حالات حاضرہریاست اور سیاستسیکولرازم اور دیسی لبرل

این جی او جاسوس مافیوں کیخلاف فوجی اپریشن درکار ہے

جنرل راحیل شریف کے بعد عسکری ادارے سیاسی اور دیگر معاملات میں الجھے تو بیرونی فنڈنگ پر چلنے والی انٹی پاکستان این جی او  اداروں نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا

جنرل راحیل شریف کے دور میں     عسکری اور حساس ادارے امن دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ  دیگر مشکوک  مافیوں   پر کاری ضرب لگانے کیلئے بڑے سرگرم تھے   ۔ حساس اداروں کی طرف سے چھاپے کے دوران پاکستان مخالف سرگرمیوں کے شواہد سامنے آنے پر ایک  امریکی این جی او آئی میپ پر پابندی عائد اور دفتر سیل کر کے  ریکارڈ قبضے میں لے لیا  گیا تھا۔

جنرل راحیل شریف کے بعد عسکری ادارے سیاسی اور دیگر معاملات میں الجھے تو بیرونی فنڈنگ پر چلنے والی انٹی پاکستان این جی او  اداروں نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ عورت مارچ میں اسلامی اقدار و نظریات کیخلاف قابل اعتراض  نعروں اور انٹی فوج نظریات  کی تشہیر  کی  صورت میں برامد ہو رہا ہے۔ جس سے ایک بار پھر یہ بات درست ثابت ہوئی کہ غیر ملکی این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ملکی سلامتی اور ریاست کیلئے براہ راست خطرہ ہیں۔ امریکہ کے بغل بچوں اسرائیل اور بھارت کی آلہ کار این جی او  تنظیموں   کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ  نہ کی گئی  تو صورت حال سنگین ہوسکتی ہے۔

ماضی میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا  کا یہ بیان بھی بڑا چشم کشا تھا کہ کئی این جی او ادارے غیر ملکی ایجنسیوں  کو اطلاعات اور رسائی فراہم کرتے ہیں۔  ان کے مطابق سی آئی اے کی کوشش رہی  کہ ایسی این جی اوز کے ساتھ  اس کے تعلقات پاکستانی اداروں کے علم میں نہ آئیں۔ جنرل پاشا کے مطابق ڈی جی  سی آئی اے نے ان سے درخواست کی تھی کہ امریکی تنظیم ” سیو دی چلڈرن ” کا خفیہ کردار پاکستان میں بے نقاب نہ کیا جائے۔  یقیناً  جنرل راحیل  شریف نے وہ تاریخ پڑھ لی تھی ، جس سے  ہماری سیاسی قیادتیں  ہمیشہ بے بہرہ رہی  ہیں  ۔  ہمارے لیڈر ان حقائق کو معمولی سمجھتے ہیں  کہ غیر ملکی عناصر کو اندھی مراعات اور آزادانہ تجارت کی اجازت دینے والی عثمانی خلافت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ، جو ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاتم طائیانہ مراعات دینے والے رنگیلے شاہوں کے ساتھ ہوا تھا۔

ماضی  میں  حکومت کو انٹیلی جنس رپورٹس ملی تھیں کہ کئی  این جی او  اداروں کو بیرون ممالک سے ملنے والی خیراتی رقوم کا بڑا حصہ شدت پسندی اور ملک دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک سے سالانہ اربوں ڈالرز کی ” آڈٹ فری ڈونیشنز ” حاصل کرنے والی کئی این جی اوز اشرافیہ کا مقدس بچھڑا   بنی رہیں۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ ان میں سے اکثر تنظیمیں انسانی حقوق اور تعلیم کے نام پر ملک و قوم کی بدنامی اور انارکی پھیلانے کے مشن پر گامزن تھیں اور اب بھی ہیں۔ مگر جب بھی ان کیخلاف کوئی کاروائی ہونے لگتی ہے تو مغربی آقا انہیں بچانے کیلئے سفارتی مہمات پر نکل آتے ہیں ۔

شواہد موجود ہیں کہ پاک دشمن ایجنسیاں اپنے ایجنٹ بھیجنے کی بجائے اپنی  زرخرید  ایجنٹ  این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے حساس معلومات حاصل کرنے کا طریقہ اختیار کرتی ہیں۔   غیر ملکی   ایجنسیوں  نے اسلام آباد میں  فرینڈ شپ  کلبوں کی آڑ میں ایک وسیع و فعال نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جس میں ہائی سوسائٹی کی نوجوان نسل امن کی آشا برانڈ آزادانہ ماحول میں ملتی جلتی ہے۔جبکہ  میرے مطابق  ایسے  مراکز دراصل  سی آئی اے ، را اور موساد کے اڈے ہیں۔ لیکن ایسے ادارے این جی اوز کی آڑ کے پردے میں کسی کاروائی سے محفوظ  رہتےہیں۔   یہ کیونکر  ممکن نہیں   کہ  کئی این جی اوز سرحدی علاقوں، فوجی چھاؤنیوں کے قریب و جوار اور آفت زدہ علاقوں میں بحالی یا ترقیاتی کاموں کی آڑ میں حساس معلومات  اپنے ڈونر ممالک کو بھیج کر مخبری  کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں جاری دہشت گردی اور تخریب کاری کا بڑا سبب  بھی ایسی ہی لاتعداد مشکوک این جی اوز کی موجودگی  بتایا جاتاہے

یاد رہے کہ ماضی میں  ایسے ہی  این جی او مافیہ کی آنجہانی عاصمہ جہانگیر  ایک ایسی خاتون تھی جس کی گستاخیء رسالت پر آئینی تحریک کی بنا پر قانونِ توہین رسالت کی دفعہ 195- سی وجود میں آئی تھی۔ یہی وہ دو رنگی این جی او کردار تھی  ،  جو کبھی بھارت کے مندروں میں رامائن  پوجا پاٹ ، بال ٹھاکرے کی قدم بوسی اور  کبھی پاکستان دشمن بنگلہ دیشی قیادت سے ایوارڈ وصول کرتی نظر آتی تھی ۔ جبکہ اپنی مشکوک سرگرمیوں کیخلاف کاروائی سے بچنے کیلئے فوج اور آئی ایس آئی پر اپنے قتل کی سازش کے من گھڑت الزامات کا شور مچا کر خود ساختہ مظلوم بننے کی فنکار تھی۔ دیکھا جائے تو یہی خاتون سیاسی قیادتوں  اور فوج میں اختلافات پیدا کرنے  اور فوج مخالف جذبات بھڑکانے کی سازشی تھیوریوں کی بانی اور ماسٹر مائینڈ تھی ۔

 آنجہانی عاصمہ جہانگیریا ماروی سرمد جیسے این جی او کرداروں کی انٹی فوج اور دیگر مشکوک سرگرمیوں  سے یہ حقیقت عریاں ہوجاتی ہے کہ ایسی کئی این جی اوز یقینی طور پر بھارتی یا مغربی ایجنسیوں کیلئے بھی  کام کرتی ہیں۔ دراصل  ایسی تنظیمیں نان ایشوز کو مہان ایشوز بنا کر پوری دنیا میں ایسا واویلا مچاتی ہیں کہ جس سے پاکستانی معاشرے اور اور اسلام کا تشخص بدنام ہوتا ہے۔ نظریہ پاکستان اور ملکی سلامتی کیخلاف کام کرنے والی  ان موم بتی برانڈ تنظیموں کا طریق واردات کھلی عیاری ہے۔ پہلے یہ سیاسی اور آئینی معاملات کے بارے مخصوص پروپیگنڈا کے ذریعے اپنے سرپرست ممالک کے مفادات و موقف کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتی ہیں۔ اور پھر عوامی دباؤ بنا کر اپنے مذموم  مقاصد حاصل کرتی ہیں۔

 اسی این جی او مافیہ کے آقاؤں نے ” سیو دی فیس ” کو آسکر ایوارڈ سے نواز کر پاکستانی معاشرت کو تو خوب بدنام کیا، لیکن اس واقعے کی مضروب خاتون اور اس  فلم کی مرکزی اداکارہ کو معاوضہ نہ ملنے اور خطرناک نتائج کی دھمکیوں پر کوئی تنظیم ان کی مدد کیلیے نہیں آئی۔ جبکہ چیچن خواتین کے قتل اور خواتین کو زندہ درگور کرنے کے واقعات پر کسی این جی او نے شمعیں روشن نہیں کیں۔ ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آ چکی ہیں کہ کئی بڑی این جی اوز سفارت خانوں اور پارلیمنٹ ہوسٹلوں  میں خواتین    سپلائی  کرنے کے دھندے میں ملوث  ہیں۔ کئی میڈیا حضرات  بھی ان  این جی او ہستیوں کے سہولت کار ہیں۔ دراصل یہ ایک ٹیم ورک ہے کہ جہاں انٹی پاکستان قوتیں میڈیا کے موثر ہتھیار کو امن کی آشا برانڈ مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں، وہاں چند ضمیر فروشوں کا زر خرید  این جی او مافیہ ان اینٹی پاکستان طاقتوں کیلئے خفیہ جاسوس کا کردار ادا کرتا ہے۔

امید ہے کہ جنرل باجوہ   بھی  راحیل  شریف   کے نقش قدم پر   ایسے ملک دشمن اور مشکوک   این جی او  عناصر   سے آہنی  ہاتھوں سے نپٹیں گے ۔  جبکہ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ یہ این جی او مافیے اپنے یا اپنے آقاؤں کیخلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ریمنڈ ڈیوس جیسے خادمین کے ذریعے دبانے میں بھی کمال مہارت رکھتی ہیں۔ مگر چور مچائے شور کے مصداق۔  ان این جی  او  مافیوں میں   انٹی فوج  مہم جوئی  کرنے والی آنجہانی  عاصمہ جہانگیر   جیسے کردار ہوں   یا  آج افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے والے میڈیا  گروہ ،  دونوں بھارتی مافیہ کے سیاسی اداکاروں کی طرح آئی ایس آئی کے ہاتھوں قتل کی سازش کے ڈرامہ کے مظلوم کردار نبھانے کیلئے مہان اداکار ہیں ۔ یہی  پراگندا عناصر انٹی فوج سلوگن کے محرک  ہوتے ہیں اور یہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے  جلسے جلوسوں میں  امن دشمن  عناصر داخل   کر کے   بدامنی  پھیلانے والے   امن شکن پروگرامرز   ہیں۔

فاروق درویش — واٹس ایپ کنٹیکٹ — 00923224061000


پاکستان ائرفورس بلوچستان میں نیا ائر بیس تعمیر کر رہی ہے

 

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button