بی بی سی کے دیس کے جنسی جرائم کا آئینہ
مغربی تہذیب کی تشہیرِ کے باعث پاکستان میں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے
پاکستان میں مشرقی تہذیب اور اسلامی اقدار پر مغرب اور مغربی عریانی کے علمبرداروں کے حملے شدت اختیار کر رہے ہیں۔ یورپی اور یہودی پریس پاکستان ا ور اسلامی معاشرت کیخلاف زہریلہ پروپیگنڈےکو عوامی اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ بی بی سی پر ہر سال ایک نئی رپورٹ شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ جیسا کہ ، پاکستانی پارلیمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دو برسوں کے دوران جنس زیادتی کے تقریباً پانچ ہزار مقدمات درج ہوئے ۔ جبکہ عدالتی سزائیں محض 219 افراد کو ہی مل سکی ہیں ۔۔
دودھ کے نہائے مغرب ی پریس کے جواب میں مغربی پریس ہی سے ماخوذ کچھ اعداد شمار پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ یہ حقائق مغربی تہذیب کے پرستار عناصر کے دماغ کی بتی جلانے کیلئے کافی ہوں گے۔ گو کہ مغربی تہذیب کی تشہیرِ عریانی کے باعث ہی پاکستان میں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ان کا موازنہ اگر مغربی تہذیب کی مادر پدر آزاد جنسی وحشت سے کیا جائے تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مغربی طاقتیں جس مادر پدر آزاد تہذیب کو پاکستانی معاشرت میں انجیکٹ کرنا چاہی ہے ۔ اس کا عکس یورپ میں روزمرہ کے جنسی جرائم میں جھلکتا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ برسوں برطانوی اخبارات ہی کی خبر تھی کہ ڈربی شائر میں گیارہ سالہ ، تیرہ سالہ اور پندرہ سالہ عمروں کی تین سگی بہنیں، حاملہ ہوگئیں۔ برطانوی اور دیگر یورپی اخبارات ممیں بڑے فخر کے ساتھ ان کی تصاویر چھپیں ۔ لیکن حیرت ہے کہ کسی پاکستانی این جی او کوئین نے ان معصوم بہنوں پر اس ظلم کیخلاف ان کی تصویریں بانس پر چڑھا کر نہ پوری دنیا کا چکر لگایا، نہ موم بتیاں جلائیں اور نہ ہی چرخہ کاٹا۔ نہ انہیں مختاراں مائی کی طرح اقوام متحدہ کے کسی ادارے نے دعوت دی اور نہ ہی شرمین عبید نے ان پر کوئی ڈاکومنٹری فلم بنائی ۔،
آج دس برس بعد ایسے کیسوں کی تعداد میں کتنے سو گناہ اضافہ ہو چکا ہے، اس حوالے سے اس جدید مغربی تہذیب کا وہ ہولناک منظر سب کے سامنے ہے جس کے بارے حضرت اقبال نے "تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی” کی آفاقی پیشین گوئی کی تھی۔ ماضی میں ایک برطانوی اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر بھی مغرب کے ماتھے پر بد نما داغ بنی کہ ویسٹ منسٹر لندن اسکول کے ایک پندرہ سالہ طالب علم نے اپنی اٹھائیس سالہ استانی کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کے بعد، اسے مونہہ کھولنے کی صورت میں قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔ مابعد جرم ثابت ہونے پر اس پندرہ سالہ جنسی جوان کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔
احباب ان دو واقعات ہی سے مغربی تہذیب کی جنسی ہوس ناکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ غلاظت آلودہ جنسی تحریک صرف نوجوانوں میں عام نہیں ، بلکہ کم سن گورے بچے بھی ہوس پرستی کے اس طوفان کی زد میں ہیں۔
تہذیبِ مشرق کیخلاف برسر پیکار بی بی سی کے علم میں یہ ضرور ہو گا کہ عالمی اداروں کے اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر دومنٹ بعد میں ایک جنسی جرم برپا ہوتا ہے، جو سالانہ آٹھ لاکھ کے قریب ہے ، جبکہ برطانیہ میں بھی سالانہ ایک لاکھ نوے ہزار جنسی ریپ کے کیس ہوتے ہیں۔ ماضی میں امریکہ میں جنسی زیادتی کے کیسوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد تھی۔
اور حیران کن طور پر دس فیصد جرائم مردوں نے نہیں بلکہ عورتوں نے مردوں کیخلاف کئے۔ چوالیس فیصد جنسی جرائم میں عورتوں کی عمر اٹھارہ سال جبکہ پندرہ فیصد کیسوں میں لڑکیوں کی عمر بارہ سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان یا کسی مشرقی ملک کے نہیں بلکہ خود بی بی سی ہی کے دیس برطانیہ اور امریکی اتحادیوں کے اس ان مہذب اور تعلیم یافتہ معاشروں کے ہیں، جو اس دنیا کے معلم اور آئیڈیل بنے ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ” پاکستان میں بڑی تعداد میں جنسی زیادتی کے واقعات کے مقدمے درج نہیں کروائے جاتے اس لیے یہ تعداد دراصل کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے "۔ لیکن یاد رہے کہ پاکستان وہ اسلامی جمہوریہ ہے جہاں واشنگٹن، لندن اور نیو دہلی کے ہدایت کاروں کی سرپرستی میں سٹیج کردہ مختاراں مائی اور ملالہ جیسے ڈراموں میں خواتین اور طالبات کے ساتھ زیادتیوں کا معاملہ ملکی اورعالمی میڈیا میں خاصا عروج پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ اور پھر ہماری این جی او شہزادیوں کے ” موم بتی جلاؤ ، غیرت مکاؤ پروگراموں” کے ذریعے ، ان معاملات کو مغرب و ہندوآتہ کی منشا کے عین مطابق نہ صرف وطن عزیز بلکہ ملت اسلامیہ اور پاکستانی قوم کی رسوائی کا باعث بنایا جاتا ہے۔
قابل غور ہے کہ جب ایک سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے کزن بلال مصطفے کھر کے ہاتھوں تیزاب سے جلائی گئی، فاخرہ یونس خودکشی کرتی ہے تو اس کا جرم نہ تو این جی او کی کسی مسیحائی بیگم کو نظر آتا ہے اور نہ ہی وہ ظلم و جبر صدائے حق کے دعویدار دیسی و بدیسی میڈیا کیلئے قابل تحریر و بیاں ہوتا ہے ۔
چونکہ ہمارے ادارے اور معاشرہ انتہائی بدنامی سے دوچار اور یہاں معاشرتی اصلاح کے تمام پہلو مفقود ہیں ، لہذا یہاں کے اکا دکا واقعات اور اصلی یا مغربی ساختہ جرائم کا عالمی و ملکی میڈیا کے ہاتھوں پراپیگنڈا ہتھیار بن جانا غیر معمولی حیرت کا باعث نہیں۔ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ہماری مغرب زدہ این جی اوزملکمل طور پر مغرب اور ہندوآتہ کنٹرول میں ہیں۔ ان کا پروگرام اور مشن نئی نسل کو مغربی تہذیب جیسا ننگِ حیا، ننگِ اخلاق اور مادر پدر آزاد ایسا مسلمان بنانا ہے جو امریکی اور برطانوی ماڈل کے اسلام یافتہ ہوں۔
تشویش ناک بات ہے کہ ہماری مغربی غلام اور گستاخین قرآن و رسالت این جی او مافیوں کی ” مسلمان ملکائیں ” ماتھے پر تلک لگائے بال ٹھاکرے کے قدموں ، مندروں میں پوجا پاٹ اور گاندھی جی کی تصویروں کو پرنام کرتی نظرآتی ہیں۔ جبکہ ہمارے میڈیا کے خواتین و حضرات کی سی آئی اے اوراینٹی پاکستان ایجنسیوں کے ساتھ سوشل انٹرایکشن اور رنگ رلیوں کی تصاویر میڈیا کی ملک و قوم سے جھوٹی وفا کی سچی کہانیاں کہانیاں بیان کرتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 597 خواتین سے اجتماعی زیادتی کی گئی جبکہ ریپ کے واقعات کی تعداد 828 تھی۔۔۔ احباب یاد رہے کہ یہ ہیومن رائٹس کمیشن وہ ادارہ ہے جو دنیا میں آزادانہ سیکس پر مبنی معاشروں کا کھلا سپورٹر ہے، اسی ادارے نے پوری دنیا میں ہم جنس پرستی کو انسانی حقوق قرار دیکر اس بد فعلی کے فروغ میں ابلیسی کردار ادا کیا ہے۔ اسی ہیومن رائٹس کمیشن کی انتھک دجالی کوششوں کی بدولت آج امریکہ کی دس ریاستوں اور آدھے مغرب میں ہم جنس پرست شادیاں قانونی شکل اختیار کر چکی ہیں۔
پاکستانی معاشرت کے نقاد مغربی دانشروں کے اپنے معاشروں کا یہ حال ہے کہ جنسی جرائم میں غلیظ ترین حالت یعنی فیملی سیکس میں بھی اس آخری حد کو چھو چکے ہیں جس کا انجام بالآخرعذاب الہی ہی ٹھہرتا ہے۔ مغرب میں تیزی سے فروغ پانے والے پلید فعل کے عادی معاشرے کی مثال ہالینڈ ہے۔ جہاں بھائی بہن اور باپ بیٹی سمیت ، ہر طرح کے جنسی تعلقات کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ فری سیکس قانون کے حامل اس گورے ملک میں بغیرشادی کے حاملہ ہونے والی لڑکیوں کی تیس فیصد سے زائد تعداد اپنے ہی سگے باپ یا بھائی کے گناہ کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے ۔۔۔۔
بی بی سی لکھتا ہے کہ ” شدت پسندی سے بری طرح متاثر خیبر پختونخوا میں اس عرصے کے دوران جنسی زیادتی کے 215 مقدمات درج کیے گئے جن میں صرف دو افراد کو سزا ہو سکی اور باقی سب مقدمات التوا کا شکار ہیں "۔۔۔۔۔۔۔ میرے مطابق کروڑوں نفوس کی آبادی رکھنے والے ، مسلم تہذیب و ثقافت کے نشان اس صوبے میں دو برس میں اتنی کم تعداد میں جنسی جرائم ، دراصل یہاں کے مذہبی اور غیرت مند پختون لوگوں کے شفاف و دیندار معاشرے کی روشن دلیل ہے۔ لیکن ہاں دو سو سے زائد مقدمات میں صرف دو مجرموں کو سزا ملنا انتہائی تشویشناک صور حال اور قابل تنقید امر ہے۔ اس حوالے سے مظلوموں کو انصاف اور عین انصاف فراہم کرنے کی دعوی دار جماعت تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور عدلیہ کی کارکردگی ایک چبھتا ہوا سوالیہ نشان اور اصلاح طلب مسئلہ ہے۔ ۔
بی بی سی نے لکھا ہے ے کہ ” وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی آبادی کے اعتبار سے ریپ کے مقدمات کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ یہاں 39 مقدمات درج تو ہوئے لیکن اب تک کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دی جا سکی "۔ اسلام آباد میں کسی بھی مجرم کو سزا نہ ملنے کی صورت حال افسوس ناک ہے ۔ ممکن ہے کہ اسلام آباد کے ایک بین الاقوامی شہر ہونے کی وجہ سے یہاں جنسی جرائم کے مجرموں کو سزا دینے میں رعایت برتی جاتی ہے۔ شاید یہ اس ماڈرن شہر میں مغربی تہذیب کے نمائیندہ غیر ملکی سفارت کاروں اور پاکستان میں عریانی و فحاشی کے فروغ کی ذمہ دار بین الاقوامی این جی اوز تنظیموں کی موجودگی کا اثر ہے۔
ممکن ہے حکومت دنیا کے روش خیال طبقات اور گورے آقاؤں پر اپنا روشن خیالانہ انداز فکر ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ماضی میں امریکی سفیر کیمرون منٹر اور تحریک انصاف کی خاتون لیڈر فوزیہ قصوری کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجہ میں ہم جنس پرستی کی کانفرنسیں اور سیمینار بھی اعلانیہ منعقد ہو چکے ہیں۔ لیکن مابعد امریکی مداخلت کے بعد ان سیمیناروں کیخلاف اٹھنے والی احتجاجی آوازیں اور پھر پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں ہونے والی تحقیقات کی فائلیں بھی دبا دی گئیں ۔
اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہوسٹل کے رنگین افسانوی ماحول کی طرح، آج اس شہر کی رنگینیوں میں میں دیسی و بدیسی قحبہ خانے اور انٹرنیشنل مساج سینٹرز اپنی پوری فتنہ خیزیوں کے ساتھ فعال ہیں۔ جیالے مانیں یا نہ مانیں، اسلام آباد کو روش خیال اور لبرل اسلامی دارالخلافہ بنانے کے بانی قائد عوام بھٹو صاحب اور یحیی خان ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان سے قبل جنرل رانی اینڈ کمپنی نے اسلام آباد میں قحبہ خانوں کی جو پیوندکاری کی اسے روکنا اب شاید کمزور حکمرانوں کے بس کا روگ نہیں، کہ اس کیلئے پہلے مغربی غلامی کا طعوق گلے سے اتار پھینکنا ہو گا ۔۔۔۔
آج ایک طرف سامراج و مغرب اور ہندوتوا ہماری سلامتی کیخلاف متحد و سرگرم ہے۔ تو دوسری طرف ” فورتھ جنریشن ڈاکٹرائن” کی دجالی حکمت عملی کے تحت یہود و نصاری اور بھارت کی تہذیبی یلغار ہم سے ہماری مسلم شناخت چھیننے کیلئے اپنے دیسی و بدیسی ثقافتی ہتھیاروں سے حملہ آور ہے۔ یاد رکھئے کہ اس ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور حساس اثاثوں کا دفاع اگر افواج پاکستان کا فرض ہے، تو ۔ وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں اور اپنی تہذیبی اساس کا دفاع ، ہم لا الہ کے وارث ، پاکستانی عوام کا قومی و ملی فریضہ بھی ہے ۔۔۔۔۔