حالات حاضرہریاست اور سیاستنظریات و مذاہبِ عالم
Trending

عظیم عیسائی پادری کا تاریخ ساز فیصلہ اور غداروں کا انجام

اس تاریخی تحریر سے اندازہ ہو گا کہ مسلم ممالک کے برعکس مغرب میں اپنے ملک و مذہب کے غدار بہت کم کیوں ملتے ہیں

اہل علم و دانش کہتے ہیں کہ اس ست رنگی عالم فانی کی تاریخ کا کردار بھی ایک ماں جیسا ہی ہے۔ اس ماں کی کوکھ سے عرصہ بہ عرصہ کبھی ہولناک سانحات اور کبھی خوش گوار واقعات جنم لیتے ہیں۔  تاریخ ماں کی کوکھ سے واقعات اور انسانی ماں کی کوکھ سے بچوں کا جنم،  نظام قدرت اور سنت الہی کا حصہ ہے۔ جیسے عورتوں کے رحم سے نومولود بچے دنیا میں آتے ہیں، ایسے ہی ” تاریخ کے رحم ” سے بڑے بڑے واقعات جنم لیتے ہیں۔

جیسے ماؤں کی کوکھ سے جنم لینے والے اچھے لوگ نوع انسان کیلئے  فلاح  اور برے انسان دوسرے انسانوں کی زندگیوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، ایسے ہی تاریخ سے جنم پانے والے واقعات اور سانحات، خود سے جڑے دوسرے اچھے یا برے واقعات کو جنم دیتے ہیں۔  تاریخ سے جنم پانے والے فتح اندلس اور فتح بیت المقدس جیسے واقعات کا ذکر ہوتا ہے تو طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی جیسے عظیم کرداروں کا نام سنہری حروف میں جگمگاتا ہے۔ جبکہ اسی تاریخ کی کوکھ سے پیدا ہونے والے سقوط بغداد اور سقوط  ڈھاکہ کے سانحات سے جڑے غداروں ابو العلقمی اور مجیب الرحمن جیسے ننگِ  ملک زمانوں کیلئے  تادم حشر قابل دشنام رہیں گے

یہ مغربی  طلسم میں گرفتار  دانشوروں کو ناپسند  ملاؤں  کے لکھے  قصے نہیں ۔  قرآن حکیم میں  قومِ نوح ؑ، قوم عاد، قومِ ثمود، قومِ لوطؑ اور بنی اسرائیل کے ان بھٹکے ہوئے لوگوں پر اللہ کے عذاب کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے انبیائے حق کی مسلسل تنبیہوں کے باوجود غدارِ مذہب بن کر قوانین قدرت توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اور پھر عذابِ الہی  کے بعد ان کی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ کر آنے والے زمانوں کیلئے انمٹ  نشانات عبرت چھوڑ گئیں۔

قصص القرآن کے مطابق جہاں ان قوموں میں بھٹکے ہوئے لوگ تھے وہاں کچھ ایسے لوگ بھی ضرور موجود  تھے جو بہر صورت حق کی راہ  پر ثابت قدم رہے۔ بعین مغربی اور مشرقی معاشرے میں ظہور اسلام سے پہلے اور مابعد ، مذہبی روایات،  اخلاقی اقدار اور قوانین قدرت کے پابند لوگ بھی موجود تھے ۔اور مذہب و اخلاقی قیود سے مادر پدر آزاد معاشرت کے خواہاں ایسے حضرات بھی سرگرم تھے جن کی ابلیسی جدوجہد معاشرے میں بگاڑ اور عبرت ناک انجام کا سبب  بنتی رہیں۔

زمانہ اسلام سے پہلے کا رومن، یونانی یا عیسائی معاشرہ ہو یا ظہور اسلام کے بعد کی مسلم، عیسائی اور لادین ریاستیں ، مذہب کا ہر غدار، اپنے ملک و قوم کا بھی غدار ثابت ہوا۔ لیکن عالمِ انسان کی اول تا آخر،  تاریخ  دیکھ لیں، آسمانی مذاہب اور قوانین قدرت کا کوئی باغی، کوئی ایک غدار ملک و قوم بھی اپنے عبرت ناک انجام سے بچ نہیں پایا۔

دنیائے عیسائیت کیلئے  ایک مقدس ہستی کا درجہ رکھنے والی  خاتون ، بائبل کے مشہور کردار جوڈتھ نےمجبور عوام کو  دعویء خدائی کرنے والے شاہ گڈ نصر کی پوجا پر مجبور کرنے والے  جرنیل ہولوفرنس کا سر تن سے جدا کر کے عبرت ناک انجام تک پہنچایا۔  جولیس سیزر کا غدار قاتل جنرل بروٹس ہولناک انجام کا شکار ہو کر تاریخ کا سیاہ دھبہ بن گیا۔ ملکہ قلوپطرہ نے  اپنے  پہلے نابالغ  خاوند  اور مابعد دوسرے خاوند  جنرل انتونی  کے ساتھ ساتھ  ریاستی اور مذہبی قوتوں  سے غداریاں کیں  اور بالآخر خود کو سانپ سے ڈسوا کر خودکشی پر مجبور ہوئی۔

روم کو آگ لگا کر  بربادی کا  تماشہ دیکھنے اور معصوم عیسائی شہریوں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈال کر لاشوں کی مشعلیں جلانے والا  سنگدل شاہ نیرو، جمہوری قوتوں کے ہاتھوں شکست کھا کر خود کشی پر مجبور ہوا۔ سقوط غرناطہ میں تاج قشتالہ اور اراغون کے حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے مددگار غدار مسلم امراء بھی بے گناہ عوام کے ہمراہ قتل کر دئے گئے۔  ہلاکو خان کو بغداد پر حملے کی دعوت دینے والے وزیر العلقمی کو بغداد کی تباہی کے بعد ساتھیوں سمیت بھیانک انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ امت مسلمہ کے  دہشت گرد حسن بن صباح کا آخری خلیفہ ہزاروں پیروکاروں سمیت ہلاکو خان کی بربریت کا شکار ہوا تو  خطہء عرب سے فتنہء حشاشین کا نام و نشان تک مٹ گیا۔

 شاہجہاں کا روشن خیال بیٹا دارالشکوہ،  لادینوں،  سکھوں اور مرہٹوں کے ہاتھ میں کھیل کر اخوت بین المذاہب کے  نعرے کے ساتھ  منکر الہی اور غدار  بنا ، تو اپنے ہی  بھائی اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں سر قلم کروا کر بھیانک انجام کو پہنچ گیا ۔ میسور کی فوجوں کا  سپہ سالار میر صادق انگریزوں کا آلہ کار بن کر سلطان ٹیپو کو شہید کرواتا ہے تو چند ہی گھڑیوں بعد  ایک وطن پرست مسلمان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو کر کئی روز تک بنا دفن ہوئے لوگوں کی ٹھوکریں اور لعنتیں سمیٹتا رہا۔

شیر بنگال نواب سراج الدولہ سے غداری کرنے والا میر جعفر اس کا بیٹا میر میراں اور بھتیجا میر قاسم  انگریزوں کے وفادار کتے بننے کے باوجود تا دم مرگ عوام کے عتاب اور طعن و دشنام کا شکار ہو کر  مرے۔ جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ اور جذبہء جہاد سرد کرنے کیلئے مغرب نے یہود و نصارٰی کی غلامی کو سند اور جہاد کو متروک قرار دینے کی دجالی تحریک کے محرک،  قادیانیت کا پودا لگایا۔ مگر عالم دہر کے دجالی نظریات کا وہ پلید پیامی، نبوت کا جھوٹا دعویدار مرزا غلام قادیانی، شدید عذاب الہی میں مبتلا ہو کر تاریخ کی بھیانک ترین موت کا شکار ہو کر جہنم کو سدھارا۔

بھارتی آشیرباد سے پاکستان کو دو لخت کرنے والے غدار شیخ مجیب الرحمن، اس سلسلے کے دوسرے متنازعہ کرداروں ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے خاندانوں سمیت عبرت ناک انجام میں قدرت کا عین انصاف اور ازلی و ابدی پیغام عیاں ہے۔

ملک و مذہب سے غداریوں کے حوالے سے جس بدترین غدارِ مذہب و قوم ہوگولینو کے انجام کی مثال پیش کر رہا ہوں، وہ تاریخی اعتبار سے انتہائی بھیانک اور ہولناک مانا جاتا ہے۔ اوگولینو ٹیڑھے مینار  والے اٹلی کے مشہور شہر پیسا کا غدار نیوی کمانڈر اور ملک فروش حکمران تھا۔ اپنے ہی ہم مذہبوں پ مظالم ڈھانے والا  یہ غدار  ملک کے دشمنوں کا آلہ کار بن کر اپنے ملک پر حکومت کرتا رہا۔ مگر بالاخر بار بار کھلی غداری اور مذہبی شخصیات کے قتل  پر سزائے موت  پائی۔  

عظیم  اطالوی شاعر دانتے نے اپنی شہرہء آفاق طویل نظم ”  ڈیوائن کامیڈی ” میں اس کے غدارانہ کردار اور عبرت ناک انجام کا کمال نقشہ کھینچا ہے۔  پوری دنیا  کے امریکی اور مغربی مصوروں نے دانتے کی اس تمثیلی و تخیلاتی نظم میں بیان کی گئی، ہوگولینو اور اس کے خاندان کو دی گئی سزائے موت کے بھیانک انداز کو اپنے تخیل اور رنگوں کی مدد سے کینوس پر پیش  کر کے   بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے۔  عالمی مجسمہ سازوں نے بھی ہوگولینو کا منفرد مگر ہولناک انجام  ایک عبرت انگیز مقصد کے تحت  دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

اوگولینو کو ملنے والی سزائے موت کا انتہائی ہولناک انداز دراصل  مذہب سے بغاوت  اور ممکنہ طور پر  ریاست  سے غداری    کی طرف مائل  ہونے    ہونے والے دوسرے سیاست دانوں کیلئے عبرت حاصل کرنے کا کھلا پیغام تھا۔ اسے دو بیٹوں، اور دو پوتوں کے ساتھ ، گولانڈی مینار کی عمارت میں قید کرنے کے بعد، آرچ بشپ کے حکم پر قید خانے کی چابیاں دریائے آرنو میں پھینک دی گئیں۔ قید خانے کی چابیاں دریا میں پھیکا جانا اس امر کا اعلان تھا کہ اسے  بیٹوں اور پوتوں سمیت تا دمِ مرگ تڑپنے کیلئے، مقفل قید خانے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس قید خانے میں اوگولینو، اُس کے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ آخری ایام میں کیا ہوا۔ بھوک، پیاس اور قیدِ تنہائی کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوئے اُن غداروں کی دم توڑتی ہوئی زندگی کے آخری مناظر کیا ہو سکتے ہیں، کوئی نہیں جانتا۔

کچھ مغربی دانشوروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ بعد میں مرنے والے پہلے مرنے والوں کی لاشیں کھا کر آدم خودی کے بھی مرتکب ہوئے ہوں۔ ان غداروں کے ساتھ جو ماجرہ  ہوا، اس کا تخیل لکھتے ہوئے لکھاریوں کے قلم کانپ اٹھتے ہیں۔ لیکن ان کو دی گئی ایسی  عبرت انگیز  و مثالی سزا  دینے کا یہ  دیرپا  اثر ضرور ہوا کہ غداری کا یہ بھیانک انجام مغرب کی آنے والی نسلوں کو ایسا عبرتناک سبق سکھا گیا کہ اسلامی دنیا کے برعکس، مغربی تاریخ میں اپنے ملک اور مذہب کے غدار بہت کم ملتے ہیں۔

  غدار ملک و مذہب اوگولینو اور اس کے خاندان کے انجامِ بد کا یہ  تاریخی قصہ،  آج بھی خاموش صدا میں کہہ رہا ہے کہ امت  کے غدارین ملک و ملت  کو بھی ایسی ہی عبرت ناک سزائیں دیکر، دوسرے سیاست دانوں اور حکمرانوں کیلئے عبرت کی مثالیں قائم کرنا اب صدائے وقت ٹھہرا ہے۔  ملک و ملت کو نسل در نسل غداروں سے چھٹکارا دلانے کیلئے  ننگ وطن  اور کرپشن کنگ کرداروں کو سخت سزائیں دی جانی لازم  ہیں۔

اوگولینو کی طرح  ہمارے  قومی اور ملی غداروں کے قید خانوں کی چابیاں بحیرہ عرب اور دریائے سندھ، چناب  و راوی میں  بہا دینا اب عین ضروری ٹھہرا ہے۔ تھر میں فاقوں سےمرتے ہوئے ہاریوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر، جشن سندھ کے نام پر محافل رقص و مجرا برپا کرنے والے  ناعاقبت اندیش اور مفلس شکن  کرپشن کنگز اینڈ کوئینز   کو ان ہی کے تعمیر کردہ  تاج محلوں میں تا دم مرگ قید کر دیا جائے تو دھرتی کے غداروں اور موروثیت کی لعنت سے نجات  بھی ملے اور دوسرے  سیاست دانوں کیلئے بھی عبرت انگیز  ہو ۔

ہم بارگاہِ الہی سے پرامید ہیں کہ ” تاریخ ماں ” ملت اسلامیہ کیلئے پھر کوئی عظیم واقعہ جنم دے گی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وقت اور حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ میں سلطان ایوبی کی تاریخی داستانِ سرفروشی کے اختتام میں درج کلماتِ امید پر یقین رکھتا ہوں۔ میرا حق الیقین ہے کہ عالم اسلام پر مسلط حالات اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ ازل سے جاری ” سنت الٰہیہ “ کے مطابق،  پھر ایک ”تاریخی ولادت“ ہونے والی ہے۔  اور ملت اسلامیہ امید رکھتی ہے کہ وہ نئی تاریخی  پیدائش ایک ” نیا ایوبی “ ہو گا ۔ پھر عشقِ نبوی سے لبریز وہ جذبہء حطین بھی زندہ ہو گا جو دشمنانَ پاکستان کو پاش پاش کر کے جنتِ ارضی کشمیر کی آزادی کا محرکِ عظیم  ثابت ہو گا ۔  

انقلاب اور تبدیلی، سامراج  و ہندوتوا کی غلامی اور مغربی تہذیب کی تقلید میں ہوش ربا رقص و  شباب سے نہیں ، جذبہء ایمانی سے برپا ہوتے ہیں۔ ان شاللہ اس ملک کا مقدر لندن اور کینیڈا میں بیٹھے خود ساختہ جلاوطن اور مذہبی شعبدہ باز نہیں،  اس دھرتی ماں کی آغوش میں رہنے والے ہی سنواریں گے۔ میرا حق الیقین ہے کہ انشاللہ عنقریب  پاکستان ہی ایک پر امن مگر ناقابل شکست ایٹمی وعسکری قوت کے روپ میں پورے عالم اسلام کے اتحاد کی قیادت کرے گا  اور اس  زندگی کو سزا کی طرح جینے والے مفلسانِ وطن کے دن پھریں گے ۔۔ 

فاروق درویش — واٹس ایپ — 00923224061000

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button