سیکولرازم اور دیسی لبرلنظریات و مذاہبِ عالم

میڈونا کے عریاں میوزک پروگراموں سے نوبل پرائز تک

  تازہ ترین  خبروں کے مطابق  ملالہ یوسف زئی نے بغیر نکاح کے اپنی پسند کا مرد ساتھ رکھنے یعنی مغربی تہذیب جیسی آزادی کی حمایت کا پروگرام لانچ کر دیا ہے۔

خیبر سے گوادراورکشمورسے بدین تک کے تمام  بے سکول  معصوم، بے چراغ گھروندوں کے چراغ ،  بے کلاس  سکول اور بے قلم و کتاب بچے اس وقت مبارکباد کے مستحق ٹھہرے تھے جب تمام صلیبی طاقتوں ، فتنہءقادیانیت ، گستاخین قرآن و رسالت اورسرحدی گاندھی باچا خان کےمریدین کی چہیتی، ملالہ یوسف زئی کو دو ہزار بارہ کا بین الاقوامی ٹپریری ایوارڈ برائے امن دیا گیا تھا۔

معصوم  اور نہتے پاکستانیوں پر امریکی ڈرون حملوں کی سپانسر زرداری حکومت  کے دفترِ خارجہ نے تصدیق فرمائی تھی کہ بہادر اور جرات مند ملالہ جی کو آئرلینڈ کا یہ اعلی ایوارڈ تمام بچوں کیلیے تعلیم کے حق کیلیے آواز بلند کرنے پر دیا گیا ہے۔  ملالہ کے سرپرست میڈیا پرباربار یہ خبر چلتی رہی کہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے خواہاں زرداری نے بیٹی آصفہ بھٹو کے ہمراہ برمنگھم میں واقع جدید ترین علاج گاہ کوئین الزبتھ ہسپتال میں زیرِ علاج ملالہ عیادت کی تھی۔

اس موقع پر جب انہوں نے پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے ملالہ کو نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا تھا عین اس وقت امریکی ڈرون حملوں سے مرنے والے معصوم بچوں کی لاشوں کے تازہ چیتھڑے وزیرستان کی سرسبز چٹانوں پر سجے تھے۔ ایک طرف زرداری صاحب معصوم ملالہ کو کتابیں اور ٹیڈی بیئر سمیت قیمتی تحائف دے رہے تھے، پاکستان سمیت پوری دنیا کے بہترین ڈاکٹرز اورعالمی میڈیا موجود تھا  لیکن دوسری طرف ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے معصوم  ” دہشت گرد بچوں کی ”  مرہم پٹی کیلئے طبی امداد مہیا کرنے والا کوئی  ڈاکٹر یا  مظلوموں کیلئے آواز اٹھانے کے  دعویدار  پاکستانی میڈیا  کا دور دور تک  کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔

چوراہوں پر اخبار بیچنے والے گریجویٹ بے روزگاروں نے بھی اس خبر کی آوازیں لگا لگا کر دگنے اخبارات بیچے ہوں گے کہ حکومت پاکستان نے ملالہ یوسف زئی کے والد گرامی ضیا الدین یوسف زئی کو پچیس ہزارڈالرز ماہانہ تنخواہ پر برمنگھم قونصلیٹ میں تعلیم کا اتاشی مقرر کر دیا تھا ۔ گویا یہ اس بات کا خاموش اعلان تھا کہ اب پاکستان میں روزگار اور بیرون ملک اعلی ملازمتوں کیلئے کوئی تعلیمی ڈگری نہیں بلکہ سامراجی اور صلیبی آقاؤں کا زر خرید بننا شرط ٹھہرا ہے۔

 دسمبر 2012 میں جب انسانی حقوق کےعالمی دن کے موقع پر پیرس میں پاکستان اور یونیسکو کے زیرِ اہتمام کانفرنس میں دنیا بھرمیں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تو کیا انسانی حقوق کے کسی مسیحا یا یونیسف نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ زرداری کے کار خاص سندھی وڈیروں نے اپنے علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں میں بھینسیں کیوں باندھ رکھی ہیں۔ ملالہ ڈرامہ رچانے والے اس حقیقت سے کیونکر نا آشنا ہو سکتے ہیں کہ سندھ کے ان پس ماندہ علاقوں میں قلم اور کتاب کا نام لینا بھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔

سبحان اللہ کہ جب تعلیم سے جبری طور پر محروم کئے گئے اسی سندھ کے  زرداری جب اس کانفرنس میں ملالہ فنڈ کا اعلان کرتے ہوئے اسے ترقی پسند پاکستان کی علامت قرار دے رہے تھے تو ان کے ہمراہ  ان سندھی وڈیرے وزرا نے بھی ڈیسک اور تالیاں بجا بجا کرخوب پزیرائی کی جن کی بھینسیں سندھ کے بے کلاس سکولوں میں دل لگا کر تعلیم حاصل کرتیں اور جی بھر کے چارہ کھاتی ہیں۔ جن دنوں دن میں میں دو دو  ڈرون حملے  ہو رہے تھے،  سرحد اور سندھ کے دیہات میں خسرے کا شکار بچے بنا دوا و علاج مر رہے تھے ان دنوں برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر ڈیو روسر نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جلد ہی ملالہ کی دنیا کی مہنگی ترین جدید کرینئیل سرجری کی جائے گی۔

پھر قادیانی    گروہ   ،  گستاخین قرآن و رسالت،  باچا خانی اور سامراجی گماشتے مبارک باد کے مستحق ٹھہرے ۔  ان کی لاڈلی ملالہ جی  کو اسلام دشمن اور پاکستان کے ایٹمی  راز بھارت اور مغربی آقاؤں کو فراہم کرنے والے غدار قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح نوبل پرائز دیا گیا ۔ یاد رہے ملامہ جی کو  ہم جنس پرست طبقوں اور لندن مافیہ کے بعد قادیانی کلٹ کی سپورٹ میں نمبر ون ملک  ناروے کے اراکین پارلیمنٹ نے 2013  میں بھی نوبل امن انعام کیلیے نامزد کیا تھا ۔ ایک برس قادیانی کلٹ اور تمام گستاخین اسلام لابیاں ملالہ جی کے نوبل پرائز کیلئے پورے مغرب میں مہم چلا رہی تھیں۔ 

ناروے کی پارلیمنٹ نے قرارداد میں کہا ہے کہ ’’ ملالہ نے پوری دنیا کے لوگوں پر گہرا اثر ڈالا، وہ اس نوجوان نسل کی نمائندہ ہے جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے لڑکیوں کے مساوی حقوق کا پیغام پہنچایا لہذا وہ نوبل پرائز کی حقدار ہے "۔ لندن پہنچ جانے کے بعد ملالہ جی کی کتاب میں ملعون سلمان رشدی کی توہین قرآن رسالت کے مذموم دفاع  اور بنگلہ دیش سے  لندن پناہ حاصل کرنے والی بدنام زمانہ گستاخ رسول تسلیمہ نسرین کے ساتھ کمپین سے ملالہ کے عزائم عیاں ہو چکے تھے۔ ہم نے قبل او وقت ہی پیشین گوئی کی تھی کہ ملالہ یہودی اور مغرب زدہ لابیوں کی کٹھ پتلی بن کر اسلام دشمنی کی  ہر حد پار کرنے کیلئے تیار ہو چکی ہے، لہذا نوبل  انعام حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہے گی۔۔

 احباب یہ بات ہر فورم پر ثابت ہو چکی تھی کہ معصوم ملالہ کو مغرب کی لاڈو کے درجہ تک پہنچا کر کیش کرنے والا  دراصل اس کا وہ باپ ہے، جو ایک مدت  سے باچا خان اور قادیانی گروہوں کا  کار خاص ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس  باپ کے دجالی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی بچی کے گل مکئی کے نام سے  بی بی سی  پر شائع  ہونے والے کالموں سے لیکر سلمان رشدی و قادیانیت کی حمایت اور اسلام دشمنی  میں لکھی گئی کتاب دراصل ایک برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب لکھتی رہی ہے ۔

لندن کی محفوظ گود میں پہنچانے کے بعد  صلیبی آقاؤں نے ملالہ کی تشہیر کیلئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے ملالہ جی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مغرب کی بدنام زمانہ سیکس ماڈل سنگر میڈونا سمر نے اوبامہ کی لاڈلی اس ” معصوم اسلامی بچی ” کا نام اپنے عریاں بدن پر پینٹ کر کے پورے یورپ اور امریکہ میں جو سیکسی میوزک شو کئے ان میں ملالہ جی کیلئے گیت گاتے ہوئے اپنا پورا جسم بالکل ویسے ہی مکمل ننگا کیا جیسے اس بدبخت نے بدنام زمانہ گستاخ قرآن و رسالت ملعون سلمان رشدی کیلئے گاتے  ہوئے کیا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ ملالہ جی  کے کالموں ، گولی سے لیکر لندن  پناہ  اور مغربی ایوارڈوں سے لیکر نوبل پرائز تک کا ہر ڈرامہ و جعلسازی قابل تنقید ہی نہیں قابل صد لعنت ہے۔ میرے مطابق ملالہ جی کو نوبل پرائز عطا کرنا دراصل  اس عالمی اعزاز کی ساکھ کے تابوت میں کیل ٹھونکنے کا آغاز ہے۔ اگر نوبل پرائز کیلئے اہلیت اور معیار جعلسازی،  ڈرامائی سکینڈلز، اسلام سے کھلی دشمنی کا اظہار اور مغربکی صلیبی قوتوں سے والہانہ عشق ہی ہے تو پھر اگلے کامیاب امیدوار ملعون سلمان رشدی  اور ماروی سرمد جیسے ننگ کردار بھی ہو سکتے ہیں۔

ملالہ جی کے پرستاروں کو یاد رہے کہ  اسرائیل کے دو  وزیر اعظم مناہم بیجن،  اسحاق رابین اور وزیر خارجہ شمعون پیریز کے علاوہ  درجن سے زائد اسرائیلی امن کے نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔ معنی خیز حقیقیت ہے کہ اکیلے اسرائیل کے نوبل پرائز تعداد تمام عرب ممالک کے حاصل کردہ پرائز کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ اور اسلام دشمنوں کو نوبل انعام نواز کر مغرب نے  یہ کھلا اعلان کیا ہے کہ  مغربی  ایوارڈز اور انعام و اکرام  صرف اسلام کے ننگِ ملت کرداروں کیلئے دستیاب ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے فتنہء قادیان کو لندن میں فت ہیڈکواٹر، ہر قادیانی کیلئے یورپ اور امریکہ کے ویزے اور ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی  کو پاکستان دشمن خدمات اور غداریوں کے صلے میں  نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا۔

بالکل اسی طرح جیسے  دہشت گردی اور ٹارگٹ کلر الطاف حسین کو برطانوی اور صلیبی برانڈ اسلام کے دانشور طاہر القادری کو کینیڈین شہریت کے ساتھ ساتھ محبت بھری مخملی پناہ گاہیں عطا فرمائی گئیں ۔۔ مستقبل میں وزارت عظمی کے تمام آرزو مند ہوشیار ہو جائیں کہ ملالہ جی بھی پاکستان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش کا اعلان کر چکی ہیں۔ خیال رہے کہ وہ امریکہ اور برطانیہ جیسے بادشاہ گروں  سمیت  پورے مغرب اور دہریہ طاقتوں کی منظور نظر بھی ہے اور ان کی غلامی و فرماں برداری میں کچھ بھی کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار بھی ۔۔۔۔  تازہ ترین  خبروں کے مطابق  ملالہ یوسف زئی نے بغیر نکاح کے  جیون ساتھی رکھنے   یعنی مغربی تہذیب جیسی زنا کاری  کی حمایت کا پروگرام لانچ کر دیا ہے۔

فاروق درویش ۔ 


نوبل انعام یافتہ قادیانی ڈاکٹر کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

جاوید چوہدری کے قصیدہء زندیق کے جواب میں

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں
Back to top button