تاریخِ عالم و اسلامحالات حاضرہ

طالبان وزراء کی پیوند زدہ سفید پوشی کا آنکھوں دیکھا حال

میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پیوند زدہ لباس والے یہ فقیر منش لوگ روس جیسی سپر پاور کو شکست دینے ، امریکی سامراج اور مغربی استعمار کو لوہے کے چنے چبوانے والے ملک کے حکومتی وزیر ہیں

یہ نائن الیون سے ایک سال پہلے طالبان کے دور حکومت میں افغان کابینہ کے ایک عوامی اجلاس کا میرا اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا حال ہے۔ جب میرے ایک بزرگ صحافی دوست نے  ایک مختصر وزٹ پر قندھار ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی۔ میں نے اس اچانک وزٹ کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ قندھار میں افغان طالبان کے وزراء کا اجلاس ہے اور دو لوگوں کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔  میرے دل میں طالبان وزراء سے ملنے کا دیرینہ اشتیاق کسی عاشق کے شوق دیدار کی آگ کی طرح بھڑک اٹھا۔ دو دن بعد ہم پہلے پی آئی اے کے اڑن کھٹولے پر کوئٹہ اور پھر  بائی روڈ قندھار کے سفر پر رواں تھے

قارئین اکرام یہ یاد رہے کہ طالبان کا سابقہ دور حکومت افغانستان میں ریاستی اور انتظامی امور یا نظریاتی منشور کے اعتبار سے ایک کامیاب ترین دور تھا۔ جہاں ہر امیر اور غریب کیلئے یکساں قانون اور مساوی انصاف کی حکمرانی تھی۔ وہاں اُس حکومت کے کسی بھی ادارے میں کرپشن کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ پورے افغانستان میں پوست کی کاشت اور افیون جیسی لعنتوں سے چھٹکارا مل چکا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت جیسے فتنہ گر کیلئے پاکستان کیخلاف دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کے مواقع زیرو ہونے کی وجہ سے امن و امان تھا۔

قندھار پہنچنے پر ہمیں مسجد سے متصل ایک مہمان خانہ میں مٹن پلاؤ اور قہوہ سے تواضع کے بعد سرکاری جیپ میں شہر کے مرکزی حصے میں سڑک کنارے واقع ایک چھوٹے سے باغ میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں لوہے کے چند میزوں کے دونوں طرف آمنے سامنے فولڈنگ کرسیاں اور چند ہی گز دور نماز کیلئے کھجوری صفیں بچھیں تھی۔

باغ میں جن سٹولوں پر ہم بیٹھے تھے، وہاں اب دو درجن کے قریب اور لوگ بھی آ چکے تھے۔ اسی اثنا میں گیٹ پر چوکیدار نے زور دار سیٹیاں بجائیں تو دیکھا کہ چند موٹر سائیکل اور سائیکل سوار پگڑی والوں کی آمد ہوئی ہے۔ چوکیدار نے کسی دبنگ ٹریفک آفیسر کی طرح ان کی موٹر سائیکلیں مناسب جگہ پر کھڑی کروائیں۔ اور گھر سے کام پر نکلنے والے مزدوروں کی طرح ہاتھوں میں پیتل کے ٹفن اور تندوری رومالوں میں روٹیاں تھامے وہ سادہ طبع سے لوگ اس چوکیدار کو مودب انداز میں سلام اور شکریہ ادا کرتے ہوئے ہماری طرف چل پڑے۔

چند منٹوں بعد کچھ اور سائیکل سوار اور پھر ایک وین پر سوار چھ سات بزرگوں کا ایک اور گروپ باغ میں داخل ہوا۔ ان سب آنے والوں نے اپنے اپنے کھانے کے ٹفن اور تندوری رومال میزوں پر رکھے اور سامنے بچھی ہوئی کھجوری صفوں پر جا بیٹھے۔ ان میں سے ایک بوڑھے شخص نے اذان دی ، باغ میں موجود لوگوں کو اشارے سے نماز کیلئے بلایا اور جماعت کھڑی ہو گئی۔

میں اگلی صف میں بیٹھے لوگوں کی جیکٹوں ، کرتوں اور ساتھ والے نوجوان کی آستین پر پیوند دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ روس ، امریکہ اور مغربی طاقتوں کو شکست دینے والی افغان قوم کس قدرغربت میں ڈوبی ہے۔ ان افغانوں کے گھسے پرانے جوتوں کے درمیان پڑے میرے ولائتی جوگر گویا افلاس زدہ مشرقی لوگوں کے ہجوم میں کسی اکلوتے یورپین ملین ڈالر مین کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔

مجھے ابھی تک کچھ اندازہ نہیں تھا کہ یہ پگڑیوں والے کون سی مخلوق ہیں۔ میں نے دوسری مرتبہ اپنے دوست سے پوچھا کہ ہم طالبان وزراء کے اجلاس میں کب جائیں گے۔ لیکن وہ مجھے خاموشی کا اشارہ کر کے ڈائری میں کچھ لکھنے میں مصروف ہو گئے ۔ پھر ان پگڑی والوں نے اپنے اپنے ٹفن اور تندوری رومال کھولے۔ اور تمام لوگوں کو کھانے میں شریک ہونے کا پر زور انداز میں اشارہ کیا ۔ کسی شخص کے ٹفن میں سرخ لوبیہ یا ساگ اور کسی کے رومال میں سوکھی روٹی اور شکر تھی۔ کچھ ڈبوں میں سرکے میں بھیگا ہوا پیاز، اچار اور سادہ سلاد تھا۔ اس مشترکہ کھانے سے فارغ ہوتے ہی ایک بزرگ نے مختصر سی دعا کروائی۔ اور سب لوگ ان حضرات سے مصافحہ کرنے لگے۔

دعا کے اختتام پر چند لوگ ہاتھوں میں کاغذات اور پرچیاں تھامے ان پگڑی والوں طرف بڑھے ۔ چند لوگوں کے کاغذ دستخطوں کے بعد واپس کر دیے گئے۔ اور کچھ کے کاغذات جائزہ لینے کے بعد اپنے تھیلوں میں رکھ کر رسیدی پرچیاں دے دی گئیں۔ ان سب حضرات نے مجھ سمیت تمام موجود افراد سے قطار میں باری باری الوداعی مصافحہ کیا اور اللہ اکبر ، خدائے پامان کی گردان کرتے آناً فاناً روانہ ہو گئے۔

ان حضرات کے جاتے ہی میں نے تیسری بار اپنے دوست سے بڑے مضطرب لہجے میں پھر پوچھا کہ اب تو شام ہونے کو ہے، ہماری طالبان منسٹرز سے ملاقات کب ہوگی۔ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے، درویش صاحب! آپ بڑے سیانے بنتے ہیں لیکن آپ دو گھنٹے ساتھ رہنے والے افغان طالبان حکومت کے ان وزیروں کو بھی نہیں پہچان سکے؟ پھر خود ہی بتانے لگے کہ چند ماہ قبل جب میں بھی  پہلی بار ان لوگوں سے ملنے آیا تھا تو آپ کی طرح میں بھی دھوکہ کھا گیا تھا ۔

میرے بھی گمان میں نہ تھا کہ پیوند زدہ لباس اور خاک سے اٹی ہوئی زلفوں والے یہ فقیر منش اور سادہ طبع لوگ روس کی سپر پاور کو شکست دیکر  امریکی سامراج مغربی استعمار اور بھارت کو افغان سرزمین سے بھاگنے پر مجبور کر دینے والے ملک کے وزیر ہو سکتے ہیں۔

میں دم بخود خاموشی میں ڈوبا ہُوا نیلگوں فضا کو گھور رہا تھا، میرے دل میں عجیب سی کیفیت موجزن تھی ۔ میری دھندلائی ہوئی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ میں اس تاریخ سے واقف تھا کہ فاتح بیت المقدس ایوبی سلطان کے انتقال کے وقت گھر میں کفن اور تدفین کیلئے درکار رقم بھی نہ تھی ۔ مجھے یقین ہو رہا تھا کہ پوری دنیا کی صلیبی فوجوں کو شکست دینے والے زنگی اور ایوبی جیسے حکمرانوں کی جرآت و کردار کے عسکری اور نظریاتی وارث اب ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی ادھوری تاریخ مکمل کرنے کیلئے میدانِ سیاست و حرب میں پورے قد اور ساری قدروں کے ساتھ موجود ہیں۔

سنتِ مولائی کے علمبردار ان خاک نشینوں کو شکست دینا برگر خور امریکہ اور آسائش پسندی میں غرق اس ماڈرن مغرب کے بس کی بات نہیں ہے۔

غزوہ ہند کا معرکہ سونے کے محلات والے کھرب پتی شاہانِ حشمت یا کل فضائی اڈے دینے کے انکار میں "ابسولیوٹلی ناٹ” اورپھر امریکی فوجیوں کو اسلام آباد کے ہوٹلوں کی مخملی گود دینے والے امریکی غلام اور زر پرست حکمران ہرگز نہیں ، پاکستان کے حلیف افغان طالبان جیسے پیوند زدہ پوشاک پوش اور خود دار خدا پرست لڑیں گے۔

(تحریر : فاروق درویش : واٹس ایپ : 03324061000) 


ویت نام کی گوریلا وار سے جدید طالبان کی یلغار تک

FAROOQ RASHID BUTT

نام فاروق رشید بٹ اور تخلص درویش ہے، چیف ایڈیٹر پاکستان ڈیفنس ٹائمز، کالم نگار، شاعر اور ویب سائٹس ایکسپرٹ ہیں ۔ آج کل ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک ایشوز ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کے شعبے سے منسلک ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button