عمر بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور نہ ہی وہ امریکہ میں بیٹھ کر اپنے ایسے نظریات اور انٹی اسلام عناصر کی قصیدہ گوئی سے باز آئے
میں فیض اور فراز کی سخن وری کا بڑا معترف ہوں لیکن بین المذاہب بھائی چارے کے فروغ کے علمبردار یہ سیکولر شعرا و ادیب نا جانے کیوں صرف نظریات اسلام کے ناقدین ہوتے ہیں۔ جبکہ یہی لوگ اسلام سے منحرفین اور مرتد طبقات کے مداح بھی ہیں۔ گویا سیکولرازم تمام مذاہب سبے بھائی چارہ مگر اسلام کیخلاف ہرزہ سرائی کا عقیدہ بن چکا ہے۔ افسوس کہ سیکولرز کے نزدیک منکرین ختم نبوت اور گستاخین قرآن و رسالت سے مراسم ہی بس امن پسندی ہے۔ میرے اس موقف کی گواہ احمد فراز کی طرف سے ایک منکر ختم نبوت مرتد ایرانی شاعرہ قراۃ العین طاہرہ کی قصیدہ گوئی میں لکھی گئی وہ غزل ہے۔ جس میں وہ اس کی مداحی میں ” ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں ” تک لکھتے ہیں ۔
یہ امر اس لئے بھی افسوس ناک ہے کہ فراز صاحب ایک طرف تو نبیء آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و مرتبہ کا موازنہ ( معاذ اللہ ) فیض احمد فیض سے کرتے ہیں اور دوسری طرف کفر کی اس مبلغہ قراۃ العین سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں جو مرتد ہو کر ایک جھوٹے نبی کے عشق اور کفر کے ضدی اظہار پر موت قبول کرتی ہے ۔ مجھے قرآۃ العین طاہرہ کی شاعرانہ عظمتوں سے بھی انکار نہیں لیکن اس کے مرتد ہونے کے بعد مہدی و نبی ہونے کے ایک جھوٹے دعویدار سے وفا میں سزائے موت کو مظلومیت اور عشق قرار دینا مضحکہ خیز شدت پسندی ہے۔
یہ جاننے کیلئے کہ قراۃ العین طاہرہ کون تھی اور کیوں ماری گئی، تاریخ ایران کے کچھ حقائق لکھ رہا ہوں۔ انیسویں صدی کے وسط میں مغربی استعمار کے خلاف تحریکیں ابھرنی شروع ہوئیں تو ان انقلابی رجحانات کو مصلح و مسیحا کے دعووں کیلے ” آئیڈیل ٹائم” سمجھتے ہوئے، امام مہدی ہونے کے کئی جھوٹے دعویدار نمودار ہوئے۔ ایران میں بہائی مذہب کا بانی علی محمد شیرازی ، سوڈان میں محمد احمد المہدی اور ہندوستان میں مرزا قادیانی جیسا انگریز ایجنٹ منظر عام پر آیا ۔ ایران کے علی محمد شیرازی کے پیروکار بڑھے تو اس نے پہلے مہدیت کا دعوی کیا اور پھر اپنی کتاب ” بیان ” میں خود کو نبی قرار دیے دیا۔ قرآن کو منسوخ قرار دیکر اپنی لکھی کتاب ” بیان” کے نئی الہامی کتاب ہونے کا دعوی کر دیا ۔
قراۃ العین طاہرہ کے محبوب اس جھوٹے نبی نے مرزا غلام قادیانی کی طرح پہلے باب پھر امام مہدی، پھر نبی اور پھر اظہار اللہ یعنی خود ہی خدا کا مظہر ہونے کے دعوے کیے۔ اور پھر حسن و چاشنی کے جس پیکر اور شعر و ادب کے جس صنم نے اس جھوٹے نبی کے کفر کی تبلیغ کو اپنا ایمان اور اس کے عشق کو اپنی عبادات و نجات بنا کر مرتد رہ کر جان دینا قبول کیا، شاعروں کی اس محبوب ہستی قرآۃ العین کا اصلی نام زرّین تاج تھا ۔
وہ بچپن ہی سے ذہین و فطین اور علمی مباحثوں میں حصہ لیتی تھی۔ تھوڑے ہی عرصے میں اُس کے خداداد حُسن و دلربائی کے ساتھ اس کی علمی قابلیت کا شہرہ تمام شہرِ قزوین میں عام تھا ۔ ایران کے شعیہ و سنی علما اور عوام کی طرف سے علی محمد شیرازی کے دعویء مہدیت اور عقیدہء ختم نبوت سے کھلے انکار کی شدید مخالفت ہوئی اور اسے اعلانیہ کفر پر سزائے موت دے دی گئی۔
علی محمد شیرازی کی ہلاکت کے بعد قراۃ العین نے اس کے کفر کی تبلیغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اس کی تحریر و تقریر میں وہ جادو تھا کہ لوگ گھنٹوں اس کا بیان سنتے اور حسن کا وہ عالم تھا کہ وہ دورانِ تقریر چہرے سے نقاب اٹھاتی تو لوگ دیوانہ وار کفر کا کلمہ پڑھنے لگتے۔
اس کے غزل میں وہ چاشنی تھی کہ لوگ اس کی غزل سن کر دیوانگی میں رقص اور خود کو اذیت دینے میں سکون محسوس کرتے۔ اس نے بابی مذہب کی تبلیغ کیلئے کربلا کا رخ کیا تو علماء نے حاکمِ وقت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ یہ نوجوان عورت کربلا میں اپنی تقریر کے جادو اور حسنِ دلاویز سے نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہے۔ اس نے بغداد میں اپنی تبلیغ کی اجازت طلب کی مگر سلطنتِ عثمانیہ نے اسے کفر کے فروغ کی اجازت سے انکار کر دیا۔
اس کی جرات کا اندازہ لگائیں کہ وہ شاہِ ایران محمد شاہ کو کفر کی دعوت دینے کیلئے طہران کی طرف چل پڑی مگر اس کے باپ نے اسے جبراً واپس بلایا۔ اُنہیں دنوں ایرانی فوج اور بابیوں میں لڑائی شروع ہوئی۔ جنگ کے اختتام پر اُسے پا بہ زنجیر طہران بھیج دیا گیا۔ بادشاہ کو اس کی حالتِ زار پر رحم اور حسن و جمال پر ترس آیا۔ لہٰذا اُس نے اس جمالِ صوری و معنوی سے آراستہ و پیراستہ اس پری پیکر کو دیکھ کر کہا کہ مجھے اس پر ترس نہیں بلکہ پیار آتا ہے، اسے معاف کر کے رہا کر دو۔ لیکن چونکہ بابیوں اور شاہی افواج میں ابھی تازہ جنگ ہوئی تھی اس لیے اسے احتیاط کے طور پر کوتوالِ شہر محمد خاں کلانتر کی حفاظت میں رکھا گیا ۔ لیکن وہ وہاں بھی بابیوں سے خفیہ تعلقات اور کافرانہ تبلیغ سے باز نہ آئی۔
انہیں دنوں میں بابیوں کی طرف سے شاہ ناصرالدین قاچار پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ بابیوں کی گرفتاریاں ہوئیں مگر وہ اپنے جھوٹے نبی کیلئے ہر دہشت گردی کو جائز اور مرنے کو فخر سمجھتے تھے ۔ کوتوال کو قراۃ العین کو شاہی دربار میں پیش کرنے کا حکم ملا ۔ اس نے قراۃ العین پر شاہی دربار میں حاضر ہو کر اپنے کافرانہ عقائد سے توبہ کا زور دیکر عام معافی کی نوید سنائی۔ مگر اس کا کافرانہ جواب یہ تھا کہ دراصل کل مجھے اپنی اس صداقت کو ثابت کرنے کا موقع ملے گا جو میرے خدا یعنی محمد علی باب کی طرف سے میرے دل میں جلوہ افگن ہے۔ مجھے اپنے مذہب کیلئے اس طرح مرنا دل سے پسند ہے۔ اگر میں تمہاری رائے پر عمل کروں تو بچ جاؤں گی۔ لیکن میں ضمیر کی آزادی قائم رکھنے کے لیے اپنی زندگی قربان کرنا چاہتی ہوں۔
وہ شاہی دربار میں پیش کی گئی تو اس نے دربار میں بھی اپنے کافرانہ عقائد کی تبلیغ شروع کر دی۔ آخر کار اس کی طرف سے کفر کے اصرار پر مجبوراً اس کے قتل کا شرعی فتویٰ دے دیا گیا۔ اور اُس کی لاش باغِ ایلخانی کے کنوئیں میں ڈال کر اوپر سے پتھر بھر دیے گئے۔ اور یوں قرآۃ العین ایک جھوٹے خدا، جھوٹے نبی اور جھوٹے مہدی پر ایمان کے کھلے کفر پر جان قربان کر کے، قادیانیوں، اسلام دشمن قوتوں اور لادین عناصر کی محبوب ہستی بن گئی۔
قدرت نے جہاں اسے بے نظیر علمی قابلیت اور خوبیاں عنایت فرمائی تھیں وہاں اسے جادوئی شاعرانہ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی تھیں۔ لیکن کفر پر مبنی ہونے کے باعث صرف ایک آدھ غزل کے سوا اس کا مکمل کلام تلف کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ علی محمد بابی نے اس کو طاہرہ کا معزز لقب دیکر اس میں سیدۃ النسا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کی روح حلوت ہونے کا دعوی بھی کیا تھا ۔ لہذا بہائی مذہب کے پیروکاروں میں وہ آج بھی اسی نام سے یاد کی جاتی ہے۔
سیکولر جون ایلیا کے والد سید شفیق الحسن ایلیا مسلمان ہونے باوجود قراۃ العین اور اس کے کافرانہ عقیدے سے والہانہ عشق رکھتے تھے۔ انہوں نے اس مرتد کو امام حسن و حسین علیہ السلام سے منسوب کرتے ہوئے جو غزل لکھی اس کا مطلع کچھ یوں ہے۔ "روئے حسن، رخ حسین، جلوہ طراز مشرقین ۔۔ غازہ بہ غازہ ، خط بہ خط، دیدہ بہ دیدہ ، دو بہ دو "۔ اس بات کا جواب ان شعرا کے مداحین ہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے خدائی، نبوت اور مہدیت کے ایک جھوٹے دعویدار محمد علی باب کی کافر پیروکار کو سیدنا حسن و حسین جیسی پاک برگذیدہ ہستیوں سے کیوں منسوب کیا؟
میں ایران سے ایک کفر کی مبلغہ قراۃ العین طاہرہ کی اس کافرانہ جرات پر اسے عظیم ہستی قرار دینے والے سیکولر اور اسلام مخالف عناصر سے اس سوال کا حق رکھتا ہوں کہ اللہ کے وجود کے منکروں آسمانی کتب کے انکاری ، مذہب کی حدود کے باغیوں اور احمد فراز جیسے سیکولر شعرا کو مذہب کی پیروی کے نام سے تو الجھن ہے لیکن عقیدہ ختم نبوت کے باغیوں، مرتدوں اور گستاخِ ِ قرآن و رسالت کرداروں سے والہانہ محبت کے پس پردہ کیا نظریاتی وجوہات، کیا فلسفہ اور کیا دلیل ہے؟
کیا عجب تماشہ ہے کہ اگر کوئی امن پسند مسلمان اپنے عقیدہء حق پر ثابت قدم رہے تو اسے مذہبی شدت پسندی قرار دیا جاتا ہے مگر جو مرتد اپنے کھلے کفر پر بضد قائم رہے وہ سیکولرز کا ہیرو بن جاتا ہے؟
کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب میں زانی اور منشیات فروش کا سر قلم کرنے پر تمام سیکولر قوتیں چیخنا چلانا شروع ہو جاتی ہیں، لیکن برما میں مسلمانوں کی سفاکانہ نسل کشی، مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے قتل عام ، شامی حکومت کی طرف سے بے گناہ مسلمانوں پر کیمیائی گیسوں کے حملوں اوربنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والے سیاست دانوں کو تختہء دار پر لٹکانے پر انسانی حقوق کے علمبردار لبرل روشن خیالوں کی کوئی آواز نہیں اٹھتی؟
فاروق درویش۔ واٹس ایپ کنٹیکٹ : 00923224061000
ہندوتوا کے حامیوں کو تاریخی حوالہ جات پر مبنی جواب کا یہ کالم بھی پڑھیں