
اندھی آنکھوں والا راجہ گدھ مورے گھر آوے گا
اندھی آنکھوں والا راجہ گدھ مورے گھر آوے گا
زندہ لاشے بھوکے بچے دیکھ نہیں کچھ پاوے گا
کربل جیسی دھرتی موری دشت بنا ہے دیس مورا
پنگھٹ پر ہے شمر کا پہرہ پانی کون پلاوے گا
موم کی چھتری اوڑھے نکلے جگنو تپتے صحرا میں
دھوپ میں قتل ہوئے جو جگنو کون کسے دکھلاوے گا
آج مری مزدور کی چھوری داج ملا نہ دیگ پکی
راج محل کا راجہ پی کر بے غم سوگ مناوے گا
سرد رتوں کا چندا کاہے پریت کی جوت جگاوے ہے
سینے میں جو آگ بھری ہے دیکھے گا ڈر جاوے گا
لاکھوں رنگ سمیٹے دل میں کیا تصویر بناوے تو
مٹی کا باوا ہے مورکھ مٹی میں مل جاوے گا
دل کا دکھڑا لے بیٹھا درویش سجن کی محفل میں
جس نے من کی بات کہی یاں پگلے وہ پچھتاوے گا
فاروق درویش
بحر : فعلن سالم
رکن۔ فعلن (22) ساڑھے سات دفعہ
۔22 ۔۔22 ۔۔22 ۔۔22۔۔ 22۔۔ 22۔۔22 ۔۔ 2
نوٹ : یہ بحر فعلن کی سالم بحر کہلاتی ہے ۔ تیرہ رکنی ( ہر مصرع میں چھ بار فعلن ایک بار فع) چودہ رکنی ( ہر مصرع میں سات بار فعلن ) یا پندرہ رکنی ( سات بار فعلن ایک بار فع ) یا اس کے کم یا زیادہ بار فعلن میں لکھی جا سکتی۔ اس میں احتیاط رہے کہ یا تو دو حرفی یعنی مرکب اجزا رکھنے والے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ، جیسے اندھی ان۔ دھی ۔2+2 ( فعلن ) مگر اکہرے حرف پر ختم ونے والے الفاظ کو اگلے اکہرے حرف سے شروع ہونے والے لفظ سے سے ملانا پڑتا ہے جیسے ” آج مری کو ۔ آ ۔جم۔۔۔ری ( 2+2+2) کے طور پر تقطیع کرنا ہو گی ۔
تقطیع۔
ان-دھی ( 22) ۔۔۔ آں۔۔کھوں (22) ۔۔ وا ۔۔۔لا (22) را ۔۔ جہ (22) گد۔۔۔ مو(22) رے ۔۔ گھر (22) ۔۔ آ ۔۔ وے (22) گا (2) ۔۔۔۔
زن ۔دہ (22) لا ۔۔شے (22) بھو ۔۔۔ کے (22) بچ۔۔چے (22) دے ۔۔۔کھن (22) ہی ۔۔۔کچھ (22) پا۔۔۔۔۔وے (22) گا (2)۔۔۔
نوٹ : دوسرے مصرع میں دیکھ نہیں کے دونوں الفاظ تین حرفی ہیں اس لئے ”دیکھ” کے ”کھ” کو اگلے لفظ ” نہیں ” کی”ن” سے ملایا گیا ہے اور ” دی+کھن + ہی + کچھ ( 22+22) کی تطقع پوری کی گئی ہےَ
یاد رکھئے کہ ” کیا” اور “کیوں” کو دو حرفی یعنی “کا” اور “کوں ” کے وزن پر باندھا جائے گا ۔ کہ، ہے، ہیں، میں، وہ، جو، تھا، تھے، کو، کے ، تے ، رے اور ء جیسے الفاظ دو حرفی وزن پر بھی درست ہیں اور انہیں ایک حرفی وزن میں باندھنا بھی درست ہیں ۔ لہذا ان جیسے الفاظ کیلئے مصرع میں ان کے مقام پر بحر میں جس وزن کی سہولت دستیاب ہو وہ درست ہو گا ۔
ایسے ہی “ے” یا “ی” یا “ہ” پر ختم ہونے والے الفاظ کے ان اختتامی حروف کو گرایا جا سکتا ہے ۔ یعنی جن الفاظ کے آخر میں جے ، گے، سے، کھے، دے، کھی، نی، تی، جہ، طہ، رہ وغیرہ ہو ان میں ے، ی یا ہ کو گرا کر انہیں یک حرفی وزن پر باندھنا بھی درست ہو گا اور اگر دوحرفی وزن دستیاب ہو تو دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی لفظ کے اختتامی حرف کے نیچے زیر ہو اسے دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے اور یک حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ( مثال : دشت یا وصال کے ت یا لام کے نیچے زیر کی صورت میں انہیں دشتے اور وصالے پڑھا جائے گا ۔ ایسے الفاظ کی اختتامی ت یا لام کو بحر میں دستیاب وزن کے مطابق یک حرفی یا دو حرفی باندھنے کی دونوں صورتیں درست ہوں گی ) ۔
تقطیع کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رہے کہ نون غنہ اور ھ تقطیع میں شمار نہیں کئے جائیں گے یعنی تقطیع کرتے ہوئے ، صحراؤں کو صحراؤ ، میاں کو میا، خوں کو خو، کہیں کو کہی ۔ پتھر کو پتر اور چھیڑے کو چیڑے پڑھا جائے گا
سر جی اتنی دلکش اور مترنم غزل جسمیں زبان کی چاشنی اور طرز۔بیان بےحد دلفریب ہے کمال لکھا ہے آپ نے میں کوشش کروں گا کہ اس طرز پر طبع آزمائی کروں ، بہت عمدہ کلام ہے سبحان اللہ
خیال
برادر اسمٰعیل صاحب یہ آپ کی محبت ہے ورنہ یہ فقیر تو بس ایک مبتدی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ سبحان تعالیٰ آپ کو دین و دنیا میں سرفرازیاں عطا فرمائے
خوبصورت اور عمدہ غزل كے لیے ڈھیروں داد ایك طالب علم ہونے كی حیثیت سے كہتا ہوں كہ فن شاعری سیكھنے والوں كے لیے اس میں بہت كچھ ہے سلامت رہیے ماشا اللہ
خوبصورت اور عمدہ غزل كے لیے ڈھیروں داد ایك طالب علم ہونے كی حیثیت سے كہتا ہوں كہ فن شاعری سیكھنے والوں كے لیے اس میں بہت كچھ ہے سلامت رہیے ماشا اللہ
برادر نواز جنجوعہ صاحب ممنون ہوں ، مولائے کرین دین و دنیا میں سربلندیاں عطا فرمائے