کلامِ اقبال اور دورِحاضر
شاعر مشرق حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی یہ شہرہء آفاق غزل موجودہ حالات اور صاحبان ِ اقتدار کے فتنِ نامراد کی اس حد تک حقیقی تصویر پیش کرتی ہے کہ گویا آج کے دور مسلم اور موجودہ حالات پر ہی لکھی گئی کوئی تازہ غزل ہو
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے
حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی یہ شہرہء آفاق غزل موجودہ حالات اور صاحبان ِ اقتدار کے فتنِ نامراد کی اس حد تک حقیقی تصویر پیش کرتی ہے کہ گویا آج کے دور مسلم اور موجودہ حالات پر ہی لکھی گئی کوئی تازہ غزل ہو۔ پہلا شعر یعنی مطلع ان کے فلسفہء خودی کا ترجمان ہے۔ اقبال اپنے سخن میں فقر کا استعمال فقیری یا عجز و انکساری اور خودی کے معنوں میں کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ صالح بندہء فقیر صرف مالک کائنات کی اطاعت کرتا ہے سو نہ تو اس کی نظر میں وقت کے زورآور سکندروں اور بادشاہوں کی کوئی حقیقت و حیثیت ہوتی ہے اور نہ ہی مادیت پرستی اور دنیاوی عہدوں سے کوئی غرض و غایت۔ ان کے مطابق اللہ کے در کے فقیر لوگ، تکبر و طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی گئی سرداری یا کمزور سے خراج کے حصول کو اپنی خودی اور عزتِ نفس کیلئے ایک طعنہ گردانتے ہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اقبال کا یہ شعر بھی فی زمانہ ان تمام سامراجی گماشتوں اور صلیبی غلاموں کے کردار کی عکاسی کرتا ہے جو اصل خالق حقیقی کو بھلا کر اپنے سامراجی آقاؤں کو خدا بنا بیٹھے ہیں یا جنہوں نے ایک اللہ کی اطاعت سے مونہہ موڑ کر حصول زر اور حصول و طوالت اقتدار تک تمام امیدیں عالم دہر کے دنیاوی فرعونوں سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ اقبال ایسے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اپنے رب کی رحمتوں سے نا اْمید ہو کر دیار کفر اور غیروں سے امیدیں رکھنے والے بندہء خدا تیرا یہی فعل ہی تو دراصل کارِ کفر اورعین کافری ہے۔علامہ صاحب کے مطابق ایسے لوگ گناہ گار اورحقیقی شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو آج عالم اسلام کے صاحبان اقتدار حضرت اقبال کے اس آفاقی شعر میں مخاطب کیے گئے لوگوں کی زندہ مثال ہیں ۔
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
حضرت اقبال کا یہ شعر بھی گویا اہم منصبوں پر فائز تمام نااہل حکمرانوں اور منصب داروں کے فتن کا بیان ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تقدیر ایسے لوگوں کو منصب و شاہی نواز دیتی ہےجو کسی طور اس عہدے اور منصب کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ ایسے ہی نااہل اور کمین لوگ جب برسراقتدار آتے ہیں تو وہ اپنے منصب کے فرائض اور عوام الناس کےحقوق بھول جاتے ہیں۔ کرپشن اور اقرباپروری ان کا خاصہء اقتدار ٹھہرتی ہے۔ خود کو مختارِ کل سمجھنے والے انسانیت کے تقاضوں سے بے پروا ہو کر اپنے فرائض منصبی سے عملی طور لاتعلق ہو کر عیاشی و رنگ رنگیلیوں میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انسانیت کے حقوق کی پاسداری کے لیے ہی انہیں یہ منصب وزارت یا مسند شاہی عطا ہوئی ہے۔ میری رائے میں یہ شعر اس حدیث نبوی کی بھی تفسیر ہے جس میں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بیان کی گئی کہ وقت آخر اہل اور خاندانی حسب نسب والے یک بندے محکوم و فاقہ کش اور کمین و نا اہل لوگ مسند اقتدار پر براجمان ہوں گے۔ پاکستانی حکمرانوں کا ننگ ملک و ملت نااہل حکمران ٹولہ اس کی زندہ مثال ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگا ہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اقبال کا یہ شعر انسانی چہرے کے کھلی کتاب ہونے اور اس کی نظروں میں چھپے جذبوں اور ارادوں کی زبان کی حقیقت بیان کرتا ہے کہ دلوں کے معاملات آنکھوں سے ہی تو عیاں ہوتے ہیں، گر نگاہوں میں شوخی و مستی اور اقرارِ وفا نہ ہو تو عشق، پیار اور محبت مصنوئی، بناوٹی اور بے معنی ہوتے ہیں۔ انسان کی نگاہوں سے اس کے ارادوں کی خبر ہوتی ہے۔ نگاہیں اورحرکات جسمانی کسی کے قول و فعل اور راست عمل کی حقیقی ترجمان ہوتی ہیں اور اہل نظر کسی کی نظروں سے ہی اس کے جذبات کو پڑھ لیتے ہیں ۔
اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل ِسکندری کیا ہے
اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ دنیاوی مال و دولت اور قصرِ شاہی سرمائہء فانی ہیں سو میری فقیرانہ نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ مجھ پر اہل ِ فتن بادشاہوں کا عتاب اور ان کے غصے کی وجہ میری ذات سے منسلک میرا فقر، فلسفہء خودی اور راست عمل ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ دنیا میں سکندر جیسے شاہان ِ عصر کس انجام سے دوچار ہوئے۔ سکندر اور اس جیسے دوسرے شہنشاہوں نے دنیا پر حکمرانی کے خواب تو دیکھے لیکن بالآخر سب کے سب صرف خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کا سب مال اسباب اور زر و دولت یہیں رہ گیا۔ احباب تاریخ عالم گواہ ہے کہ اسلامی فکر رکھنے والے سچے اور کھرے شعرا و ادباء حضرات ہمیشہ ریاستی جبر اور اہل شر کی تنقید کا نشانہ بنے لیکن جابروں اور ظالموں کو تاریخ کے راقم نے نہ معاف کیا نہ کرے گا۔ ہٹلر ہو یا مسولینی، صدام حسین ہو یا حسنی مبارک سب طاقتور سب کچھ یہیں چھوڑ کر جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ انسان میں سرداری اور اقتدار کی فطری خواہش تو ازل سے ہے لیکن وہ اس حقیقت سے نا آشنا ہے کہ ہر دو جہاں میں اصل مقتدر اعلی صرف اور صرف اللہ سبحان تعالی ہے جس نے اسے اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے مگر یاد رہے کہ اس کے ساتھ ہی اس میں خودی و خوداری، غیرت ِ نفس و حمیت پر جان قربان کرنے کا جذبہ بھی عطا کیا ہے۔ لہذا اگر کسی کو اپنی غیرت و حمیت، قومی و ملی خودداری کے عوض اقتدار و بادشاہت ملے تو وہ سودا بے سود اور غیرت ِ نفسی کی موت ہوتا ہے۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے دیس میں حسینیت کے علمبردار ہونے کے دعویدار صلیبی غلام حکمران بھی یزیدیت کی راہ پر گامزن ہیں یا عالمی غنڈوں سے بھیک میں ملی ہوئی مسندوں کے ساتھ ملک و ملت سے غداریوں کی داستانیں رقم کر رہے ہیں
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے
غزل کے آخری شعر یعنی مقطع میں حضرت اقبال پسند کئے جانے پر اپنے قارئین اور عاشقین سخن سے اظہار تشکر کرتے ہوئے انتہائی عاجزانہ انداذ میں کہتے ہیں کہ میری شاعری اور میرے فلسفہء سخن کو چاہنے والوں کو میری سوچ، انداز بیاں، فقیر منش فکر اور عاجزانہ طبیعت پسند آئی ہے وگرنہ نہ تو میرے فن سخن اور شاعری میں کوئی غیر معمولی بات ہے اور نہ ہی میرے اشعار کوئی جادوئی اسلوب رکھتے ہیں۔ حضرت اقبال کا یہ شعر ان کے صاحبِ عجز و انکسار اور مرد ِ قلندر ہونے کا گواہ ہے۔
بحر :۔ بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
ارکان بحر : مَفاعِلُن۔۔۔ فَعِلاتُن ۔۔۔مَفاعِلُن۔۔۔۔۔ فَعلُن
ہندسی اوزان ۔ 2121۔۔2211 ۔۔2121 ۔۔۔22۔
آخری رکن یعنی فعلن (22 ) کی جگہ فعلان (122) ، فَعِلُن (211) اور فعِلان (1211) بھی آ سکتے ہیں ۔
تقطیع
ن ۔۔ گا ۔۔۔ ہ ِ ۔۔۔ فق ۔۔۔ 2121
ر ۔۔۔ میں ۔۔۔ شا ۔۔۔ نے ۔۔۔ 2211
س ۔۔ کن ۔۔۔۔ د ۔۔۔ ری ۔۔۔ 2121۔
کیا ۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔ 22
خ ۔۔ را۔۔۔ ج ۔۔ کی۔۔ 2121
جو ۔۔۔ گ ۔۔ دا ۔۔۔ ہو ۔۔۔ 2211
وہ ۔۔۔۔۔ قی ۔۔ ص۔۔۔ ری ۔۔ 2121
کیا ۔۔۔ ہے ۔۔۔۔ 22۔
تقطیع کرتے ہوئے یاد رکھئے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ “کیا” اور “کیوں” کو دو حرفی یعنی “کا” اور “کوں ” کے وزن پر باندھا جائے گا ۔ گا، گے،تقط گی، کہ، ہے، ہیں، میں، وہ، جو، تھا، تھے، کو، کے ، تے ، رے اور ء جیسے الفاظ دو حرفی وزن پر بھی درست ہیں اور انہیں ایک حرفی وزن میں باندھنا بھی درست ہیں ۔ لہذا ان جیسے الفاظ کیلئے مصرع کی بحر میں جس وزن کی سہولت دستیاب ہو وہ درست ہو گا ۔
ایسے ہی “ے” یا “ی” یا “ہ” پر ختم ہونے والے الفاظ کے ان اختتامی حروف کو گرایا جا سکتا ہے ۔ یعنی جن الفاظ کے آخر میں جے ، گے، سے، کھے، دے، کھی، نی، تی، جہ، طہ، رہ وغیرہ ہو ان میں ے، ی یا ہ کو گرا کر انہیں یک حرفی وزن پر باندھنا بھی درست ہو گا اور اگر دوحرفی وزن دستیاب ہو تو دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔
اگر کسی لفظ کے اختتامی حرف کے نیچے زیر ہو اسے دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے اور یک حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ( مثال : دشت یا وصال کے ت یا لام کے نیچے زیر کی صورت میں انہیں دشتے اور وصالے پڑھا جائے گا ۔ ایسے الفاظ کی اختتامی ت یا لام کو بحر میں دستیاب وزن کے مطابق یک حرفی یا دو حرفی باندھنے کی دونوں صورتیں درست ہوں گی ) ۔
تقطیع کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رہے کہ نون غنہ اور ھ تقطیع میں شمار نہیں کئے جائیں گے یعنی تقطیع کرتے ہوئے ، صحراؤں کو صحراؤ ، میاں کو میا، خوں کو خو، کہیں کو کہی ۔ پتھر کو پتر، آنکھ کو آک اور چھیڑے کوچیڑے پڑھا جائے گا
فاروق درویش
میری یہ غزل بحر و اوزان ار اصول تقطیع کے ساتھ پڑھیں
کمال کی فقیری ہے