پاکستان میں فوج مخالف مظاہروں اور خون ریزی کی عالمی سازش
بھارتی ، اسرائیلی اور مغربی ایجنسیاں پاکستان میں فوج مخالف مظاہروں اور خون ریز سیاسی تصادم برپا کروانے کیلئے تخریب کار عناصر ، بلوچ باغیوں ، پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی جیسے پالتو دہشت گرد عناصر کو کھل کر فنڈنگ اور متحرک کر رہی ہیں
عورت کی آزادی کے لبرل ڈانسروں کے لبادے میں انٹی اسلام اور انٹی پاکستان گروہ نے اسلام مخالف فرانس اور ہم جنس پرستی کے جھنڈے لہرا کر پاکستان میں بھارت اور اس کے مغربی اتحادیوں کی منصوبہ بندی کے مطابق بد امنی پھیلانے کی جو کوشش کی ہے۔ وہ سیاست میں عدم برداشت اور شدت پسندی کے رحجانات کے باعث پہلے سے آلودہ اس کشیدہ ماحول میں جلتی پر تیل ڈالنے جیسا ہے۔
امریکہ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ پاکستان میں بہر صورت بد امنی اور خونی فسادات کیلئے سرگرم ہے۔ بھارت اور اس کے اتحادی فرانس کا دجالی کردار عیاں ہو رہا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی سرزمین ملت اور قوم کے غداروں کیلئے بڑی زرخیز ہے۔ اور انٹی پاکستان قوتوں کو عورت کی آزادی کے نام پر عریاں تماشہ کرنے والی بھارتی کٹھ پتلی این جی اوز کی خدمات بھی میسر ہیں۔ عورت کی آزادی اور انسانی حقوق کی آڑ میں انٹی پاکستان اور انٹی اسلام ایجنڈا عیاں ہو رہاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اللہ رسول اورقرآنی نظریات کیخلاف کھلے عام نعروں کی لائیو توہین مذہب پر خاموش تماشائی کیوں بنی رہے؟
عورت مارچ میں انٹی پاکستان اور پی ٹی ایم جیسے انٹی فوج طبقات نظر آنا اس امر کا واضع اشارہ ہے کہ مغربی اور انڈین ایجنسیاں پاکستان میں انارکی اور خون ریزی برپا کروانے کی سرتوڑ کوششوں میں ہیں۔ پاکستان میں سیاسی استحکام اور عسکری اداروں کیخلاف سرگرم وہی اسلام مخالف بیرونی آلہ کار ہیں جو پاکستان کی سلامتی کے بھی دشمن ہیں۔ اور اس وقت سیاسی ماحول ان کے مذموم مقاصد کیلئے آئیڈیل پلے گراؤنڈ بنا ہوا ہے۔ ایسی صورت حال میں فرانس کے گستاخانہ رویوں کیخلاف سراپا احتجاج عناصر کو تشددآمیز ی کی طرف موڑا جا نا بھی عین ممکن ہے
فرانس اور ہم جنس پرستی کے بینرز لہرا کر یا توہین مذہب سے دراصل ناموس رسالت کیلئے گرمجوش مذہبی طبقات کو بھی شدید رد عمل پر اکسایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ ایک ساتھ اپنے اپنے موقف کے حق میں شدت پسندی پر مجبور ہوں اور پاکسان کے اندرونی اور بیرونی حالات خراب ہوں۔ انتہائی افسوس کہ عورت مارچ میں عریانی و فحاشی کی تشہیر ہی نہیں ، کھلی توہین مذہب بھی کی گئی ۔ صرف عمران خان اور حکومت سے آزادی کے نعرے نہیں بلکہ اللہ اور رسول سے آزادی کے کافرانہ نعروں سے آئین و شریعت سے اعلانیہ بغاوت کا کھلا مظاہرہ کیا گیا۔
لیکن انتہائی افسوس کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ریاست کے آئین اور شریعت کو للکارنے والے مادر پدر آزاد سیکولر شدت پسندوں کیخلاف کوئی قانونی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اور یقینی طور پر حکومت میں شامل فواد چوہدری جیسے اعلانیہ انٹی مذہب عناصر اور مغربی پیروکار بھی یہی چاہتے ہیں کہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی آزادیء رائے کے نام پر قرآنی و شرعی نظریات پر تنقید کی کھلی آزادی ہو۔
پاکستان کے ضمنی الیکشن کے متنازعہ نتائج کے بعد سے پاکستان کے سیاسی اور اندرونی حالات ایک منصوبے کے تحت مسلسل کشیدگی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ اور شیخ رشید جیسے پیشہ ور سیاست دان ، ڈائیلاگ کی بجائے اپنی ضدی یا ڈکٹیشن زدہ پالیسیوں سے مذہبی قوتوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں۔ خان صاحب کو یاد رہے کہ ماضی میں وہ بھی شیخ رشید جیسے لوگوں کو گھٹیا لوٹے ، بے ضمیر اور برائے فروخت قرار دیتے رہے ہیں۔ اس صورت حال میں سینٹ الیکشن کے تنازعہ نے اس تندور میں مذید آگ بھڑکا ئی ۔ اس سارے گھمبیر پس منظر اور دھندلائے ہوئے منظر میں اپنے کرپشن اور لوٹا کریسی سے پاک نعروں سے مسلسل انحراف کرنے والے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑا ہے۔
خان صاحب ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ ان کا کرپشن سے پاک حکومت کا نعرہ ان کی اپنی صفوں میں کرپشن زدہ لوٹوں اور پیشہ ور سیاسی مگرمچھوں کی موجودگی میں ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اسلام دشمن عناصر کے ہاتھ میں کھلونابننے والے خان صاحب اگر طاقت کے بل بوتے پر مذہبی قوتوں کی آوازِ حق دبا کر حکومت کرنے کی پالیسی پر چل پڑے ہیں ۔ تو انہیں ایسی پالیسی اپنانے والے ذولفقار علی بھٹو کا انجام یاد رکھنا ہو گا۔ افسوس کہ عمران خان کرپشن سے پاک اور شفاف نظام کیلئے اپنی حکومت سے ان بدنام زمانہ لوگوں کو نکالنے کیلئے قطعی تیار نہیں ہیں ، جن کو خود خان صاحب بھی ہمیشہ چور ڈاکو اور نا اہل کہا کرتے تھے ۔ وہ حکومت اور نظام بچانا یا حالت میں بہتری چاہتے ہیں تو فواد چوہدری جیسے انٹی مذہب ، شیخ رشید جیسے کرپٹ فسادی عناصر اور پیشہ ور سیاسی لوٹوں کی جگہ تحریک انصاف کے اندر سے اہل اور با صلاحیت لوگ حکومت میں لانے ہوں گے۔
دفاع پاکستان کے حوالے سے میرا یہ آرٹیکل بھی پڑھیں
بھارتی براس ٹیک سے ایٹمی میزائیل ، جے ایف 17 تھنڈر اور الخالد ٹینک تک
اس کشیدہ صورت حال میں پی ٹی آئی کے کچھ اوباش لوگوں نے احسن اقبال پر جوتا پھینک کر اور مریم اورنگ زیب کے ساتھ بد زبانی سے ماحول کو مذید خراب کیا۔ افسوس کہ پی ٹی آئی کے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ ان جوتا مارنے والے کارکن کو مجاہد قرار دیتے رہے۔ جواب میں نون لیگ بھی شدت پسند ردعمل پر اتری اور منطر مذید پراگندا ہوگیا۔ سیاسی جماعتوں کی ایسی غیر سیاسی روش اور جاہلانہ حماقتوں نے پاکستان کو ایک قدم اور انارکی کی طرف دھکیلا ہے۔
اس گہنائے اور دھندلائے ہوئے منظر میں حکومت کی مشکلات ختم ہوتی نظر نہیں آتیں۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خان صاحب کے وعدوں سے مسلسل انحراف یا نا اہلی سے عوام شدید ناراض ہیں۔ جبکہ دوسری طرف خان کی ناکامیوں کی ذمہ داری فوجی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر افواج پاکستان کیخلاف پراپیگنڈا مہم چلانے والے سیاست دانوں کا ڈرٹی گیم تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بھارت اور یورپ کا ڈیزائن کردہ عورت آزادی شو ، گستاخانِ رسالت گروہ کی انٹی مذہب شدت پسندی ، سینٹ الیکشن کی کرپشن کہانی اور سیاسی شدت پسندی کے مکسچر سے بنا کشیدہ ماحول دراصل پاکستان میں انارکی اور خونریز ہنگامہ آرائی کی عالمی سازش کیلئے آئیڈیل پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
اپوزیشن اور دیگر طبقات کی طرف سے عمران خان کی حکومت کی ناکامی اور عوام کی بدحالی کا ذمہ دار ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے سرگرم بھارتی اور مغربی ایجنسیاں پاکستان میں فوج مخالف متشدد مظاہروں اور خون ریز سیاسی تصادم برپا کروانے کیلئے تخریب کار عناصر ، بلوچ باغیوں ، پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی جیسے پالتو دہشت گرد عناصر کو کھل کر فنڈنگ اور متحرک کر رہی ہیں۔
اصولی موقف یہی ہے کہ جمہوریت کی بقا کیلئے موجودہ حکومت کو 5 سال پورے کرنے چاہئیں۔ لیکن اکثریت کی رائے میں یہ حکومت ان آزمائشی حالات سے نپٹنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے۔ مہنگائی اور حکومتی نا اہلی سے تنگ مصائب زدہ عوام اب فوج سے ضیاء الحق یا پرویز مشرف جیسے کسی کردار کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ جہاں ماضی میں سیاسی اور عسکری اداروں میں اختلافات پیدا کرنے اور نواز شریف کو غرق کرنے میں گستاخ رسالت آنجہانی عاصمہ جہانگیر گروہ اور انڈین آلہ کار سیفما کی تنظیم کا کردار بڑا بھیانک تھا۔ وہاں حال میں شاہ محمود قریشی ، بابر اعوان ، فواد چوہدری ، شیخ رشید اور جہانگیر ترین جیسے ابن الوقت لوگ خان صاحب کی آستینوں کے سانپ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اور یہ پیشہ ور سیاست دان وہ لوگ ہیں جن کیلئے ملکی حالات کا خراب ہونا ، بےگناہوں کی لاشیں گرنا یا حکومتیں ٹوٹنا کوئی معانی نہیں رکھتا۔ ۔
پاکستانی سیاست دانوں کو ملکی سلامتی نہیں صرف حصول اقتدار یا طوالت اقتدار عزیز ہے۔ عوام کی لاشوں پر سیاست اور حکومت سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی سازشوں اور سیاسی شدت پسندی سے اٹھنے والی منصوبہ بند خون ریزی کے تندور سے بچانے کیلئے افواج پاکستان کو بڑا تگڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔ لیکن یاد رہے کہ ملکی سلامتی اور خون ریزی کے منصوبوں کو ناکام بنانا صرف فوج کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر ایک خاص و عام پاکستانی کا اولین بھی فرض ہے
فاروق درویش
دفاع پاکستان کے حوالے سے میرا یہ آرٹیکل بھی پڑھیں
پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کیخلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے مذموم عزائم اور حقائق