
سیاست دانوں کی نئی نسلیں اور پرانے روگ
ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور کرپٹ سیاسی معاشرت کے اخلاقیات سےعاری شہزادوں کا معاملہ تاریخ کی کامیاب بادشاہتوں اور درخشاں خلافتوں کے برعکس ہے
بنو امیہ زوال کا شکار ہوئے تو پھر ان کےآخری خلیفہ مروان ثانی کو کہیں پناہ اورعافیت نصیب نہ ہوئی۔ جان بچانے کیلئے بھاگنے والا خلیفہ بالاخر تعاقب کرنے والے عباسیوں کے ہاتھوں مصر میں قتل ہو گیا۔ عباسیوں نے اموی خاندان کا ہر بچہ بوڑھا اور جوان قتل کر ڈالا ۔ خاندان نبوت ہونے کے دعویداروں نے اموی قبروں کو اکھاڑ کر لاشوں پر کوڑے برسائے ۔ لیکن بنوامیہ کے شاہی خاندان سے جو ایک شہزادہ دریائے دجلہ میں چھلانگ لگا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ اس نے افریقہ کے راستے اندلس پہنچ کر جرات اور بے مثال جدوجہد کی ایک ناقابل فراموش تاریخ لکھی۔ اس تاریخ ساز عبدالرحمن الداخل نے ہسپانیہ میں جس اموی حکومت کی بنیاد رکھی، وہ تین صدیاں عظمت رفتہ کا یادگار دور ہے۔
جہاں سلطنت ہسپانیہ اپنے آخری سلاطین کی عیاشیوں اور فلاحِ عوام سے بے نیازی کے سبب زوال کا شکار ہوئی۔ وہاں ان اموی سلاطین میں کئی عظیم فلاحی حکمران بھی گزرے ہیں ۔ انہی قابل سلاطین میں ایک نام عبد الرحمن ثالث جیسا وہ عادل اور رعایا پرور سلطان بھی ہے، جس کے دور میں حکومتی آمدنی ایک کروڑ بیس لاکھ دینار اور عوام خوش حال تھی۔
اس کے عدل و انصاف کی مثال یہ ہے کہ جب ریاست کیخلاف بغاوت کرنے والے بیٹے کو اس کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے اسے فوجیوں کا قاتل ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم دے دیا ۔ ولی عہد نے اپنے بھائی کی معافی کیلئے باپ سے گڑگڑا کرسفارش کی تو اس سلطان نے جو جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ اور آج کے اقربا پرور حکمرانوں کے مونہہ پر زبردست طمانچہ ہیں کہ ۔۔۔۔۔”ایک باپ کی حیثیت سے میں اس کی موت پر ساری زندگی آنسو بہاؤں گا لیکن میں باپ کے علاوہ ایک مسلم ریاست کا حکمران بھی ہوں۔ اگر باغیوں کے ساتھ رعایت کروں گا تو سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی "۔
جبکہ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور کرپٹ سیاسی معاشرت کے اخلاقیات سےعاری شہزادوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ نون لیگ سے مریم نواز اور حمزہ شہباز جان نشین بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں میں قومی اور بین الاقوامی حالات سے عہدہ برا ہونے کی سیاسی بصیرت ہے، ان کی خوش فہمیوں کو سلام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ شہنشاہی موروثیت ہی لیگی جمہوریت ہے۔
اسی طرح زرداری اینڈ کمپنی جس بلاول کو فیوچر کنگ کیلئے متعارف کروا رہی ہے۔ اس کے لندن مٹیاروں کے ساتھ سیکس سٹوریز، اور نیم برہنہ تصاویر مغرب کے اخباروں اور رسائل میں عام رہیں۔ بلاول ایک مسلم ملک کا وہ مستقبل ہے جو پاکستان میں عیسائی وزیراعظم دیکھنے کا آرزومند رہا ہے۔ موصوف کی سیاسی مٹیاروں کی فورس سندھ فیسٹیول کے نام پر اس وقت بھی محو رقص رہتی ہیں جب بھوک اور پیاس سے مرتے ہوئے تھر کے ہاریوں کے جنازے اٹھ رہے ہوں ۔ خان صاحب کا دعوی تھا کہ وہ وزیر اعظم بنے تو لندن کے لوگ ملازمت کیلئے پاکستان کا رخ کریں گے۔ لیکن یہاں تو ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد غریب کے مونہہ میں نوالہ نہیں رہا ۔ منافع خور سے لیکر ذخیرہ اندوز اور کرپشن کنگز تک ہر مافیہ ان کی حکمرانی وقت سے پہلے ختم کرنے پر کمر بستہ ہے۔
نوجوان سیاسی جانشینوں کیلئے تاریخ سے دوسری مثال، جنگ کسووو میں شہید ہونے والے مراد اول کے بیٹے سلطان بایزید یلدرم کی ہے ، جس نے سلطان بنتے ہی سربیا کے شاہ اسٹیفن لازاریوچ کی بیٹی کے عشق میں مبتلا ہو کر اس عیسائی شاہ کو خود مختاری دینے کے عوض اس کی بیٹی شہزادی ڈسپیانا سے شادی کی۔ اور عیسائی بیوی کے رنگ میں شراب میں خوش مست ریاستی امور سے بے پرواہ ہو گیا۔ مگر جب عیسائیوں نے اسلام کیخلاف جنگ کا اعلان کیا تو اس نے شراب سے توبہ تو کر لی ۔ لیکن عیاشی میں گزرے وقت میں ریاست کمزور ہو چکی تھی۔ تیمورلنگ نے عثمانی سلطنت پر حملہ کیا تو سلطان یلدرم میدان جنگ میں فوجوں کی قیادت کی دوا کرنے کی بجائے شاہی حجرے میں تلاوت اور دعاؤں میں مصروف تھا۔ تیمور کے ہاتھوں شکست کھانے والا یہ سلطان دورانِ قید اسی غمِ شکست میں انتقال کر گیا۔
تیمور نےعثمانی سلطنت کی ایسی اینٹ سے اینٹ بجائی کہ دنیا کو دوبارہ سنبھلنے کی کوئی توقع نہ تھی۔ مگر یلدرم کے بیٹے محمد اول نے دس سالہ انتھک جدوجہد سے بکھری ہوئی سلطنت کو ایسے ناقابل یقین انداز میں بحال کیا کہ پھر اگلی پانچ صدیوں تک اس عثمانی خلافت کی ہیبت زمانے پر طاری رہی۔ یاد رہے کہ اسی مراد اول کا پوتا محمد ثانی ، نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق عظیم عیسائی سلطنت قسطنطنیہ کو فتح کرنے والا سلطان محمد فاتح کہلوایا۔
اب معاملات موروثیت ، قومی ڈکیٹیوں اور شاہی معاشقوں کی حدود سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ سنگین حالات قومی و ملی نظریات ، ملکی اور اسلامی خطوں کی سلامتی کے حوالے سے شدید خطرات کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ اب ضرورت عرب و عجم کے مابین رشتوں کے استحکام اور مسلم خطوں کی سلامتی کیلئے ” عالم سلام کے ابھی یا کبھی نہیں اتحاد” کی ہے۔ میرا موقف ہے کہ جو نوازشریف ماضی میں ایٹمی دھماکے کرنے جیسا مہان کریڈٹ کما کر بھی ایک ملی اور قومی لیڈر نہیں بن سکے، ان میں سیاسی بصیرت کسی بلدیاتی کونسلر سے زیادہ نہیں ہے۔
میاں صاحب نے ضمیروں کی منڈیاں لگا کر جو سیاست کی اس کا انجام خان صاحب جیسے سیاست دانوں کیلئے عبرت انگیز ہونا چاہئے تھا ، لیکن خان صاحب نے بھی لوٹا کریسی اور ممبران پارلیمنٹ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے اپنے سارے وعدے اور دعوے روند ڈالے ۔ اپنے ہی ڈاکو قرار دئے گئے لوگوں کو وزارتیں دیکر کرپشن فری سیاست کے نعرے کا جنازہ نکال دیا گیا ۔ جہاں میاں صاحب نے ماضی میں بھارتی مندروں میں پوجا پاٹ اور فوجی اداروں کیخلاف زہریلا پراپیگنڈا کرنے والی آنجہانی عاصمہ جہانگیر جیسی گستاخانِ مذہب شخصیات کی سفارشات پر عہدے بانٹے ۔ وہاں خان صاحب بھی فواد چوہدی جیسے انٹی اسلام عناصر، کرپشن کنگ لوٹوں اور قادیانیوں کو اعلی عہدے نواز کر قدرت کو للکار تے رہے ۔
آج ہماری کسی بھی سیاسی قیادت کی اگلی نسل میں تن تنہا عظیم سلطنت ہسپانیہ کی بنیاد رکھنے والےعبدالرحمن داخل جیسا کوئی باہمت صاحب کردار و بصیرت شہزادہ نہیں ہے۔ یہ شاہان حشمت جن شہزادوں کو مسند نشین بنانے کیلئے تلے ہیں ان میں کوئی بھی سلطنت عثمانیہ کی عظمت اگلی پانچ صدیوں تک بحال کرانے کی جہد کرنے والے سلطان محمد اول جیسا زیرک و باعمل موجود نہیں ۔ ہاں مگر بھارتی اداروں کی مددگار جاسوس این جی اوز، غدارین ملک قادیانی ہمنوا ، بھارت نواز یا ایران برانڈ طبقات، نظام شریعت کیخلاف وہ سیکولرز صحافتی ڈان ضرورموجود ہیں، جو پاکستان کو ایک ڈیفالٹر سیکولرریاست بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔ عوام جمہوریت کا رول بیک نہیں ، پرانے اور نئے قومی لٹیروں، اقتدار پر ابھی تک قابض کرپشن مافیوں اور ملک کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور دجالی کرداروں کیخلاف آہنی کریک ڈاؤن چاہتے ہیں۔
عسکری ادارے فوجی صفوں میں موجود کرپشن میں لتھڑے کرداروں کا کڑا محاسبہ کر سکتے ہیں ، تو پانامہ لیکس میں بینقاب ہونے والے ایک دو نہیں سارے چار سو پراگندا چہروں، قومی خزانہ لوٹنے والے سیاست دانوں، کرپٹ بیوروکریٹس اور مفلسان وطن کے خوابوں کے قاتل کرداروں کیخلاف سنگین کریک ڈاؤن کر کے قوم کی اگلی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنے کیلئے عین انصاف اور راست اقدامات میں دیر کیوں کی گئی ؟ باخدا مادر پدر آزاد سیاست اور بے لگام کرپشن کے ان ” ابھی نہیں یا کبھی نہیں” حالات میں یہ پاکستان اور امت مسلمہ پر ایک احسان عظیم ہو گا ورنہ تاریخ ہم سب کو روند کر بہت آگے نکل جائے گی ۔ ۔ ۔
فاروق درویش : واٹس ایپ کنٹیکٹ : 00923324061000
پاکستانی سیاست کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں