حالات حاضرہ

ویت نام کی گوریلا وار سے جدید طالبان کی یلغار تک

طالبان نے مخالفین کیلئے عام معافی ، این جی اوز کی اجازت ، خواتین کیلئے اعلی تعلیم اور حکومت میں شمولیت کی حمایت سے مخالف پراپیگنڈا مہم کا ٹیبل الٹ دیا ہے

طالبان کی کابل کے تخت پر واپسی سے میڈم ملالہ سے سیاسی نابالغ بلاول زرداری تک سب مغرب پرستوں کے دل چکنا چور ہیں۔ ملالہ جی کو طالبان کی وجہ سے افغان خواتین کی تعلیم کے حوالے سے خامخواہ کی فکر لاحق ہے۔ لیکن ملالہ نے جس ہم خیال وزیر فواد چوہدری سے کچھ کرنے کو فون کیا ہے۔ طالبان اس لا دین شخصیت سے شاید بات کرنا بھی گوارا نہ کریں ۔ جبکہ امریکی ائرپورٹ پر امیگریشن کیلئے قطار میں کھڑے ہونے والے بلاول صاحب طالبان کے تخت کابل پر رونق افروز ہونے پر ” دہشت گردوں کی حمایت نہ کریں” جیسے خود کش بیانات سے خود کو امریکہ اور مغرب کا سچا سپاہی ثابت کرنے کی جو نابالغانہ کوشش کر رہے ہیں، وہ انہیں بڑی مہنگی بھی پڑ سکتی ہیں۔

دراصل ملالہ جی کے امریکی آقاؤں کو توقع تھی کہ 80 ارب ڈالرز کے جدید جنگی ساز و سامان سے لیس امریکہ کی تربیت یافتہ 3 لاکھ افغان فوج 70 ہزار طالبان کا راستہ بڑی آسانی سے روک لے گی۔ اس رینٹل فوج کو طالبان کیخلاف جنگی طیارے ، ہیلی کاپٹرز اور دیگر ہتھیار فراہم کرنے والے بھارت کو یقین تھا کہ اس کے اشرف غنی اور جنرل رشید دوستم جیسے مہان بغل بچوں کی بدولت پاکستان کیخلاف دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم رہے گا۔ لیکن جب وہ برائے فروخت افغان قیادت افغان خزانہ لوٹ کر بیرون ممالک فرار ہوئی تو بھارت کی سینکڑوں ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ڈوبنے کے ساتھ ساتھ اس کی ساری کھٹی میٹھی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ بھارتی ارمانوں کے شمشان گھاٹ پر ست رنگی ماتم کا شور بھارتی میڈیا پر سنا جا سکتا ہے۔

ویت نام کے کھیتوں اور کھلیانوں سے افغانستان کے کہساروں اور میدانوں تک ، امریکہ کی مہان سپر پاور کو میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کرنے والے بھوکے اور ننگے مزاحمت کاروں نے عملی طور ہر بتا دیا کہ جنگیں جیتنے کیلئے سپر پاور کی فوج اور مہان جنگی ساز و سامان نہیں قومی غیرت اور دھرتی سے وفا داری پہلی اور آخری شرط ہوتی ہے۔ طالبان کی طوفانی یلغار کی رفتار نے ڈالر بردار قیادت کو افراتفری میں بھاگنے پر مجبور کیا تو اس کے بعد افغان قوم کے غداروں اور امریکی ایجنٹس کا امریکی جہازوں کے ساتھ لٹکنے کا منظر بڑا ہولناک تھا۔ کابل ائرپورٹ پر امریکی فوج کا اپنے ان افغان مخبروں اور پالتو ایجنٹس پر گولیاں برسانا انتہائی عبرت ناک تھا جو افغانستان سے اپنے امریکی آقاؤں کے ہمراہ جانا چاہتے تھے

میرے مطابق طالبان کی واپسی پاکستان کیلئے قدرت کی غیبی مدد جیسی ہے۔ طالبان نے صرف کابل نہیں پورے خطے میں امریکی استعمار کی طاقت اور بھارتی دہشت گردی کی ہیبت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکالا ہے۔

آج طالبان ہی کی بدولت گذشتہ بیس برسوں سے قندھار اور چمن سے لیکر مزارشریف اور قندوز تک انٹی پاکستان عسکریت پسندوں کو تربیت ، فنڈنگ اور اسلحہ دینے والے بھارتی قونصل خانے اب ویران ہیں۔ زخم خوردہ امریکی اور بھارتی میڈیا پر طالبان کو امن دشمن ظالمان ثابت کرنے کی مہم شروع ہے۔ جبکہ طالبان نے مخالفین کیلئے عام معافی ، این جی او تنظیموں کی اجازت ، خواتین کے حقوق ، اعلی تعلیم اور حکومت میں شمولیت کی حمایت سے مخالف پراپیگنڈا مہم کا ٹیبل الٹ دیا ہے۔

ماضی جیسے شدت پسند اور جارحانہ طرز عمل کی بجائے اب صلح جوئی اور مصالحانہ رویہ اپنانے والے طالبان نے اپنی سابقہ پالیسیوں کی بجائے سافٹ حکمت عملی اختیار کر کے عالمی برادری کے قریب تر ہونے کیلئے مثبت طرزعمل اپنایا ہے۔ لیکن دوسری طرف انہوں نے جنسی بدکاری اور ہم جنس پرستی کیلئے سنگساری کی سزا کے اعلان سے ، بچی سے زیادتی کے مجرم کو فوری سزائے موت دیکر اور کابل کی سڑکوں پر کار چور کا مونہ کالا کرکے گھمانے سے یہ کھلا عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ اسلامی قوانین کے نفاذ او نظام ِ انصاف کی عمل داری کے بارے امریکہ یا مغرب کی کوئی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔

طالبان کی سافٹ حکمت عملی کے باوجود افغانستان میں پاکستان کی طرح برطانوی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستی کے حق میں ووٹ دینے والے چوہدری سرور جیسے مغربی ایجنٹ گورنر نہیں بنیں گے۔ اور نہ ہی وہاں شیریں رحمان ، پرویز رشید اور فواد چوہدری جیسے انٹی مذہب وزارتوں پر براجمان ہوں گے۔ افغان طالبان این جی اوز بنانے کی اجازت تو دیں گے ۔ لیکن ان کے افغانستان میں کسی لبرل کو ماروی سرمد کی طرح انٹی مذہب نعرہ بازی اور حیا باختہ عورت آزادی مارچ کرنے کی جسارت نہیں ہو گی۔

امریکہ  مغرب بھارت اور حتٰی کہ پاکستان کے لبرل سیاست دانوں ، مغربی پریس ، بھارتی میڈیا اور مذہب سے بیزار سیکولر بلاگرز کی طرف سے طالبان کی مخالفت میں زہریلی پراپیگنڈا مہم کی شروعات بتا رہی ہے۔ کہ اگلے دنوں میں پاکستان پر طالبان کی حمایت اور طالبان پر ظالمانہ کاروائیوں کے الزامات کا سلسلہ مذید تیز ہو گا۔ جبکہ یورپی میڈیا پر ابھی سے یہ پروپیگنڈا شروع ہے کہ طالبان کے آنے سے افغان سرزمین پر القاعدہ اور دیگر شدت پسندوں کو پھر سے پناہ گاہیں میسر ہوں گی۔ جس کے نتیجے میں یہ تنظیمیں از سر نو منظم ہو کر امریکہ اور مغربی طاقتوں کیلئے بڑے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی

وقت گواہی دیتا رہے گا کہ سابقہ صدر گورباچوف افغانستان میں اہنی روسی مہم جوئی کو غلطی قرار دے رہے ہیں ۔ اور موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن اگلی امریکی نسلوں کو افغان جنگ میں جھونکنے سے  انکاری ہیں ۔ مگر یہ سپر طاقتیں پھر بھی اپنی وحشت زدہ تاریخ سے سبق حاصل نہیں کریں گی۔ یہ عالمی بادشاہ گر ایک ملک میں دراندازی اور قتل عام کے بعد ہزیمت اٹھا کر نکلتے ہیں۔ اور پھر قتلِ انسانیت کی نئی تاریخ لکھنے کیلئے کسی دوسرے ملک میں ہلاکت خیزی کا طوفان بن کر داخل ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کے ہاتھوں کوریا سے لیکر ویتنام اور پھر عراق ، شام ، لیبیا اور افغانستان میں انسانی خون کی ہولی تاریخ کے اوراق سے مٹانا ممکن نہیں ہے۔

ماضی کی تاریخ دیکھیں تو فرانس نے 54ء میں ویتنام میں شکست کھا کر سبق نہ سیکھا۔ اور الجزائر کے مسلمانوں پر بدترین مظالم کا محشر برپا کر دیا۔ لیکن وہاں بھی حریت پسندوں کے ہاتھوں شکست کھا کر ناکامی ہی ہوئی۔

جاپان اور کوریا میں موت بانٹنے والے امریکہ نے ویتنام میں داخل ہو کر نیپام بموں کی وحشیانہ بمباری اور زہریلی اورنج گیس کے چھڑکاؤ سے 30 لاکھ ویتنامیوں کا قتل عام کیا۔ لیکن جب امریکہ کیخلاف برسرپیکار ویتنامی گوریلوں  کے ہاتھوں 60 ہزار امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی رائے عامہ کی آواز اٹھی، تو شکست خوردہ امریکہ اپنے پالتو ایجنٹس کو ایسے ہی اکیلا چھوڑ کر ویت نام سے نکل گیا، جیسے کہ آج امریکی فوج اپنے پالتو افغان ایجنٹوں اور بھارتی اہلکار اپنے کٹھ پتلی دہشت گردوں کو کابل ائرپورٹ پر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔

افغانستان کی سرزمین ملا عمر ، جلال الدین حقانی اور گلبدین حکمت یار جیسے ملی مجاہدین کے ساتھ ساتھ ببرک کارمل،  نجیب ، رشید دوستم اور اشرف غنی جیسے غداروں سے بھی بھری پڑی ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق صدر اشرف غنی کے فرار کے بعد ایک اور امریکی کٹھ پتلی نائب صدر امر اللہ صالح اور پنجشیر میں احمد شاہ مسعود مرحوم کے بیٹے احمد مسعود نے امریکی ڈالروں کے تازہ حصول کیلئے طالبان کیخلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اس امر کا واضع اشارہ ہے کہ امریکہ اور بھارت بہر صورت افغانستان میں قیام امن اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کیلئے سرگرم رہیں گے۔

طالبان حکومت کے قیام کے باوجود بھارت اپنے افغان ایجنٹوں اور پاکستان میں موجود سہولت کاروں کی بدولت اپنے دہشت گردی کے نیٹ ورک دوبارہ منظم کرنے کی سرتوڑ کوشش جاری رکھے گا۔ امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں طالبان پر دباؤ برقرار رکھنے کیلئے طالبان مخالف گروپس کی مدد سے اپنی پراکسی وار گیم جاری رکھیں گی۔ مستقبل میں ان قوتوں کی طرف سے ٹی ٹی پی اور بلوچ باغیوں جیسے انٹی پاکستان دہشت گرد عناصر کو عسکری بیساکھیوں اور فنڈز کی فراہمی پاکستان عسکری اداروں کیلئے ایک کڑا امتحان رہے گا۔

اگلے برس پاکستان ہی نہیں پورے خطے کیلئے بہت اہم ہیں ۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہوئی اس صورت حال میں مال کماؤ اور ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر گامزن رینٹل سیاست دانوں پر مشتمل پاکستانی سیاسی قیادت سے بین الاقوامی معاملات کا وژن اور حالات بینی کے فہم و ادراک کی توقع نہیں ۔

 ویت نام کی گوریلا وار اور افغان طالبان کی طوفانی یلغار کے ہاتھوں ناکام ٹھہرنے والے امریکہ کی سازشوں کا اگلا ممکنہ ہدف پاکستان ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ گذشتہ 40 برس سے افغان معاملات سے نبردآزما پاکستانی فوجی قیادت اور افغان پالیٹکس اینڈ کرائسس کے ہر بلیک اینڈ وائٹ سے مکمل آگاہی رکھنے والے انٹیلی جنس ادارے ملکی سلامتی اور ریاستی مفادات کے تحفظ کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ خطے کی موجودہ صورت حال میں فاروق درویش کا وہی دیرینہ موقف ہے کہ پاکستان کو ایک اور ڈپلومیٹک جنرل ضیاء الحق اور ایک اور پیٹریاٹک جنرل حمید گل کی ضرورت ہے

تحریر : فاروق درویش – واٹس ایپ – 03324061000


پاکستانی ڈیفنس انڈسٹری کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

پی کے ۔ 15، جے ایف ۔ 17 اور الخالد سے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر پراجیکٹ عزم تک

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button