سیکولرازم اور دیسی لبرلمشرق و مغرب

ہم جنس پرستی کی علمبردار بیکن ہاؤس کی سیاسی میڈم

ایسے لوگوں کی حمایت " جنسی مریضوں " کی " مغربیت پسندی" نامی اس ایمان لیوا بیماری کی سب سے خطرناک علامت ہے جس کا  انجام صرف قوم لوط جیسی تباہی  و بربادی ہے

بیکن ہاؤس سکول کی انٹی مذہب ، انٹی پاکستان  اور دیگر  مذموم کارناموں  کی کہانیاں منظر عام ر آتی رہتی ہیں ۔ ماضی میں بھی   اس سکول کے بارےکئی  دل آزار حقائق  آئے  ۔لیکن ایک مدت سے  اس  سکول  کی انٹی پاکستان سرگرمیاں اور  انٹی اسلام  روش جاری ہے۔ آ پ شاید بھول چکے ہوں مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسرائیلی دہشت گردانہ حملے کا شکار ہونے والے بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا میں سوار پاکستانی صحافت کے شیر دل  طلعت حسین گرفتار ہوئے تو  جیو کے  حامد میر نے واضع الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان میں دو شخصیات ایسی ہیں جو اسرائیلی وزیر  اعظم  اور  دیگروزرا کے ساتھ انتہائی قریبی  روابط  رکھتی ہیں۔  یہی دو ہستیاں طلعت حسین کو اسرائیلی قید سے چھڑوانے میں کوئی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

حامد میر کے بتائے ہوئے وہ دو محترم   پیشہ ور لوٹا خورشید محمود قصوری اور ہلری کلنٹن کے ساتھ شراب و شباب کی محفلوں میں جام سے جام اور سر سے سر ٹکرانے والا ابن الوقت لوٹا شاہ محمود قریشی تھے۔ جی ہاں یہ وہی صاحبان ہیں جو اب لوٹا کریسی  کے زبانی مخالف عمران خان کی انقلابی جماعت کے اہم راہنما ہیں۔ پھر مشرف دور میں ہی یہ خبر بھی سامنے آئی کہ خورشید محمود قصوری نے ترکی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے مبینہ ملاقاتیں کیں  تو اس کا متنازعہ و مشکوک کردار مزید کھل کر سامنے آیا تھا۔

یاد رہے کہ جب سیاست ایک منافع بخش پیشہ اور لوٹا کریسی پاکستان کے سیاسی کلچر کا جزو لازم ٹھہری ہو تو یہ اعتراض بھی  بے  معنی لگتا ہے کہ سابقہ کرپٹ حکومتوں  کے کارخاص خورشید محمود قصوری اور شاہ محمود قریشی جیسے  پیشہ ور  لوٹے ، زرداری کرپشن کے ہتھیار بابر اعوان اور سدا بہار لوٹی  فردوس عاشق اعوان جیسے کردار  اب تحریک انصاف میں کیوں گھس بیٹھے ہیں۔

لیکن اعتراض کرنے والوں کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ ایسے سب خواتین و حضرات سدا سے ہی ازلی تا ابدی پیشہ ور لوٹے شمار ہوتے رہے ہیں۔ اور جب حصول اقتدار کیلئے سامراجی بادشاہ گروں اور مغربی طاقتوں کی غلامی اور صیہونی قوتوں کی فرمانبرداری لازمی قرار پائے تو قصوری اور قریشی جیسوں کی اس "مجبوری” پر اعتراضات اٹھانا بھی صرف رسمی بات یا وقت کا ضیاع ہے ۔ سو میں صرف ان غلاظت آلودہ، مکروہ  و پراگندا خبائث اور اعتراضات پر بات کروں گا جو بحیثیت ایک مسلمان نہ مجھے  اورنہ ہی  عمران خان  یا نواز شریف کے کسی حامی کو قبول ہوں گے۔

ہاں ان اعتراضات کو  ماروی سرمد، ایاز امیر، مرزا مسرور یا حسن نثار جیسے وہ لوگ کبھی نہیں مانیں گے جو دین محمدی کی بجائے امریکہ کے پسندیدہ برانڈ لبرل اسلام کو دنیاوی جنت کیلے سرٹیفیکیٹ مان کر قرآن حکیم کو برحق فلسفہء حیات نہیں مانتے۔ 

ماسوائے منافقین کے کسی بھی مسلمان کیلئے کوئی سیاسی نظریہ یا سیاسی کردار، اللہ رب العزت، قرآن حکیم، دین اسلام اور ناموس رسالت سے اہم اور معتبر تر نہیں اور قرآنی احکامات کی ضدی نافرمانی جہالت نہیں عین کافرانہ عمل ہے۔ احباب ہم جنس پرستی کی لعنت اور قدرتی انجام کے بارے میرا بلاگ مضمون ” قومِ لوط کے شہر ِ سدوم سے پنٹاگون اور پاکستان  تک ” ضرور پڑھیے گا۔

پاکستان میں باضابطہ طور پر سب پہلے   الطاف حسین  مافیہ نے انسانی حقوق کی آڑ میں ہم جنس پرستی کے حق میں آواز اٹھانے والی  تنظیموں کو پروموٹ کرنا شروع کیا، اس حوالے سے متحدہ کے وائس چئرمین ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک ہم جنس پرست تنظیم این ایم ایچ اے کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں انہیں اپنی جماعت کے مکمل تعاون کا یقین دلوایا اور ان کے ساتھ گروپ فوٹو  شائع کروا کے پاکستانی عوام  کو یہ پیغام دیا  کہ ہم آپنے امریکی آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی قدروں کو روندنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

اس حوالے سے ہم جنس پرست مغرب کی ترجمان بی سی سی نے لکھا تھا کہ ” کراچی میں ہم جنس پرستوں کے مخصوص مقامات ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ شہر سے باہر ساحل سمندر اور فارم ہاؤس ان کی بڑی پارٹیوں کا مرکز ہیں جس کیلیے ہفتے کی شام مختص ہوتی ہے”۔ 

 امریکی سفیر کیمرون منٹر اور خورشید قصوری خاندان کی دوستی کافی گہری رہی ہے سو امریکی سفارت خانے کے زیرسایہ  ہم جنس پرستی کے موضوع پر کانفرنس میں تحریک انصاف کے شعبہ خواتین کی اس وقت کی صدر فوزیہ قصوری صرف شریک نہیں ہوئی بلکہ اس  اجتماع کی روح رواں رہیں۔ امریکہ کی طرف سے اسلام آباد میں اس ہم جنس پرست کانفرنس کے انعقاد کی مخالفت میں کافی شور اٹھا تو تحریک انصاف شعبہ خواتین کی صدر فوزیہ قصوری نے عزت بچانے کیلئے خاموشی اختیار کر لی۔

لیکن مابعد ہم جنس پرستوں کیلئے ان کی ہمدردی اور پذیرائی کی بات یہی نہیں رکی بلکہ اگلے برس جولائی 2012 میں اسی فوزیہ قصوری نے اپنے آقا حکام اور امريکی سفارت خانے  کے  نقش قدم پر چلتے ہوئے پہلے   بیکن ہاؤس سکول  اسلام آباد مین برانچ  میں  ستائسویں  رمضان المبارک  کی شب موسیقی اور رقص کا پروگرام اور پھر  ہم جنس پرستوں کا اجتماع کروا کر اپنی جرات مند بے شرمی پر پوری قوم کو حیران کر دیا۔

فوزیہ قصوری کی طرف سے منعقد کئے گیے اس قابل اعتراض شیطانی مباحثے کیخلاف آواز اٹھانے کیلئے دی ایجوکیٹر اور بیکن ہاؤس سکول کے مضطرب والدین نے جب قومی اسمبلی کے اراکین سے رجوع کیا تھا تو کئی میڈیا اینکرز بھی گواہی دینے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے رووبرو پیش ہونے پہنچ گیے تھے۔ یہ کوئی من گھڑت الف لیلوی داستان نہیں بلکہ اس سلسلے میں ساری تحقیقات کا ریکارڈ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور پریس اینڈ میڈیا کے ناقابل تبدیل و تردید ریکارڈ پر موجود ہے۔

بیکن ہاؤس کے طلبا و طالبات کے والدین اور ذمہ دار صحافیوں نے  تمام واقعات اور معاملات  کو ممبران قومی اسمبلی اور حکومتی نمائیندوں کے سامنے رکھتے ہوئے اپنے شدید تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ ہم جنس پرستی مباحثوں کے اس انعقاد پر قصوری برانڈ بیکن ہاؤس سکول کے منتظمین کیخلاف زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ جن کے بعد منتظمین کیخلاف فوجداری کارروائی کیلیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی کی سفارشات پر عمل درآمد کیلئے، وزارت تعلیم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹس بھجوا کر قانونی نوٹس بھی تیار کر لیے گئے تھے۔

مگرعین وقت پر مسز فوزیہ قصوری کے امریکی سرپرست انہیں بچانے کیلئے پوری طاقت سے میدان میں کود پڑے، وزارت دباؤ میں آ گئی اور پھر قائمہ کمیٹی نے تین اگست 2012 کو اپنے غیر معمولی اجلاس میں حکومت کو ان سکولوں کی انتظامیہ کے خلاف فوجداری مقدمات کے اندراج اور رجسٹریشن کینسل کرنے پر نظر ثانی کی سفارش کر دی۔ اور یوں ہم جنس پرستی اور فحاشی کے علمبردار امریکی آقاؤں نے اپنی بغل بچی  اور ان کے بیکن ہاؤس سکول کو پابندی سے بچا کر ہر اسلام دشمن سے مخلص ہونے کا ثبوت دیا۔ 

قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم جنس پرستی سیمینار کروانے سے قبل بھی بیگم فوزیہ قصوری مختلف نوعیت کے تنازعات میں کافی نام کما چکی تھیں ۔ تحریک انصاف کے حق گو لوگ بھی گواہ ہیں کہ تحریک انصاف خواتین ونگ کی یہ سربراہ اور اس کی ہونہار بیٹی  بسمہ قصوری رمضان کے مقدس مہینے میں اسلام آباد کے سکولوں میں ولائتی میوزک شوز، فحاشی کو فروغ دینے والی مخلوط ڈانس پارٹیوں کے انعقاد اور نیم عریاں لباسوں میں ساحل سمند پر ہلہ گلہ کرنے جیسے انگنت انقلابی اقدامات سے کافی شہرت حاصل کر چکی ہیں۔

 کیا یہ بھی ایک قومی اور ملی المیہ نہیں کہ قوم کو تبدیلی کی امید دلانے والےعمران خان کی تحریک انصاف اب لوٹوں اور دوسری پارٹیوں سے مفرور کرپشن کنگز اور ہم جنس پرستی و فحاشی کے فروغ کیلئے سرگرم  امریکی آلہ کاروں نے ہائی جیک کر لی ہے۔ شیریں مزاری  امریکی صدر کو ہم جنس پرست شادیوں کے قانون کے پاس ہونے پر مبارکباد دینے والی بیٹی کی حمایت میں قرآن و شریعت کے نظریات کی دھجیاں اڑاتی  رہی ہے.

برطانوی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرست شادیوں کے حق میں کمپین اور ووٹ دینے والے  گورنر پنجاب چوہدری سرور صاحب بھی اب پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈروں میں شامل  ہیں۔ کیا یہ قوم کی بدقسمتی نہیں کہ سیاسی شوز کو گستاخ قرآن گویے سلمان احمد جیسے  میوزک شو  والے اس قوم کو مغرب کی پلید و مکروہ "مہذب معاشرت” کی طرف دھکیل کر مادر پدر آزاد بنانے کیلئے وہی کچھ کر رہے ہیں جو امریکی سامراج اور یہود و نصاریٰ کا دیرینہ منصوبہ ہے۔ اس حوالے سے سب سے خطرناک امر  سیاسی  نقلاب کے علمبرداروں کا قوم لوط جیسا دین سے بغاوت پر آمادہ ضدی رویہ ہے۔

سورۃ القمر میں ارشاد خداوندی ہے۔ ” اور لوط نے اپنی قوم کے لوگوں کو ہماری (جانب سے بھیجی گئی) سزا سے خبردار کیا لیکن وہ ساری تنبیہات پر شک کرتے اور انہیں نظر انداز کرتے رہے "۔ احباب شعر پرانا ہی سہی لیکن حسب حال و ہر دم ترو تازہ ہے کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ مغرب پرستی میں احکامات الہی کو نظر انداز کرنے والے سیاسی دوستوں کو اسی فکر کی دعوت دینے کیلئے ایک بار پھر قرآن اور عین  دین کی بات کی ہے۔

آپ سو دفعہ عمران خان زندہ باد کا نعرہ لگائیں، آپ  ہزار بار نواز شریف مردہ باد کہیں۔ لیکن خدارا ایک بار صرف ایک بار اپنے انقلابی  راہنماعمران خان کو یہ بھی باور کرائیں  کہ  سلمان احمد جیسے گستاخین قرآن و اسلام  اور ہم جنس پرستی کے مصدقہ پیامبر فوزیہ قصوری ، شیریں مزاری، چوہدری سرور  یا  دینی اقدار کے کھلے باغی فواد چوہدری جیسے انٹی مذہب  عناصر کیلئے کم از کم مسلمانوں کی کسی سیاسی جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔  ایسے لوگوں کی حمایت ننگِ اخلاق ” جنسی مریضوں ” کی ” مغربیت پسندی” نامی اس ایمان لیوا بیماری کی سب سے خطرناک علامت ہے جس کا  انجام  صرف قوم لوط جیسی تباہی  و بربادی ہے۔۔۔۔

فاروق درویش ۔۔  واٹس ایپ ۔۔ 00923224061000 


برطانوی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستی کے حامی پاکستانی سیاست میں

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

6 Comments

  1. میں یہ نہیں کہتا کہ کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ البتہ یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہے کہ کس کا عمل اللہ کے حکم کے مطابق ہے اور کس عمل اللہ کے حکم کے خلاف ہے۔ رہی بات فاروق صاحب آپ کے مضمون میں پیش کیے گئے حقائق کی تو یہ وہ حقائق ہیں جو میڈیا پر آچکے ہیں۔ یاددہانی کا شکریہ۔ عوام کا حافظہ کمزور اور جذباتی قسم کا ہوتا ہے اور یہی شے قرآن کے مطابق کسی قوم پر عذاب کا ذریعہ بنتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو بہت جلد بھول جاتی اور رنگ رلیوں میں مست ہوجاتی ہے۔ اللہم احفظنا منہم

  2. ager imran khan na asai gendai bendai rekhai hain to pher imran bi genda hoya. laken asi kia waja ha ka imran ko is ka dushmen bi genda nhain keh sekta. aur her benda us ki wafadari per yaqeen rekhtai hain. to asaa kasai ho sekta ha ak aik achaa bendai in gendai bendon ko rekh ker apna naam kheraab kerta. darwaish sab hoosh kerain darwaish jooot nye boltai. apnai naam sai derwaish hetaa dain. aur derwaish ki bajya wo naam likhain jo sher phalata ha. Allah aap ko hidyat da

    1. برادر کاشف ۔ فوزیہ قصوری اور سنگر سلمان احمد جیسے اسلام دشمن سیکولر بدبخت گماشتان دہر لوگ، عمران خان کے ساتھ ہوں یا عاصمہ جہانگیر اور نجم سیٹھی جیسے ننگ دین عناصر، نواز شریف کے ہمراہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں ہر حال میں تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ہندوتوا اور مغرب کے ان سب پلید ایجنتوں کو بے نقاب کرتے رہنا ہے۔ خوش آباد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button