ریاست اور سیاستنظریات و مذاہبِ عالم

بنی اسرائیل کی تباہی اور مایوس قوموں کی گمراہی

بلاول کی صلیبی روح میں مقتول بھٹو کی روح حلول ہونے پر سقوط مشرقی پاکستان کا مجرم " شہید بھٹو " پھر سے زندہ ہو رہا ہے

ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کو ترستے ہوئے عوام کے مصائب سے بے نیاز، لندن کی گوری فضاؤں میں پروان چڑھنے والے بلاول زرداری کو قوم پر مسلط کرنے کی  بے جان جیالا تحریک عروج     و زوال کا شکار رہتی  ہے۔ پاکستان میں عیسائی وزیر اعظم دیکھنے کے خواہش مند بلاول کی صلیبی روح میں مقتول بھٹو کی شہید روح حلول ہونے پر سانحہ مشرقی پاکستان کا قومی مجرم ” شہید بھٹو ” واقعی پھر سے زندہ ہو رہا  ہے۔ بھٹو کے چاہنے والوں اور پی پی پی کے علمائے اکرام کیلئے دعوتِ فکر ہے کہ بلاول  ہندو برادری کو دیوالی مبارکباد کی آڑ میں ہندو وڈیروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے مندر میں   عملی پوجا پاٹ سے بھی گریز نہیں کرتے ۔

جبکہ   مسلم لیگ   کی مرکزی قیادت میں  حالیہ بحرانوں سے نپٹنے کی اہلیت کا فقدان  اور تحریک انصاف  کی مادر پدر  آزادنظریات  کے  علمبردار  وں    اور  پیشہ ور سیاسی لوٹوں کی   ناقابل اصلاح  روش  ، ملک کو انارکی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ پی پی پی کی موروثیت و کرپشن مزاجی  کے تناظر میں پاکستانی سیاست کلچر ” دیسی مرغی ولائتی انڈے” اور عوام کی مایوسی اعصاب شکن فرسٹریشن بنتی جا رہی ہے۔

ان سب گروہوں میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو وہ مغرب کے برخودار بننے کیلئے کچھ بھی کر گذرنے کا والہانہ جذبہ ہے۔ سب سیاست دانوں کا پختہ یقین ہے کہ بادشاہ گر صلیبی طاقتوں کی فرمانبرداری کے بنا حصول اقتدارممکن ہی نہیں۔ لیکن  حالات کیسے ہی مایوس کن  کیوں نہ ہوں، اللہ کی رحمت پر حق الیقین کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اسباق یاد رکھنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔

بلاول اینڈ کمپنی کیلئے تاریخ عالم اور قصص القرآن   سبق آموز  ہے ۔ چھ سو برس قبل مسیح میں حضرت عزیر علیہ السلام کی بعثت  ہوئی تو بنی اسرائیل اس دور کی سپر پاور، آشوری سلطنت کے شاہ بخت نصر کے ماتحت و باج گزار تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ان یہودیوں کا اخلاق بھی ہماری طرح گراوٹ کی آخری حدود تک پہنچ چکا تھا۔ مذہب سے مادر پدر آزادی و فحاشی اور جدید مغربی تہذیب کی طرح زنا کاری معمول تھا۔ اپنے ہم قوم و ہم مذہبوں کے ساتھ ظلم ، سود خوری اور غلامی رواج عام تھیں۔ لیکن ہماری ہی طرح  ہر اخلاقی پستی کے باوجود مستقبل کی بہتری کیلئے انقلاب اور تبدیلی کی امنگیں بھی پورے عروج پر تھیں۔

 شاہ بخت نصر کے خلاف نفرت کا طوفان تھا۔ مگر اس قوم کے لیڈر بھی ہماری طرح اصلاح کی بجائے انہیں مذہب و اخلاق سے کلی آزاد  بنانا چاہتے تھے۔ جو لوگ بخت نصر کی محکومی سے نجات کیلئے شوراٹھا رہے تھے، ان کے کردار ہمارے لیڈروں جیسے ہی پراگندا طبع  تھے۔ یاد رہے کہ مغرب کے ماڈرن دانشور انبیائے حق کی کردار کشی مہم کے تحت عزیر علیہ السلام کو شاہ بخت نصر کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان بھٹکے ہوئے لوگوں کے رویوں پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر آپ لوگ ایمان کا راستہ اختیار کرو تو عاقبت کے ساتھ دنیاوی فلاح و آسودگی بھی پاؤ گے۔

آپ کی نصیحت تھی کہ ذاتی اصلاح کئے بنا بخت نصر کیخلاف بغاوت مت کریں ۔ ورنہ بخت نصر جیسا جابر ان پر عذاب الٰہی بن کر نازل ہو گا۔ مگر بھٹکی ہوئی قوم  انہیں اپنی ” من پسند آزادی ” کا دشمن سمجھ کر اذینت دینے پر اتر آئی۔  پہلے انہیں ایک کنویں میں الٹا لٹکایا اور پھر مشکیں کس کر قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ قابل توجہ ہے کہ دور جدید کے سامراجی آلہ کاروں کے افکاراور پرتشدد سیاسی رحجانات، دور قدیم کے بھٹکے ہوئے بنی اسرائیل کے دجالی رویوں ہی کا مثل و نمونہ ہیں۔

بنی اسرائیل نے خود احتسابی کئے بنا بغاوت کی تو بخت نصر عذاب بن کر ایسا ٹوٹا کہ یروشلم کا پورا شہر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ ہیکلِ سلیمانی کو مسمار کر کے توراتِ مقدس کے اوراق کو جوتوں تلے روند کر گندگی اور انسانی نجاست بکھیر دی گئی۔ بخت نصر کا حملہ ایک خوفناک تباہی کا بھیانک منظر تھا۔ ہر طرف آگ کے شعلوں کا رقص تھا۔ فضا میں ان آزادی پسندوں کی دلدوز چیخیں اور آہیں بلند ہو رہی تھیں۔ انسانوں کا بے دریغ قتل عام اور گھروں کو لوٹا جارہا تھا۔

برہنہ خواتین کی عزتیں سرعام گلی کوچوں میں پامال ہورہی تھی۔ اور شہرِ مقدس کی گلیوں میں ہر طرف سفاک فوجی دندناتے پھر رہے تھے۔  یروشلم کی مکمل تباہی کے بعد بخت نصر کے سپہ سالار نے اپنے شاہ کے حکم کے مطابق حضرت عزیر کو رہا کرتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ اخلاقی گراوٹ اور احکامات الہی سے بھٹکی ہوئی ہم جیسی قوموں کیلئے ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہیں۔

وہ بولا، ’’اے یرمیاہ ( عزیر علیہ السلام ) آج تمھاری پیشین گوئی پوری ہو گئی کہ ہم نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ آدھی آبادی قتل ہوچکی ہے اور آدھی آبادی کو ہم اپنا غلام بنا کر ساتھ لے جا رہے ہیں۔ مگر یہ ہمارے بادشاہ کا خصوصی حکم ہے کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے کہ تم ایک سچا رہبر بنکر اپنی قوم کو بہت سمجھایا، مگر جو قوم بے راہ روی و فتنہ گری سے باز نہ آئی، آج اس نے اپنی مہم جوئی کی سزا بھگت لی ہے ‘‘۔

 پانچ لاکھ لوگوں کے قتل کے بعد جن لاکھوں لوگوں کو گرفتار کر کے دارلخلافہ بابل لے جایا گیا، ان میں ایک اور نبی حضرت دانیال علیہ اسلام بھی شامل تھے۔ حضرت دانیال کو بھی قیدیوں کے ساتھ بھوکے شیروں کے سامنے ڈالا گیا مگر وہ معجزہء الہی سے زندہ و سلامت رہے۔ بعد ازاں انہوں نے بخت نصر کو اس کے جس خواب کی سچی تعبیر بتا کر قدموں میں سر رکھ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس کا قصہ ایک تفصیلی تحریر کا متقاضی ہے،  کسی اگلے کالم میں پیش کروں گا۔

اس خون ریزی کے بعد شہر ایسے پر تعفن کھنڈرات میں بدل چکا تھا جہاں انسانی بستیوں کے آثار ناپید اور ماحول پر چار سو وحشت طاری تھی۔ عزیر علیہ السلام تباہ شدہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کی وحشت و ویرانی کا منظر دیکھ کر انتہائی مایوسی و تعجب میں بولے کہ ” نا جانے یہ اجڑا شہر پھر کبھی آباد بھی ہو گا ؟”  ان کی اس مایوسی پر سبق کیلئے اللہ نے انہیں عارضی موت دے کر اس جہاں سے اٹھا لیا۔

اور جب وہ حکم الہی سے، سو برس بعد عین اسی مقام مرگ پر دوبارہ زندہ کئے گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر پہلے سے زیادہ پر رونق و آباد ہو چکا تھا۔ قرآن حکیم کی سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 259 میں اسی بارے میں بیان ہے کہ آپ نے فرمایا ، ( ترجمہ) ” میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے "۔ احباب آج  دشتِ وطن کے حالات کچھ بھی ہوں ، بنی اسرائیل کی مستند تاریخ کا یہ سبق آموز واقعہ اور اس سے جڑا فرمان الہی ہمیں ہمیشہ پر امید رہنے کا درس دیتا ہے ۔

تھر کے عوام کے آلام بھلا کر تاج محل تعمیر کرنے والے یاد رکھیں کہ عجائب عالم میں شمار بابل کے معلّق باغات اسی بخت نصر نے اپنی بیگمات کیلئے تعمیر کروائے۔ لیکن بخت نصر اور سکندر اعظم کی عظیم الشان سلطنتوں کے مرکز شہر بابل کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے پر آج وہ طلسماتی حسن فشاں باغات اور شاہی محلات بھی، صرف تاریخ کی داستانوں تک سمٹ چکے ہیں۔ کاش کہ ان پرشکوہ مقبروں پر خرچ ہونے والی خطیر رقم، سندھ کے سکولوں کی بحالی اور تھر جیسے پسماندہ علاقوں میں فلاح کے پروگراموں پر خرچ ہوتی۔

آج بلاول کے ساتھ  وہی وڈیرے موجود ہوتے ہیں جن کی بھینسیں اندرون سندھ کے ” بند سکولوں” میں سبز چارے کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ شراب کی بوتل لئے ان وڈیروں کے ساتھ محو رقص رہنے والی وہ تمام حسن پریاں بھی سٹیج پر دھمال ڈالتی ہیں ، جو ان کے والد گرامی کی قابل اعتماد ” آٹومیٹک کرپشن مشینیں ” رہ چکی ہیں۔

موروثیت کی ایسی نوعیت کے تاریخی واقعات حکمرانوں کے نظریات ضرورت کی لا منتاعی حدود کے عین عکاس ہیں۔ خدارا  زرداری سے قومی دولت واپس لانے کے وعدوں سے منحرف سیاست دانوں اور  مادر پدر آزادی پسند  روشن خیالی سے توقعات وابستہ کرنے سے قبل اپنا محاسبہ اور قبلہ درست کیجئے۔

میرا اٹل موقف ہے کہ اسلام دین برحق اور جدید ترین مذہبِ فطرت ہے۔ دین اور اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے روشن خیالی اور آزادی کوئی عیب نہیں۔ لیکن مذہب و اخلاق سے آزاد و ماورائے قانون فطرت، مادر پدر آزادی دنیا کے تمام مذاہب میں ازل سے ممنوع اور غیر فطری ہے۔ جس دن ہم خود باکردار ہو کر خود سے اور ملک و ملت سے مخلص ہو جائیں گے اس دن نواز شریف اور عمران خان جیسے سب راہنما بھی قوم و امت سے با وفا ہو جائیں گے ۔

اور جب یہ معجزہ ظہور پذیر ہو گیا، باخدا سب خود ساختہ جلا وطن اور فتنہء باچا خانی و فتنہء قادیانیت یا گوہر شاہی جیسے تمام بدیسی فتنہ ہائے یہود و ہنود اپنی موت آپ مر جائیں گے ۔ آئیے پہلے اپنا احتساب و انصاف کریں، پہلے خود میں انقلاب برپا کریں اور ہاں پہلے خود کو علاقائی و لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی منافرت سے آزادی دلائیں ۔۔ اور یک زبان مل کر بولیں ” سب سے پہلے دین ہمارا، پھر سب کا ہے پاکستان ” ۔۔ ۔

فاروق درویش ۔۔۔ واٹس ایپ ۔۔۔۔ 00923224061000

نوٹ :- اس تحریر کیلئے قصص القرآن  اور مصدقہ تاریخی کتب  سے مدد لی گئی ہے

 

پاکستانی سیاست کے بارے میرا یہ کالم بھی  پڑھیں

سیاست دانوں کی نئی نسلیں اور پرانے روگ

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button