حالات حاضرہریاست اور سیاست

خان صاحب کے زوال کی وجہ تحریکی ساتھیوں پر کرپشن زدہ لوٹوں کو ترجیح دینا ہے

تحریک انصاف میں جو لوگ خان صاحب کی جدوجہد میں قربانیاں دیکر بھی ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ انہیں کبھی بھی  حکومتی اور انتظامی عہدوں کے قابل نہ سمجھا گیا۔ حالانکہ وہ صلاحیت رکھنے والے نظریاتی ورکر تھے

کیا یہ سچ نہیں کہ عمران خان حکومت میں آنے کے بعد اپنے منشور سے ہٹ گئے ہیں؟ کیا عمران خان اپنے تمام وعدے بھول کر مصلحتوں کا شکار نہیں ہوئے ہیں؟ اگر وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر پائے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ آج ان کے اردگرد پارٹی کے وفادار  بانی اراکین اور نظریاتی لوگ نہیں بلکہ پارٹیاں بدلنے والے پیشہ ور کرپٹ سیاسی چہرے ہیں۔ حکومت کے کلیدی عہدوں پر کرپشن کنگ سیاسی لوٹے یا ان کے ذاتی اہل ثروت دوست  ہیں۔

ان کے موجودہ سیاسی رفقاء کی اکثریت صرف اقتدار اور عہدوں کیلیے ان کے ساتھ ہے۔  جبکہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ مثبت تبدیلی لانے کیلئے سیاسی سفر شروع کیا گیا تھا وہ نظام میں بہتری کیلئے تبدیلی کے نیک مقصد کے تحت عمران خان کے ساتھ چلے تھے۔ لیکن خان کی حکومت بننے کے بعد ان با صلاحیت اور باوفا لوگوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ اور بدقسمتی سے دوسری پارٹیوں سے آنے والے وہ کرپشن زدہ پیشہ ور لوگ شامل کر لیے گئے۔ جو صرف اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے پی ٹی آئی میں آئے۔

وزیراعظم کے حکم پر قوم کو ارطغرل غازی دکھایا جا رہا ہے۔ عمران خان اس ڈرامے کو غور سے دیکھیں۔ ارطغرل غازی نے جن ساتھیوں کے ساتھ  سفر شروع کیا تھا وہ لوگ آخر تک اس کے ساتھ رہے تھے۔ عمران خان تاریخ پڑھیں اکبر بادشاہ اور اورنگ زیب عالمگیر نے بالرتتیب 51 اور 52 سال حکومت کی۔ ان دونوں کی طویل حکومتوں کی وجہ یہ تھی کہ ان کی شروعات کے نظریاتی اور جنگی ساتھی آخر دم تک ان کے ساتھ رہے، انہوں نے حکومت بنا کر اپنے وفادار ساتھیوں کو نظر انداز نہیں کیا اور نہ ہی اپنے سیاسی دشمنوں کو اہم عہدے نوازے ۔

خان نے حکومت بنانے کے بعد بابر اعوان، شیخ رشید اور فردوس عاشق اعوان جیسے ان داغدار اور بدنام زمانہ لوگوں کو اہم عہدے دئے جو ہمیشہ سے ان کی سیاسی جدوجہد کے سخت مخالف اور اقتدار کیلئے سیاسی وابستگیاں بدلنے کیلئے بدنام زمانہ ہیں ۔ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ پراگندا لوگ ہیں جو ماضی میں خود خان صاحب کے بقول نا اہل کرپٹ اور مفاد پرست قرار دیے جاتے رہے ہیں۔ جبکہ پارٹی میں جو باصلاحیت اور وفادار لوگ خان کی سیاسی جدوجہد میں قربانیاں دیکر ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ انہیں کبھی بھی  حکومتی اور انتظامی عہدوں کے قابل نہ سمجھا گیا۔ حالانکہ وہ پی ٹی آئی کے  بے پناہ صلاحیت رکھنے والے ایماندار اور نظریاتی ورکر تھے۔

 اپنے باہمت اور ایماندار ورکروں کی بجائے دوسری جماعتوں سے سے آئے ہوئے کرپشن زدہ لوگ شامل کرنے سے خان کا انٹی کرپشن سلوگن ایک مذاق بن گیا۔ خان کی اس روش سے آج  عوام کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی پارٹی کے مخلص ورکرز بھی شکستہ دل اورمایوس ہیں۔ تبدیلی کے نام پر ووٹ دینے والے عوام نے بھی خان کے اس دو رنگی عمل کو قبول نہیں کیا۔ عوام کے خیال میں سیاسی افراتفری ، قاتل مہنگائی اور بدانتظامی کی اصل وجہ بھی حکومت میں شامل یہی کرپٹ لوگ اور ان کی نا اہلیاں ہیں۔ خان صاحب کا انٹی کرپشن کا نعرہ اس لئے ایک فریب سمجھا جانے لگا ہے کہ آج ان کے قریبی ساتھیوں میں لاتعداد مصدقہ کرپشن زدہ لوگ شامل ہیں

پاکستان کی دفاعی خود کفالت کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

پی کے ۔ 15، جے ایف ۔ 17 اور الخالد سے ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر پراجیکٹ عزم تک

افسوس کہ جب مشکلات میں گھرے ہوئے عمران خان کو پارٹی کے  مخلص اور باہمت ساتھیوں کی ضرورت تھی۔ تب بھی خان صاحب نے دوسری جماعتوں سے پی ٹی آئی میں آنے والے مفاد پرست  لوگوں پر اعتماد جاری رکھا۔ وہ مخالفین کو کرپٹ کہتے ہیں لیکن سیاسی مشکلات میں عدالتوں کے کرپٹ قرار دیے گئے اپنے قریبی دوست جہانگیر ترین سے سیاسی مدد مانگنے پر رسوائی میں ڈوب جاتے ہیں۔ اپنے ایسے  دو رنگی قول و فعل اور غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے وہ کم بیک کرنے کی بجائے مذید مشکلات میں ڈوبتے چلے گئے ہیں ۔ اور زوال کا یہ سلسلہ خان صاحب کی ضدی روش اور ان کے انتہائی قریب چاپلوس اور مفاد پرست سیاسی لوٹوں کی موجودگی کے باعث جاری ہے

بلا شبہ قوم کو خان کی لیڈر شپ میں تیسری طاقت سے بہت امیدیں تھیں ۔ لیکن وہ امیدیں خان کی اصل ٹیم کے بغیر پوری نہ ہو سکیں۔ خان نے  پرانے پارٹی ورکروں اور حقیقی  ساتھیوں پر سیاسی دوستوں کو ترجیح دی۔ اس سے پارٹی کے وفاداراور خان کی ہم خیال نوجوان نسل کا ہی نہیں ، پوری قوم کی دل شکنی اور نقصان ہوا ہے۔

آئین  پاکستان کے مطابق غیر مسلم اقلیت  قرار دئے جانے والے قادیانیوں  کی  طرف سے   احمدی مسلمان  ہونے کے دعوووں پر مسکرانے  اور انہیں مظلوم  گرداننے والے  فواد چوہدری  کو اہم وزارتیں نواز کر آئینِ پاکستان کی شدید نفی کی گئی۔ فواد چوہدری کی طرف سے اسلامی  نظریات و اقدار کیخلاف لادینی  موقف اور  دل آزارانہ  بیانات پر حکومت کی طرف سے خاموشی بڑے تلخ سوالات چھوڑ رہی ہے۔  

خان صاحب اپنے منشور ، اپنے  وعدوں اور اپنے وفادار سیاسی ورکروں سے بے وفائی کر کے سیاسی جنگ ہار رہے ہیں۔ وقت ان کیلئے مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ جس مخالف ٹیم کو آخری اوور میں 6 رنز درکار ہیں وہ پہلی بال پر چھکا مار کر جیتنے والی ہے۔ اور گراؤنڈ سے باہر بیٹھی  ٹیم مینجمنٹ  کو بھی اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ   اس اہم میچ کیلئے کپتان کا انتخاب  غلط تھا۔  خان صاحب کو کپتانی سونپنے والے  جانتے ہیں کہ کپتان کی ٹیم سلیکشن اور گراؤنڈ میں کئے گئے فیصلوں سے شکست نے قوم کو بہت مایوس کیا ہے۔

میرا خیال ہے کہ عمران خان  کی طرف سے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ  حاصل کر  لینا   بڑی  کامیابی تھا ۔ لیکن اس کے بعد بھی ان کی سیاسی مشکلات ختم ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اگر وہ ان اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے نکلنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اردگرد   سے انٹی اسلام  لوگوں، سیاسی وابستگیاں بدلنے والے چاپلوس ، مفاد پرست اورکرپٹ عناصر کا گند مکمل صاف کرنا ہو گا ۔

پاکستانی ریاست اور سیاست میں جب تک ضمیر فروش لوٹے  اور کرپٹ عناصر موجود ہیں، عوامی فلاح کا تصور خواب و خیال رہے گا۔ خان صاحب نے ابھی بھی اپنا ضدی  وطیرہ نہ بدلا تو یہ       ان کا  پہلا اور آخری پھیرا ہو گا۔  خان صاحب  سخت  ایڈمنسٹریشن  کے باوجود  بھی  اپنی حکومتی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہے تو  ان کو جلد ہی قصر اقتدار سے ہمیشہ کیلئے کوچ کرنا پڑےگا۔  کوئی مانے یا نہ مانے لیکن مہنگائی اور معاشی  جبر کے ستائے ہوئے  پاکستانی عوام  اب جنرل ضیاء الحق جیسے  عوام دوست مارشل لا کا استقبال کیلئے تیار نظر آئیں گے۔ ۔

فاروق درویش

پاکستان کے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میرا یہ مضمون پڑھیں

پاکستان کے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار حتف اور نصر بھارتی جارحیت کیلئے سڈن ڈیتھ

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button