عورت سے کائنات و سیاست میں حسن ہے
خدارا حوا کی مقدس بیٹی کو گلِ لالہ زارِ حیات ہی رہنے دیجئے۔ ان بیٹیوں اور بہنوں کو ٹک ٹاک پر عریانیت کا تماشہ یا چوراہوں پر اپنی سیاست کے طوائفانہ گھنگھرو پہنا کر عالمِ دہر جیسا چبھتا ہوا کانٹا نہ بنائیے
پاکستانی معاشرت اور اسلامی اقدار کیخلاف ہرزاسرائی کرنے والے مغرب کے رائٹرز کی لکھی تاریخ بھی گواہ ہے کہ مغربی تہذیب اور ہندوتوا معاشرہ ازل ہی سے تقدیس عورت کا مجرم و قاتل رہا ہے۔ زمانہء قبل اسلام سے مغربی نظام ِ زندگی میں عورت کا وجود صرف جنسی تسکین کا ایک ذریعہ ہے۔ قدیم و جدید ہندو معاشرت کے حقائق بولتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں اپنی ہندو خواتین کی عزت ہی محفوظ نہیں رہی۔ دراصل انڈیا کی تہذیب ہی مغرب اور سامراج کی تعفن آمیز تہذیبوں کی ماں ہے۔ قدیم ترین ہندو معاشرے نے صنف نازک کو زیر عتاب رکھ کر جس قدر جسمانی اور روحانی تذلیل کی، تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہے۔
مفتیء مصر ڈاکٹرعلی جمعہ لکھتے ہیں کہ قدیم ہندو تہذیب میں عورتوں کو غلاموں کا درجہ دیا گیا تھا۔ ان کے بعض فرقوں میں بیوی اور بہن و بیٹی میں کوئی فرق ہی نہیں تھا۔ ان کے عقیدے کی پلیدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی ماں بہن یا بیٹی جیسے مقدس رشتوں سے جنسی تعلقات کو عورت کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کا فریضہ اور ذریعہ نجات تصور کرتے تھے۔ مغرب میں اپنی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا قابل نفرت رحجان قدیم ہندو تہذیب سے ہو بہو مماثل ہے۔ ویدوں کے احکام کے مطابق عورتیں کسی مذہبی کتاب کو چھو ہی نہیں سکتیں تھیں۔ انہیں بیوہ ہونے پر زندہ لاشیں بن کر جینے پر مجبور کر دیا جاتا تھا۔
مشہور مغربی مورخ ویسٹرمارک اپنی کتاب ” ویو آف دی ہسٹری آف ہندو” میں لکھتا ہے کہ اس ہندو معاشرے میں اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چھو لیتی تو اس ” محترم بت ” کی الوہیت اور تقدس کو ” خلاص و ختم شد ” سمجھ کر پھینک دیا جاتا تھا۔۔
یونان کی تہذیب میں عورت کو صرف نفسانی ہوس کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک عورت ایک زہر آلود درخت اور شیطان سے زیادہ ناپاک سمجھی جاتی تھی۔ قانون سازی میں شہرت کے حامل روم کے آئین میں عورت کی حیثیت بیحد کمتر تھی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عورت کوئی روح نہیں بلکہ دیوتاؤں کے عذاب کی ایک شکل ہے۔ چونکہ قانون نے اسے تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا تھا، لہذا وہ سیاست میں استعمال تو ہوئی مگر کسی عہدہ پر فائز ہونے کی اہل ہی نہ تھی۔ مصر کی ملکہ قلوپطرہ اسی رومن تہذیب کے نمائیندہ سیاست دانوں کے عشق میں مبتلا ہو کر زندگی کی بازی ہار گئی ۔
ایرانی قدیم تہذیب میں بھی عورت کا جسمانی و جنسی استحصال عام تھا۔ یہاں باپ کا بیٹی اور بھائی کا بہن سے جنسی تعلق یا شادی کر لینا قطعی میعوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ شوہر اپنی بیوی کو کسی جج اور جلاد کی طرح سزائے موت دینے کا مجاز تھا۔ عورت کی نمائش اور جنسی عیش و عشرت کیلئے استعمال باشاہوں اور صاحبان ثروت کا محبوب مشغلہ تھا۔ عیسائی معاشرہ رہبانیت کے زیر اثر آیا تو عورت کے وجود کو تسلیم کرنا اُن کے نزدیک گناہ کبیرہ بن گیا۔ اسے گرجا کی نن بنا کر عام مردوں کیلئے تو حرام قرار دیا گیا مگر وہ راہبہ بن کر پادریوں کی جنسی ہوس کی تسکین کیلئے حلال ہوتی رہی۔ برطانیہ کے شاہ ہنری کے دور میں یہ قانون پاس کیا گیا کہ عورت ناپاک روح ہے لہذا انجیل کی تلاوت نہیں کرسکتی۔
قبل اسلام بھی عورت کے کوئی حقوق نہ تھے۔ اسے ایک ناگوارلاش کی طرح زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ وہ ایک مظلوم جنس تھی اور ہر فضیلت مردوں کیلئے تھی۔ ان کیلئے دنیا میں برائی کی جڑ اور موت کی اصل وجہ عورت کا وجود ہی تھا۔ ویسٹر مارک کے بقول جدید تہذیب بھی عورت کو وہ مقام نہیں دے سکی جس کی وہ مستحق تھی۔ اس کے مطابق ارتقائے تہذیب نے عورت و مرد کے درمیان فاصلوں کو بڑھا کر عورت کی حیثیت کو مذید گرا دیا ہے ۔ مگر اسلامی تہذیب نے عورت کو عظیم مقام ہی نہیں، بلکہ کائنات کا اہم ترین جز قرار دیا ہے۔
اور پھر میرے نبیء آخر الزماں ﷺ کی آمد عورت کیلئے ہر غلامی، ذلت اور جنسی و جسمانی ظلم و استحصال سے ابدی آزادی اور رحمت کا پیغام حقیقی بن گئی۔ وہ خورشید رسالت چمکا تو عورت کے مقدر پر ازلوں سے چھائے ہوئے اندھیرے دور ہوئے۔ اسلام نے ان تمام فرسودہ رسومات کو باطل کر دیا جو حوا کی بیٹی کے وقار کے منافی تھیں۔ اسلام نے عورت کو وہ محترم حیثیت بخشی کہ وہ معاشرے میں مرد کے برابر عزت کی مستحق ٹھہری۔ یہ مغرب اور ہندوتوا کا جھوٹا الزام اور بہتان ہے کہ اسلام عورتوں کی آزادی اور اقتصادی عوامل میں شرکت کیخلاف ہے۔ جبکہ اسلام عورت کے حصول تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے نہ معاشی ترقی میں اس کے فعال کردار کیلئے کوئی خطرہ، لیکن ہاں مذہب عورت کیلئے کچھ نظریاتی و اخلاقی حدود ضرور متعین کرتا ہے۔
مغرب میں سرعام برہنہ رقص کرنے والی گلوکارہ میڈونا اور بریٹنی سپیئر جیسی خواتین کامیاب سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن ماضی میں ” کامیاب ترین خواتین ” سمجھی جانے والی گلوکارہ وٹنی ہوسٹن اور اداکارہ مارلن منرو کی پراسرار اموات کا ابھی تک حل طلب معمہ ان کی ” کامیابی ” پر سوالیہ نشان ہے۔
گلوکارہ وٹنی ہوسٹن کی طرف سے اپنی ” کامیاب شخصیت ” کے بارے یہ بیان زمانے کیلئے بڑا معنی خیز ہے کہ ، ” سب سے بڑی شیطان میں ہوں، میں خود یا تو اپنی سب سے اچھی دوست ہوں یا سب سے بُری دشمن "۔ یہ امر مغربی تہذیب کی تقلید کیلئے جنونی لوگوں کیلئے قابل غور ہی نہیں شاید قدرت کی طرف سے ایک تنبیہ بھی ہے ۔ ذرا سوچیں کہ کہیں یہ خدا کا قہر تو نہیں کہ اکثر ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ چھ گریمی ایوارڈز جیت کر کامیاب عورت سمجھی جانے والی بارہ بوائے فرینڈ یافتہ برطانوی گلوکارہ ایمی وائن ہاؤس ستائیس سالہ جواں عمری ہی میں اپنے گھر پر پراسرار طور پر مردہ پائی گئی ہیں۔
مسلم معاشرے ميں خواتين کي موجوگی اور کامیابی کا مثالی نمونہ مغربی خواتين کی نام نہاد آزادی سے قطعی مختلف ہے. مغربی تہذیب ميں عورت کو مرد کی خدمت کا وسيلہ سمجھا جاتا ہے ۔ مغربی معاشرے کی پہلی ترجیح ” جنسی خدمات” کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ مغربی لوگ اپنے انہیں باطلی و انحرافی نظريات کو آزادی کا نام ديتے ہيں۔ مگر اسلام آزادی کے نام پر اس ” مادر پدر آزادی” کی مخالفت کرتا ہے جو اسلامی اقدار سے متصادم ہوں۔ سیاسی احتجاج و انقلابی جہد کے نام پر پر سرعام رقص و دھمال اور مخلوط میوزک شو ، انقلاب اور آزادی نہیں تہذیب کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ یہاں منافق راہبروں کے قول و فعل میں تضادات کا شمار مشکل ہے۔
خانوادہء رسالت کی مطہر ہستیاں مغربی تہذیب کی نمونہ عورتوں سے کلی مختلف، دین و ملت سے مخلص اور باوقار تھیں۔ وادی مکہ میں صدائے حق بلند ہوئی تو سب سے پہلے لبیک کہنے والی خدیجۃ الکبریٰ رض نے اپنی پوری زندگی جان و مال سب کچھ اسلام کیلئے وقف کردیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رض نے امام الانبیاء کی سیرت اقدس کو اس انداز میں امت تک پہنچایا کہ تفصیلی احوال جاننے کے بعد کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔سیدہ فاطمۃ الزہراء رض کی ذات اقدس ہر حوالے سے ایک کامل عورت کا روپ اور پیغمبر اسلام کے وجود عظیم کا خلاصہ ہے۔
اسلامی اقدار کو آزادیء نسواں کیلئے قید قرار دینے والے، نوبل انعام جیتنے والی عرب خاتون توکل کرمان کی مثال سامنے رکھیں۔ کسی صحافی نے اس سے پوچھا کہ ” آپ قدامت پسندوں جیسا حجاب کیوں پہنتی ہیں جبکہ آپ باشعور اور اعلٰی تعلیم یافتہ بھی ہیں۔؟ توکل کرمان نے خوبصورت الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ "۔ ۔ درحقیقت لباس اور حجاب ہرگز قدامت پسندی نہیں ہے۔ بلکہ قدامت پسندی یہ ہے کہ انسان اپنے لباس کو مختصر کرتا ہوا پتھر کے اسی زمانہ قدیم کی طرف واپس لوٹ جائے جس میں انسان بے لباس و عریاں تھا ” ۔ کامیاب مسلمان عورت کی تازہ مثال فلسطینی مظلوموں پر روا ظلم و بربریت کیخلاف احتجاج کے طور پر برطانوی وزارت سے استعفی دینے والی سعیدہ وارثی ہے۔ جس کی حق گوئی نے ثابت کیا ہے کہ امت کیلئے درد دل رکھنے والی مغربی مسلمان عورت بھی مغربی استعمارکی غلامی اور ڈکٹیشن قبول نہیں کرتی۔
عورت زمانہ قدیم سے کئی سفاک و عریاں تہذیبوں کے جسمانی مظالم اور جنسی استحصال کا سامنا کرتی ہوئی نئے زمانوں میں داخل ہوئی ہے۔ اس سفر میں کبھی وہ یونان، اطالیہ اور صحرائے عرب کے بازاروں میں بکی، کبھی داشتہ بن کر امراء کا ذریعہء عیاشی بنی اور کبھی جبری طوائف بنا دی گئی۔ مگر عالم دہر کی سب تہذیبوں کے تھپیڑے کھانے کے بعد اسے دائمی پناہ و تحفظ میرے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت رحمت پر دین محمدی ہی نے عطا کیا ۔
خدارا اسے اس محبت و تحفظ بھری مقدس آغوش سے مانوس و آشنا رہنے دیجئے۔ بے شک کہ عورت کا وجود مرد کی زندگی کے نشو و ارتقائے حیات کیلئے ایک حسین محرک اور راحت و سکون کا باعث ہے۔ مگر اسے صرف ہوس مردانگی کی تسکین کا وسیلہ اور عیش کوشی و عشرت پرستی کا ذریعہ مت بنائیے۔ معاشرے اور ایوان سیاست میں اس کی حیثیت کنیز اور پرستار کی سی نہ بنائیے۔ دنیا کی بیشتر تہذیبوں کی تباہی کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہاں کی عورت معاشرے میں اپنی جائز حیثیت کھو کر خود سر مرد کے قاہرانہ ہاتھوں میں آلہ کار بن کر رہ گئی تھی۔ عورت اس گلشنِ کائنات میں گلاب کا وہ گلِ نازک و حسین ہے جس کیلئے حیا گویا شبنم اور دینی و اخلاقی اقدار مسحور کن خوشبو کی طرح ہیں ۔ خدارا حوا کی مقدس بیٹی کو گلِ لالہ زارِ حیات ہی رہنے دیجئے۔ ان بیٹیوں اور بہنوں کو ٹک ٹاک پر عریانیت کا تماشہ یا چوراہوں پر اپنی سیاست کے طوائفانہ گھنگھرو پہنا کر عالمِ دہر جیسا چبھتا ہوا کانٹا نہ بنائیے۔۔۔ ( جاری ہے)۔
( فاروق درویش ۔۔ واٹس ایپ ۔۔ 00923224061000 )
قدیم ہندو تہذیب سے مودی تک عورت پر ظلم کی کہانی اور کشمیر میں ریاستی دہشت گردی