ستارہ کیسے چمک سے نہ واسطہ رکھتا
چراغ ِ شب سے میں خود کو کہاں جدا رکھتا
سفیر ِ دشت کو سایہ ء گل سے کیا مطلب
شجر بھی راہ میں آتا تو کیا خدا رکھتا
ہوا ہوں غرق خود اپنی انا کے طوفاں میں
بھنور میں کشتی بھی ہوتی نہ ناخدا رکھتا
میں اجنبی ہی سہی اپنے آشنا کا مگر
اب اس کے بعد کسے اور آشنا رکھنا
جب آنسوؤں سے گِل ِ زندگی نکھرنے لگا
خوشی سے کیا میں امیدیں بجز قضا رکھتا
فضا میں اڑتے ہوئے جاگی آرزو یہ شہاب
پرندہ ہوتا جو دل بے قفس فضا رکھتا
(فلائیٹ لیفٹیننٹ بہزاد حسن شہاب)