سیکولرازم اور دیسی لبرلنظریات و مذاہبِ عالم

قادیانی خلیفوں کا عبرت انگیز انجام

مرزا غلام قادیانی اور تمام قادیانی خلیفوں کا ہولناک انجام زمانوں کیلئے عبرت انگیز حقیقت ہے

مجھے یقین ہے کہ اگر قادیانی حضرات اپنے جعلی مہدی اور بناؤٹی نبی مرزا جی کے کافرانہ عقائد، توہین انبیاء اکرام  و مذہب میں لکھی اس کی عریاں زبان، گستاخانہ تحریریں کھلے ذہن کے ساتھ پڑھیں، اس کے ہولناک انجام سے عبرت حاصل کریں تو کانوں کو ہاتھ لگا کر قادیانیت کو خیرباد کہہ دیں۔ مرزا غلام قادیانی کی بیت الخلا میں دردناک موت کے احوال کے بارے تو اکثر و بیشتر مسلمان اورخود قادیانی حضرات بھی خوب واقف ہیں۔ لیکن یہاں میں مرزا جی  کے بعد جماعت قادیان کے سربراہان خلیفوں کی عبرت انگیز اموات کا وہ ہولناک احوال بیان  کر رہا ہوں جس سے شاید تمام مسلمان تو آگاہ نہ ہوں لیکن ہاں ہر قادیانی  ضرور واقف ہے۔ دعا گو ہوں کہ  میرے یاد دلانے پر ان کے مقفل دلوں کے قفل کھلیں اور وہ کفرِ قادیانیت سے تائب ہو کر دائرہء اسلام میں لوٹ آئیں۔۔

مرزا غلام  قادیانی کے آنجہانی ہونے کے بعد اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین تھا۔  خود مرزا جی ہی کی روایت کے مطابق ، وہ ایک ایسا غلیظ مزاج اور ایسا بدبودار شخص تھا کہ جو نہ مدتوں تک  نہاتا  تھا اور نہ ہی اپنے بال اور ناخن تراشتا تھا۔ مگر اس  کے گھوڑے پر بیٹھنے کا انداز انتہائی تکبرانہ اور شاہانہ ضرور تھا۔  یاد رہے کہ حضرت علامہ اقبال رحمۃ علیہ ہر اس محفل میں شرکت کرنے سے صاف انکار کر دیتے تھے، جہاں بھی یہ بدبخت قادیانی خلیفہ مدعو ہوتا تھا ۔ ایک دن یہ بدبخت شخص گھوڑے پر سوار ہو کے نکلا تو گھوڑے کے بدکنے پر گرتے ہوئے اپنا ایک پاؤں گھوڑے کی رکاب میں پھنسا بیٹھا۔ اور پھر وہ پاؤں رکاب میں پھنسا رہا اور گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا خلیفہ جی کو گھسیٹتا اوراس کی ہڈیاں توڑتا رہا۔

گو کہ اس خدائی حادثے میں یہ  خلیفہ زندہ تو بچ گیا ۔ مگر قدرت کو اس منکر ختم نبوت اور گستاخ ِ دین کی عبرت ناک موت زمانے کو دکھانا منظور تھا۔ اس کے  زخم ناسور کی شکل اختیار کر کے پہلے انتہائی اذیت ناک اور مابعد جان لیوا ثابت ہوئے۔ تمام قادیانی حکیم اور ان کے سرپرست انگریز ڈاکٹرز بھی اس  کا علاج کرنے میں کلی ناکام رہے۔  اور یوں  مرزا قادیانی کا یہ پہلا جانشین  خلیفہ  بسترِ مرگ پر انتہائی درد ناک حالت میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے ، دنیا میں ہی  عذاب الہی جھیلتے ہوئے اپنے کاذب نبی مرزا غلام قادیانی  کے ٹھکانہ ہاویہ کو سدھار گیا۔

حکیم نورالدین کے اس انجام کے بعد مرزا کے ممکنہ جانشین مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی۔ مرزا قادیانی کی بیوی نے اپنے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ اکھنڈ بھارت کےخواب  دیکھنے والا  یہ بدترین گستاخ قرآن و رسالت خلیفہ ، جنسی تعلقات کا دلدادہ اورانتہائی عیاش نوجوان تھا۔ اس کو خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری نے جماعت قادیان چھوڑ کراپنا لاہوری مرزائی فرقہ بنا لیا۔ مرزا بشیرنے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔

ربوہ مں اس کی قصرخلافت نامی رہائش گاہ دراصل قصرِ جنسی جرائم تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں۔ ربوہ کے قصرمحمود میں اس عیاش خلیفہ نے صرف قادیانی نوجوان لڑکیوں کی عصمتیں ہی برباد نہیں کیں بلکہ یہ ملعون ایک ایسا پلید ترین جنسی بھیڑیا تھا جس کی جنسی ہوس سے اس کی اپنی  گیارہ  سالہ سگی بیٹی امت الرشید تک بھی محفوظ نہ رہی۔ اس گستاخِ اسلام دجالی خلیفہ کے جنسی جرائم کے بارے قادیانی جماعت کے منحرف ہونے والے لوگوں کے کھلے  تبصرے، حلفیہ بیانات، مباہلے اور شرعی قسمیں موجود ہیں۔

خدائے  وحدہ لا شریک ایسے پلید اور ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتا چنانچہ اس خلیفہ ثانی کی زندگی کا خاتمہ بھی ایسے دردناک حالات میں ہوا کہ اس فالج زدہ  کو زندگی کے آخری بارہ سال بسترمرگ پر ایڑیاں رگڑتے اور مرتے دیکھ کر خود قادیانی بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ بستر مرگ پر اس بدترین اسلام دشمن اورع گستاخ ِ رسول ملعون کی شکل و صورت پاگلوں کی سی بن چکی تھی اور وہ سر ہلاتا  مونہہ میں خود کلامی کرتا رہتا تھا۔ اکثر اوقات یہ  کسی مجنون اور پاگل وحشی کی طرح  اپنے بال اور داڑھی نوچتا رہتا اور اپنی ہی نجاست ہاتھ منہ پرمل لیا کرتا تھا۔ قادیانیت  کے بہت سارے لوگوں  ان سب غلاظت آلودہ  حالات و واقعات کےعینی شاہد ہونے کا اعلان کر کے اس مذہب سے تائب ہو چکے ہیں۔

ایک عرصہ تک بستر مرگ پر اذیت ناک زندگی گزارنے کے بعد جب یہ ملعون  جہنم کو سدھارا تواس کا جسم بھی عبرت کا اک عجب نمونہ تھا۔ ایک لمبےعرصہ تک بستر مرگ پر رہنے کی وجہ سے لاش روسٹ ہوئے چرغے کی طرح اس قدر اکڑ چکی تھی کی ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہرے پر پڑی سیاہیاں اور افلاکی لعنتیں چھپانے کیلئے لاش کا خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ اور پھرعوام الناس کو دھوکہ دینے کیلیے مرکری بلب کی تیز روشنی میں لاش کواس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر لعنت زدہ سیاہی نظر نہ آئے۔ لیکن ہاں تمام قادیانی تو ساری اصل حقیقت سے پوری طرح واقف تھے

مرزا بشیر الدین محمود کی دردناک موت کے بعد وراثت اور قادیانی امت سے جبری چندوں کے نام پر لوٹ مار کرنے والی نام نہاد خلافت مافیہ کا روایتی کرپشن سلسلہ جاری رکھنے کی خاطر اسی کا بڑا بیٹا مرزا ناصر احمد گدی نشین ہوا۔ یہ ٹھرکی خلیفہ اپنی عمرِ نوجوانی ہی سے گھوڑوں کی ریس اور جوا بازی کا  شوقین  ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوان مٹیاروں سے معاشققوں کا بھی انتہائی دلدادہ تھا۔ شراب و شباب کی طلب اور جنسی ہوس اسے اپنے دادا مرزا غلام قادیانی اور بیٹی سے زناکاری کے مرتکب اپنے باپ سے وراثت میں ملی تھی۔

یاد رہے کہ اس کے گھڑ سواری کے شہنشاہی شوق نے ربوہ میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب کی جان بھی لی۔ قادیانی حضرات بھی اس داستانِ ہوس کے گواہ ہیں کہ ان کے اس تیسرے خلیفہ کی موت بھی ایک بوڑھے جنسی مریض کی داستان ہوس و عبرت ہے۔ اس  شہوت پرست خلیفہ نے اڑسٹھ سال کی بوڑھی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور کی ایک ستائیس سالہ نوجوان قادیانی طالبہ کو یہ خلافتی فرمان جاری کرتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا تھا کہ ’’ آج  یہ ایک مقدس دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا ‘‘۔

اور پھر وہی کچھ ہوا جس کا خدشہ خود قادیانی مرکزی قیادت کو بھی تھا۔ خود سے چوالیس برس چھوٹی خوبرو بیوی سے ازدواجی تعلقات میں جسمانی طور پر کلی  ناکام ٹھہرنے کے بعد اس ٹھرکی بوڑھے دولہا نے مجبوراً اپنے ناکارہ و ناقابل مرمت  جنسی اعضاء میں نئی جوانی بھرنے کیلئے  مجبوراً دیسی کشتوں کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا ۔ اور پھر طاقت بخشنے والے ان کشتوں کے راس نہ آنے پر ان کشتوں کی آگ میں جل کر  خود ہی  کشتہ ہو گیا۔ جنسی طاقت کیلئے استعمال کئے گئے ان  کشتوں کے ری ایکشن کی وجہ سے مرنے سے پہلے ہی اس قادیانی خلیفہ کا جسم پھول کر کپا ہو گیا تھا ۔ سونے چاندی کے کشتوں کا زہریلا ناگ ایسا ڈسا کہ  مختصر عرصے  ہی میں خدائے قہارکے قہر میں  مبتلا یہ ملعون ،  محمدی بیگم  کے ناکام  عاشق، یعنی  اپنے انجہانی دادا مرزا غلام قادیانی کے پاس ملک عدم کو سدھار گیا ۔

مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو اس کا سوتیلا بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آ گیا۔ جب اسکی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیت سڑکوں پر آ گیا۔ لیکن ان باغیوں کو بزور قوت واپس گھروں میں دھکیل دیا کر خلافت پر قبضہ کر لیا گیا۔ جماعت قادیان کا یہ چوتھا خلیفہ مرزا طاہراحمد انتہائی آمرانہ اور سڑیل مزاج کا حامل تھا۔ اس کی فرعونی عادات  نے نہ صرف اسے بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کیا۔ قادیانی کلٹ میں اس کے خلاف بغاوت کے سبب جان کو خطرے اور اپنی گستاخانہ زبان درازی ہی کی وجہ سے یہ شخص پاکستان سے بھاگ کر لندن میں اپنے گورے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوا۔ اس کے دور خلافت میں اس بدبخت کے ہاتھوں مسلمان  تو کیا کسی قادیانی کی بھی عزت محفوظ نہیں تھی ۔

اس فرعون مزاج گستاخ نے پیروکاروں کو بات کرتے  نظریں جھکائے رکھنے  کا حکم دے رکھا تھا۔  یہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھا اور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت  بن گیا۔ مرزا طاہرکی خواہش تھی کہ اس کی دوائیاں کھانے والی  قادیانی عورتیں صرف لڑکے ہی پیدا کریں جن میں ذات پات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ لیکن یہ کذاب  قادیانیوں کو ’’ نر نسل ‘‘ پیدا کرنے کی گولیاں تو دیتا رہا مگر یہ اپنی بیوی کو ایک لڑکا نہ دے سکا اور اس کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

اس خبطی کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتا، کبھی باوضو تو کبھی بے وضو ہی نماز پڑھا دیتا۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع اورکبھی دوران نمازہی یہ کہتے ہو ئے گھر کوچل دیتا کہ ٹھہرو، میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنے پیشروؤں کی طرح مرزا طاہرکی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی۔ پرستاروں کے دیدار کے لیے لاش رکھی گئی تو چہرہ سیا ہ ہو کر لاش سے اچانک ایسا بدبودار تعفن اٹھا کہ لوگوں  کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اور لاش تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے یہ عبرتناک مناظر براہِ راست قادیانی ٹی وی پر بھی دیکھے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پانامہ سکینڈلز کی شہہ سرخیوں کا جعلساز کردار موجودہ خلیفہ مرزا مسرور بھی اپنی دیسی اور ولائیتی خواہشات اور بے لگام  جنسی ہوس کاریوں کے باعث ایک مدت سے ایک پراسرار بیماری میں مبتلا  ہے اور قادیانی قیادت نے اندرون خانہ اپنے اگلے بدبخت خلیفہ کی تلاش شروع کر دی ہے۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی بھارت کے قادیانی لیڈروں پر خصوصی مہربانیاں اور محبت بھری ملاقاتیں جاری ہیں۔

( فاروق درویش۔۔ واٹس ایپ کنٹیکٹ ۔۔ 00923224061000 )

(اس مضمون کیلئے ایک سابقہ قادیانی ، نومسلم سید منیر بخاری صاحب کی تحریر سے مدد لی گئی )


قادیانی گروہ کی سائبر دہشت گردی کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں

چناب نگر کے آنجہانیوں کا اکھنڈ بھارت کا خواب

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button