سیکولرازم اور دیسی لبرلنظریات و مذاہبِ عالم

یورپ کی قادیانیت پروری عیسائی مذہب سے غداری ہے

برطانیہ کی شناخت ایک مسیحی ملک اور پرچم پر صلیب آویزاں ہے۔ مگر  برطانیہ ہی حضرت مسیح کے گستاخ قادیانی گروہ کا سرپرست اعلی ہے

گذشتہ برسوں برطانوی استعمار کیخلاف غیرت ملی کے سپاہی ٹیپو سلطان شہید کے ذاتی ہتھیاروں اور دیگر نوادرات کی لندن میں نوے لاکھ  ڈالرز میں نیلامی کی خبر عام تھی۔ لندن کے جس نیلام گھر بون ہیم میں ٹیپو شہید کی بندوق، تلواروں ، زرہ بکتر اور دوسری نوادرات کی نیلامی ہوئی، اس سے کچھ ہی میل دور قادیانیت کا مرکزدراصل برطانوی گوروں کی مردہ مذہبی غیرت اور قومی شناخت کا نیلام گھر ٹھہرا ہے۔

جہاں ٹیپو سلطان کی نیلام ہونے والی تلواروں پر شیر کی شبیہ کندہ ہے وہاں امریکی سامراج، برطانیہ اور مغرب کے گورے ماتھوں پر عیسائیت کے پیغمبر حضرت مسیح علیہ السلام کے گستاخ قادیانیوں کی سرپرستی کی کالک کا  داغ نمایاں ہے۔ جہاں  ٹیپو سلطان نے ایک شیر کی طرح گورے غاصبین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارا، وہاں  قادیانیت  اپنے انہیں گورے آقاؤں کے سیاسی قحبہ خانے کی ملازمہ بن کر دنیا کو حق اور باطل کا حقیقی فرق  سمجھا رہی ہے۔

غور طلب امر ہے کہ گستاخین قرآن و رسالت اور قادیانی گروہ کا ترجمان  بی بی سی، جب بھی قانونِ توہین رسالت کی مخالفت یا قادیانیوں کی حمایت میں فتنہ خیزیاں شائع کرتا ہے۔ اس کے فوری بعد کوئی نہ کوئی صلیبی ڈرامہ ضرور ریلیز ہوتا ہے۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ بی بی سی جب بھی توہین رسالت قوانین کیخلاف بولا، اس کے چند ہی دن بعد کبھی آسیہ بی بی اور کبھی رمشا مسیح کا ہنگامہ اور کبھی گوجرانوالہ یا شیخوپرہ میں کوئی ” صلیبی  سانحہ ” ضرور ہوا۔

مشرق میں مغرب جیسی ہم جنس پرستی کی آزادی کی حمایت اور پھر پاکستان میں قادیانیت کیلئے منافرت اور ظلم کے موضوع  پر اشاعت ہوئی ، تو چوتھے ہی روز ہم جنس پرستی اور ویلنٹائن ڈے تحریک کی حامی ایک لبرل این جی او خاتون سبین محمود کا قتل ہو گیا ۔ اور بی بی سی کے گورے دیش کے بغل بچے قادیانی، عاصمہ جہانگیراور ماروی سرمد جیسی انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار ، رنجیت سنگھ اور راجہ داہر کے  پرستار، وہی ظالم خفیہ ایجنسیاں، ظالمانہ قانون اور مظلوموں کے حقوق کی ست رنگی دوکان سجا کر آزادی ء اظہار کا میڈ ان امریکہ منجن بیچنے نکل پڑتے ہیں۔

۔”  قادیانیت کی حمایت میں بی بی سی لکھتا ہے کہ ، ” احمدیوں کے بائیکاٹ کی مہم اب مسجدوں  سے نکل کے عام آدمی تک جا پہنچی ہے۔ ملک بھر میں احمدی مخالف بینر، نعرے اور پمفلٹ عام دکھائی دیتے ہیں، جن میں کہا جاتا ہے کہ احمدیوں کے ساتھ کاروبار کرنا یا سماجی رابطہ رکھنا ممنوع ہے "۔

بی بی سی والوں میں اپنے نبی مسیح علیہ السلام کی ناموس کی حفاظت کا جذبہ اور مذہبی غیرت مر چکی لیکن ہم میں ابھی زندہ ہے۔ لہذا ہمارے لیے قرآن حکیم میں تضاد کے دعوے، انبیاء اکرام، اہلِ بیت، صحابہ اوراکابرین ملت کیلئے فحش زبانی، نظریہء پاکستان اور افواجِ پاکستان کیخلاف زہریلہ پراپیگنڈا کرنے والے قادیانیوں سے سماجی یا کاروباری رابطے ہماری مذہبی اور قومی غیرت کی نفی ہیں۔

ہم ان قادیانیوں سے کوئی واسطہ نہیں چاہتے ، جن میں سلمان رشدی جیسی ملعون روحیں حلوت ہیں۔ ہم ان قبروں سے لا تعلق ہیں جن کے کتبوں پر”امانتا دفن” کے الفاظ  کے پس منظر میں   کافرانہ امیدیں یہ ہیں کہ ان کے خلیفوں کا اکھنڈ بھارت کا دیرینہ خواب پورا ہو گا تو یہ اپنے  مردوں کی ہڈیاں بھارت میں واقع  قادیان کے قبرستان میں دفن کریں گے۔

بی بی سی کے مطابق قادیانی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ” احمدیوں کو افواجِ پاکستان میں بھرتی کے دوران عقیدے کی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا۔ جبکہ سرکاری محکموں خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں ملازم احمدیوں کو بھی تعصب اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی لوگوں پر توہین مذہب کا الزام بھی لگایا گیا ” ۔

مغربی پریس سب جانتے ہوئے بھی انجان ہے لیکن افواج پاکستان اور حساس ادارے اس امر سے خوب واقف ہیں کہ مغرب کی پناہ میں بیٹھے اور ملکی قادیانی ملت اسلامیہ اور پاکستان کیخلاف سرگرم ہیں۔ یہ دہشت گردوں اور دشمنانِ پاکستان کے حواری بننا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔  لہذا ایسی غدار اقلیت پر اعتماد کرنا ایک سنگین سیکورٹی رسک ہے۔

ان کی پاکستان کیخلاف سازشوں اور  اسرائیل میں  دفاتر کی داستانیں عام ہونے کے بعد فوج اور دوسرے اہم سرکاری دفاتر میں ان کی موجودگی گھر میں زہریلا سانپ پالنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ قادیانی مذہب کے مطابق مرزا قادیانی کے ظہور کے بعد ( معاذ اللہ) جہاد متروک ہو چکا ہے۔ لہذا قادیانیوں کی فوج میں شمولیت یا دوسرے لفظوں میں جہاد میں شرکت ایک انوکھا سوالیہ نشان ہے ۔

بی بی سی کے مطابق قادیانیوں کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، ”  2014 میں احمدیوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر دس مقدمات قائم کیے گئے جن میں سے کئی میں سزائے موت اور عمرقید کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں "۔

توہین رسالت کے مرتکب قادیانیوں ، گستاخین اسلام عیسائیوں کیخلاف سزائے موت کی دفعات پرمعترض مغرب کا دوغلہ پن دیکھیں کہ امریکہ اور کئی مغربی ممالک میں صدیوں توہین مسیح کا قانون نافذ رہا ہے۔ امریکی ریاستوں میں توہینِ مسیح کی سزا موت جبکہ برطانیہ میں عمرقید رہی ہے۔

یہ مغربی  لوگ اس قدر شدت پسند ہیں کہ مدر ٹریسا پر بننے والی ایک فلم ، جس میں وہ عقیدت سے حضرت عیسی  کی تصویر کا بوسہ لیتی ہے، تو اسے توہین مسیح قرار دیکر فلم کی نمائش پر پورے مغرب میں پابندی لگا دی جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف گستاخِ مسیح اور جعلی عیسی مرزا قادیانی کے پیروکاروں کو محبوبہ کی اولاد کی طرح پالا جا رہا ہے۔  مغرب  اور امریکہ  کے ملکی قوانین میں توہین مسیح کی سزا موت یا عمر قید رہی ہے لیکن یہ  قادیانیت کے اس گستاخ گروہ کو پروان چڑھا رہے ہیں جن کے مذہب کی بنیاد ہی عیسی علیہ السلام کی توہین ہے۔

گوروں کی مذہبی غیرت جگانے کیلئے حجت و دلیل یہ ہے کہ برطانیہ  کی شناخت ایک مسیحی ملک ہے اور اس کیلئے پرچم پر صلیب بھی آویزاں ہے۔ مگر اس سے بڑی منافقت کیا ہو گی کہ  برطانیہ ہی حضرت مسیح کے گستاخ قادیانی گروہ کا سرپرست اعلی اورمیزبان ہے۔

کیا  بی بی سی  دانشور،  مرزا قادیانی کی   مسیح علیہ السلام  کی توہین میں لکھی ہوئی ایسی شاتمانہ تحریروں سے  ناواقف ہیں  کہ ؟؟۔ ۔ ۔ ٭ حضرت مسیح کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناء کار اور کسبی عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص 7 مصنفہ غلام احمد قادیانی ) ۔۔۔  ٭ مسیح کا چال چلن کیا تھا ، ایک کھاؤ پیو ، نہ زاہد ، نہ عابد نہ حق کا پرستار ، متکبر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔ (مکتوبات احمدیہ صفحہ نمبر 21 تا 24 جلد3) ۔۔ ۔

بی بی سی اور وائس آف امریکہ  خود کو اپنے نبی حضرت مسیح کا محب، سچا عیسائی اور قانون کا پاسدار ثابت کرنے کیلئے پہلے توہین مسیح کی بنیاد پر قائم مذہب کے پیروکار قادیانی کلٹ کو ملک بدر کریں۔ اور پھر یہی پیغام ان عیسائی ممالک کو بھی دیں جہاں گستاخین مسیح قادیانیوں کو مہمانوں کی حیثیت حاصل ہے.

آج امریکی کینیڈا اور پورے مغرب میں قادیانی قحبہ خانوں  کو سامراج و مغرب کی سرپرستی حاصل ہے۔  مسلمانوں کی نئی نسل کو عریابی و فحاشی کی دعوت و ترغیب اور معاشی مسائل کا شکار مسلمان لڑکیوں کو دام فریب  سے جسم فروشی کے  دھندے پر لگا کر قادیانی بنایا جا رہا ہے۔

بی بی سی  کیلئے ان حقائق میں یہ اہم سبق چھپا ہے کہ آج ایک غیور مرد مومن سلطان ٹیپو کی پانچ کلو لوہے کی تلوار لاکھوں  ڈالرز میں نیلام ہوتی ہے مگر میسوری قلعے کے دروازے پر غدار میر صادق کی قبر پر تھوکنے اور پرانی جوتیوں کا انبار لگانے والوں میں مسلمان ہی نہیں ہندو سکھ اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ مغرب کی منافقانہ سیاست اور  صحافت ، کوٹھے پر بیٹھی رنڈی کی طرح صرف زر کا حصول ہے۔

یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ جیسے گوروں کی سیاست کا کوئی مذہب اوراصول نہیں، بعین انکے حواریوں کی سیاست بھی بازار حسن کی طوائف کے جذبہء زر پرستی کیلئے مجرہء ہوش ربائی کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ گوروں کی مذہبی و قومی غیرت کا قبرستان اہل قادیان و یہود سے یاری ہے تو ان کی حمایت میں لکھنے والے ” مسلمانوں ” کی تحریر و تقریر، کسی پیشہ ور عورت کی فلسفہء مذہب سے لاتعلقی اور فلسفہء حصول زر کی پیروی سے قطعی مختلف نہیں۔

وہ کوئی پیشہ ہو یا پیشہ ور سیاہ ست، یہاں کسی پیشہ ور کا  ” رنڈی”  کی طرح کوئی مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا۔ اس صنم کدے  میں کسی ضمیر فروش  رنڈی  کی ” کنجی ” اس کے حسنِ فتنہ ساز کی قیمت ہے۔ پیشہ و طوائف کو اپنے گاہک کے ہندو مسلم عیسائی یا قادیانی ہونے سے نہیں، بلکہ اس کے کھنکتے نوٹوں سے غرض ہے۔ بعین  آج ہمارے میڈیا کا کردار بھی، مذہب اور ملک و ملت جیسی ترجیحات سے بے نیاز کسی  پیشہ ور عورت جیسا ہی ہے۔ میڈیا کو بھی ہندوتوا سے ملے یا مغرب و یہود سے حاصل ہوں، اشتہارات کی مد میں ڈالرز اور نوٹ ہی مطلوب و مقصود ہیں۔

مگر یہ حقیقت تو آفاقی ہے کہ ملک و ملت اور آزادی کیلئے اٹھنے والی، ٹیپو سلطان جیسے کسی مرد مجاہد کی تلوار صدیوں بعد بھی بیش قیمت و انمول رہتی ہے مگر زر کی پجاری رنڈی کے روشن خیال ہتھیار، حسن ڈھلتے ہی بے مول ہو جاتے ہیں۔

(تحریر ۔ فاروق درویش)


حالات حاضرہ کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

بالی وڈ کی سیکولر اداکارائیں اور مولانا فضل الرحمن کے پرستار

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button